سائنسی ادب اور نظم کائنات
سائنسی شعبوں میں ملک جوں جوں ترقی کرتا گیا سائنسی ادب کے لیے راہ ہموار ہوتی گئی
ISLAMABAD:
آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مغربی ممالک سب سے آگے ہیں اور اسی سرفرازی کی وجہ سے پوری دنیا میں ان کی عظمت کا ڈنکا بج رہا ہے۔ وہ چاند کو مسخر کرنے کے بعد اب سیاروں کو مسخر کرنے کی جانب گامزن ہیں ۔ وہ ایسی ایسی نئی نئی ایجادات کر رہے ہیں کہ جس سے عقل دنگ ہے۔
ایک ایسا بھی وقت تھا جب مسلمان سائنسی علوم میں ہادی و رہبر کی حیثیت رکھتے تھے، قانون قدرت اور رموز فطرت کے متلاشیوں میں مسلمانوں کا نام سب سے آگے تھا۔ وہ کون سا سائنسی شعبہ تھا جس میں مسلمان آگے نہیں تھے۔ ابن ہیثم، ابن رشد، ابو ریحان، فارابی اور عمر خیام وغیرہ کو تو آج بھی مغرب اپنے پیر ومرشد کے طور پر مانتی ہے۔ ان ہستیوں نے سائنسی علوم کو جہاں تک پہنچایا تھا مغرب نے وہیں سے کام کو آگے بڑھایا تھا پھر وہ تو آگے ہی آگے بڑھتے گئے مگر مسلمان طوائف الملوکی کا شکار ہوکر پیچھے ہی نہیں رہ گئے بلکہ اس راستے کو ہی بھول گئے۔
اب یہ حال ہے کہ ہمیں یہ تک نہیں معلوم کہ ہمارے آبا و اجداد نے سائنسی میدان میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ دراصل ہماری کاہلی اور علم سے دوری نے یہ دن دکھائے ہیں کہ ہم جہاں معاشی طور پر مغرب کے دست نگر ہیں وہاں سائنسی علوم کے حصول کے لیے ان کے محتاج ہیں، ہمارے بچے ان کی یونیورسٹیوں میں جاکر یہ علوم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے سائنسی علوم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے ہمارا ادب بھی سائنسی قلم کاری سے محروم ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں کے دور میں غلامانہ زندگی سے نجات کے لیے ضرور جدوجہد کی اور آخر کار آزادی حاصل کرلی مگر علوم و فنون خاص طور پر سائنسی علوم کے حصول کی جانب کم ہی توجہ مرکوز کی گئی تاہم سرسید جیسے مسلمانوں کے غم خواروں نے جہاں مسلمانوں کے دیگر مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کی وہاں مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے اور انھیں دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سائنسی علوم و فنون سے بہرہ مند کرنے پر بھی توجہ دی۔ انھوں نے جب اس جانب توجہ مبذول کی تو انھیں خود مسلمانوں نے انگریزوں کا یار اور کافر تک قرار دیا مگر وہ ان کے طعنوں اور طنز سے ذرا بیزار نہیں ہوئے اور قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے مسلسل کام کرتے رہے۔ سرسید احمد خان اپنے قائم کردہ اورینٹل کالج اور پھر علی گڑھ یونیورسٹی کے ذریعے مسلمانوں کو دور جدید کے علوم اور خاص طور پر سائنسی علوم سے بہرہ مند کرتے رہے پھر وہیں کے طالب علموں نے قیام پاکستان کی مشکل منزل کو سر کیا اور سائنسی علوم سے سرفراز ہوکر پاکستانی قوم کو مستفید کیا۔
سرسید احمد خان کے بعد اگر کسی مسلمان نے سائنسی علوم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا تو وہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی شخصیت ہے آپ فرینکفرٹ یونیورسٹی سے کیمسٹری کے مضمون میں پی ایچ ڈی کے ڈگری یافتہ تھے۔آپ نے ہندوستان واپسی پر دہلی کے طیبہ کالج میں جڑی بوٹیوں کی تحقیق کا ادارہ قائم کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ پی سی ایس آئی آر (PCSIR) کے 1947 سے 1966 تک چیئرمین رہے۔ کراچی یونیورسٹی میں کیمسٹری کے شعبے کا قیام آپ ہی کا مرہون منت ہے۔ آپ نے ہی پاکستان ایسوسی ایشن آف سائنٹسٹ اینڈ سائنٹفک پروفیشنز (PASSP) جیسی فعال سائنسی تنظیم قائم کی تھی۔ آپ نے قیام پاکستان سے قبل وہاں سے 1942 میں ایک سائنسی رسالہ ''رسالہ سائنس'' کے نام سے نکالا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا اردو میں شایع ہونے والا رسالہ تھا۔
آپ نے ہی ادب کے ذریعے سائنسی شعور اجاگر کرنے کی تحریک چلائی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد سائنسی علوم کی ترویج پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی کیونکہ جدید دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے سائنسی میدان میں ترقی کرنا ناگزیر تھا۔ ملک میں سائنس کی ترقی کے لیے کی جانے والی موثر کوششوں کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ملک میں سائنس دانوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا جن کی شب و روز محنت سے پاکستان سائنسی میدان میں ایک ابھرتا ہوا ملک بن گیا۔
سائنسی شعبوں میں ملک جوں جوں ترقی کرتا گیا سائنسی ادب کے لیے راہ ہموار ہوتی گئی۔ کئی سائنسدان جو ادب سے بھی شغف رکھتے تھے سائنسی ادب کے فروغ کے لیے کام کرنے لگے اور وہ اس میں بہت کامیاب رہے اس لیے کہ ملک میں ادیبوں شاعروں کی کمی نہیں ہے وہ سائنسی ماحول میں اپنی نگارشات مختلف محفلیں منعقد کرکے پیش کرنے لگے تاہم اس سلسلے میں ایک باقاعدہ تنظیم کے قیام کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی۔ سائنسی ادب کا ذوق رکھنے والے حضرات نے کچھ ہی عرصے میں بزم سائنسی ادب تشکیل دے دی۔ اس بزم کے قیام کے سلسلے میں مرحوم عظمت علی خان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کا نام علمی اور ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیمیا، ارضیات اور جغرافیہ کے مضامین میں گریجویشن کرنے کے بعد کراچی تشریف لائے تھے اور اردو کالج میں معلمی کے فرائض انجام دینے لگے۔ اس وقت میجر آفتاب حسن اردو سائنسی اصلاحات سازی پر کام کر رہے تھے۔
آپ نے ان کے ساتھ مل کر تقریباً ایک لاکھ انگریزی اصلاحات کے اردو مترادفات شایع کیے جو جون 1969 میں فرہنگ کیمیا، طبیعات، ریاضیات اور فلکیات کا حصہ بنے۔ یہ اصلاحات طالب علموں، اسکالروں اور قلم کاروں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھیں۔ بزم سائنسی ادب کے قیام نے سائنسی ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ بزم گزشتہ کئی برسوں سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم عام کرنے ، سائنسی تحقیقات سے وابستہ سائنسدانوں کو سہولیات مہیا کرنے اور ادیبوں شاعروں قلم کاروں اور صحافیوں کی عام فہم زبان میں پیش کی گئیں نثری، شعری اور تقریری کاوشوں کے ذریعے عوام کو سائنسی آگہی دینے اور سائنسی شعور اجاگر کرنے میں مصروف ہے۔ اس بزم کی ہر ماہ کے آخری ہفتے کی شام پابندی سے ایک نشست منعقد ہوتی ہے جس میں بڑی تعداد میں سائنسدان، شاعر اور ادیب شرکت کرتے ہیں۔
یہ سلسلہ تو کامیابی سے جاری و ساری ہے مگر اس بزم میں پیش ہونے والی نگارشات کو شایع کرنے کے لیے ایک مستند رسالے کی ضرورت محسوس ہونے لگی جس میں یہ تمام قیمتی نگارشات مفصل اور معتبر طریقے سے سلیقے کے ساتھ شایع ہوسکیں۔ 2011 میں ایک سہ ماہی رسالہ ''نظم کائنات'' کے نام سے جاری ہوا اس کی روح رواں محترمہ شاہین حبیب ہیں۔ یہ حبیب الحسن صدیقی کی بیٹی اور عاشق پاکستان پروفیسر ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی بھتیجی ہیں۔ امیر حسن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ آپ نے وہاں طالب علم رہنما کی حیثیت سے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ آپ کی دعوت پر قائد اعظم کئی مرتبہ وہاں کے طلبا سے خطاب کرنے آئے اور ان میں تحریک پاکستان میں حصہ لینے کے سلسلے میں جوش و ولولہ پیدا کیا۔
آپ قیام پاکستان سے قبل بھی اور بعد میں بھی قائد اعظم کے مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ آپ نے پاکستان آکر علمی ادبی اور سماجی شعبوں کے مسائل کو حل کرنے میں اہم حصہ لیا۔ آپ کی پاکستان سے محبت لازوال تھی مشرقی پاکستان پر بھارت کے قبضے کی خبر سنتے ہی آپ کا انتقال ہوگیا تھا۔ رسالہ نظم کائنات کی بانی و مدیرہ طبیعات اور کیمیا میں ایم ایس سی ہیں۔ آپ کراچی کے کئی کالجوں میں سائنس کی پروفیسر کے فرائض انجام دے چکی ہیں۔
آپ سائنسی مضامین کے علاوہ ادبی مضامین بھی تحریر کرنے میں ملکہ رکھتی ہیں۔ آپ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں اور ایک مستند شاعرہ ہیں۔ رسالہ نظم کائنات کے موضوعات تعمیر پاکستان، اسلام اور قرآن اور سائنسی پاکستان ہیں۔ یہ ملک میں سائنسی انقلاب برپا کرنے اور فعال سائنسدانوں کی تعداد بڑھانے کے لیے کوشاں ہے یہ رسالہ سائنسی نثر و نظم سے مرصع ہوتا ہے۔ اس میں معروف سائنسدانوں کے تحقیقی مضامین بھی شایع ہوتے ہیں۔ اس میں طالب علموں کی دلچسپی کے مواد کے علاوہ، سائنسی خبریں، سائنسی اور ادبی کتابوں پر تبصرے اور قرآنی تحقیق پر مقالات پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کی کاپیاں باقاعدہ سے ملک بھر کی جامعات اور تحقیقی اداروں کو مفت بھیجی جاتی ہیں۔
نظم کائنات جس خوبی کے ساتھ قوم کی خدمت کر رہا ہے اس کا تمام کریڈٹ اس کی بانی و مدیرہ شاہین حبیب کو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں قوم کی خدمت کرنے کا مزید حوصلہ دے اور اس بے لوث خدمت کا اجر عظیم عطا کرے۔