ٹھاہ۔اور سلفے دی لاٹ ورگی
اور یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ’’ورگی‘‘ تو نہیں لیکن سلفے کی لاٹ ہم نے دیکھی ہے۔
کمال تو سارے شعراء صاحبان کرتے ہیں کیونکہ اور کچھ کرنا ان کو منع ہوتاہے اور جوکچھ نہیں کرتے ہیں وہی کمال کرتے ہیں مثلاً یہ جو ہمارے غم خوار ،غم نوش اور غم آغوش صاحبان ہیں جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ''سلیم کی گلی'' یعنی ہماری خدمت میں جتے ہوئے ہیں، یہ بھی تو کمال کرتے ہیں اور کمال کے سوا اور کچھ نہیں کرتے نہ جانے کس گیتاوستیا کی قسم کھائے ہوئے ہیں۔
لیکن ان کو ''تف'' ماریے ہم اپنے پیارے پیارے راج دلارے،سداکنوارے شاعروں کی بات کرتے ہیں ۔ ایک مرتبہ ایک شاعر نے جب اپنی غزل سناکر سامعین کو معاف کیاتو ہمارے پاس ہی آکر بیٹھ گیا اور پوچھا ،کیسی تھی غزل؟ ہم نے کہا، بہت بری تھی۔ وہ بولا ،لوگوں نے بہت داد دی۔ عرض کیا کہ وہ تمہیں اس بات کی داد دے رہے تھے کہ تم کتنے بے شرم ہو۔ جو وارداتیں تمہاری محبوب کے ساتھ گزری تھیں ان پرائیوٹ باتوں کو اس طرح سرعام کرنا کوئی اچھی بات ہے؟
اور یہی اعتراض ہمیں تمام شاعروں پر ہے۔ ٹھیک ہے کوئی خوبصورت تھا، تمہیں اچھا لگا ، اپنے دل کو نکال کر اس کی قدموں میں رکھا، اس نے ٹھوکرمار کراس کے ہزار ٹکڑے کردیے، پھر تم نے اس کے فراق میں دجلہ وفرات ایک کردیے۔
اشک سے میرے فقط دامن صحرا نہیں تر
کوہ بھی سب ہیں کھڑے تابہ گہر پانی میں
پھر تم اس کے تصور میں چاند پر پہنچے، چاند کی بڑھیا کے چرخہ کاٹنے میں رکاوٹ ڈال کر اپنا کیس پیش کیا۔اس نے وعدہ کرلیا کہ فکرناٹ، میں جاکر اسے تمہارے لیے مناکر حبالہ عقد میں دے دوں گا۔
یہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن یہ سب کچھ آکر ہمیں یا پوری دنیا کو سنانے سے کیافائدہ؟ آخر اپنے پرائیوٹ معاملات کو اس طرح جلسئہ عام میں ڈسکس کرنا کوئی شرافت ہے؟
خیر چھوڑیے جب ان بچاروں کو یہی روگ لگاہے تو ہمیں کیا؟ لیکن ان تمام تر خرابیوں اور نکمے پن کے باوجود کبھی کبھی یہ لوگ کوئی بڑی دل چسپ بات بھی کہہ دیتے ''نکمے'' پر انگلی رکھنے کی ضرورت نہیں کہ خود ان ہی نے خود کو یہ معززانہ خطاب دے رکھاہے۔ مثلاً غالب نے کہاہے کہ
عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
اور عشق ظاہر ہے کہ شاعری کا پرائمری اسٹیج ہوتا ہے یا وہ کیاری جس میں شاعری کی نرسری اگائی جاتی ہے اور ان دو امراض کے لیے حکماء نے صرف ایک ہی نسخہ تجویز کیا ہے، وہی نسخہ جو لیڈروں کے لیے تجویز کیاہے یعنی
ایک چھوٹا سا ''سیسے''کا ٹکڑا
اب ہمارے علامہ سے تو کوئی بڑی سند ہوہی نہیں سکتی جو فرما گئے ہیں کہ
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتاہے
گفتار کا غازی بن تو گیا کردار کا غازی بن نہ سکا
لیکن یہ ہے کہ بات ایسی کرتے ہیں کہ جی جانتا ہے،کبھی کبھی تو کوئی نہ کوئی شعر سن کرہمارے سارے اندورنی بیرونی پارٹس ہل جاتے ہیں مثلاً اس دن ایک گانا سنا تو اوپر تلے کوئی ''دس سو دس'' طبق روشن ہوئے۔ پوری واردات تو بھول گئے لیکن اس نے یہ جو کہا تھا کہ آسینے نال لگ جا ٹھاہ کرکے یعنی اس'' ٹھاہ '' نے ہمارا سب کچھ خیاخ پٹاخ کر دیا۔ جب بھی اس''ٹھاہ'' کا تصور کرتے ہیں تو اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔مگر تیر تو ''ٹھاہ'' نہیں کرتا۔ہم نے بہت سارے لوگوں کو ایک دوسرے کے سینے سے لگتے ہوئے دیکھاہے خاص طور پر انڈین فلموں میں تو بغل گیری اور ہیروئن کے نہانے کا منظر گویا فلم کی جان ہوتاہے۔سنا ہے ایک پروڈیوسر اور ڈائریکٹر میں فلم پرمکالمہ ہوا۔پروڈیوسر نے پوچھا، اسکرپٹ میں ہیروئن کو کتنی بار نہلایا گیا ہے۔
ڈائریکٹر بولا،ایک بار۔پروڈیوسر نے کہا، نہیں کم ازکم پانچ بار تو نہلانا ضروری ہے۔ ڈائریکٹر نے بہت کہا کہ اسکرپٹ میں گنجائش نہیں لیکن پروڈیوسر نہیں مانا۔ آخرکار تین بار نہلانے پر معاملہ ڈن ہوگیا۔ایک بار غسل خانے میں، ایک بار کسی آبشار میں اور ایک بار سوئمنگ پول میں۔ بات گیلی ہوکر کہاں پھسل گئی۔کہ گلے لگنا تو ہم نے بہت دیکھا ہے لیکن یہ ''ٹھاہ'' کی آواز کبھی سنائی نہیں دی، مطلب یہ کہ شاعر نے سنی ہوگی، اسی لیے تو ٹھاہ کرکے سینے سے لگوایاچاہتاہے۔ ایک تو یہ ''ٹھاہ''ہے اور دوسری ایک اور بات بلکہ منظرہے جو کسی شاعر کی تخلیق ہے کہ۔''وہ پانی سے نکلی سلفے دی لاٹ ورگی ''
قسم سے کہیے ''سلفے دی لاٹ ''کا کوئی جواب ہے۔ آپ کے پاس؟ یقیناً نہیں ہوگا۔ہمارے پاس بھی نہیں ہے، ایسے ایسے مناظر کب ہر کسی کو نصیب ہوتے ہیں
برسامع راست چیز نیست
طمعہ ہر ''مرعکے'' انجیرنیست
حالانکہ ''انجیر'' میں وہ بات کہاں جو '' سلفے دی لاٹ '' میں ہے۔ پھولوں،پتیوں،گل وگلزاروں چاند ستاروں سے تشبیہ لانا تو عام سی بات ہے لیکن سلفے سے پھر اس کی ''لاٹ'' سے۔
اور یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ''ورگی'' تو نہیں لیکن سلفے کی لاٹ ہم نے دیکھی ہے۔ ہمارے ایک چچا بھی چرسی تھے اور اس کے پاس علاقے بھر کے چرسی آکر سلفے کی لاٹ نکالا کرتے تھے جو اس وقت تو ہمیں کچھ خاص چیز نہیں لگتی تھی لیکن اس گانے کے بعد اس سلفے کی لاٹ کا تصور آتاہے تو جی چاہتا ہے کہ ''سلفے'' کی لاٹ ہو اور ہم ہوں۔
لاٹ کیاکمال کی تشبیہ ہے۔ ایک عجیب بلکہ دھنک کی طرح ست رنگا سا شعلہ بلند ہوتاتھا جس میں سرخی بھی ہوتی تھی۔سفیدی بھی زردی نیلاہٹ بھی اور سبزی بھی۔ اب اس شاعر کے ذہن رسا بلکہ تصور وتخئیل بلکہ استعارہ وتمثیل کی داد نہ دینا سخت ناانصافی ہوگی جس نے تالاب کے پانی سے سلفے کی لاٹ نکالی ہے، وہ بھی سراسر بھیگی ہوئی۔ پرانے زمانے میں سنا تھا کوئی نخشب تھا جو کنوئیں سے مصنوعی چاند نکالتا تھا لیکن اس ہمارے شیر نے بلکہ شاعر نے تالاب سے چاند نکال کردکھایاہے، وہ بھی مصنوعی نہیںبلکہ اصلی ورنہ جاکر انشاء جی سے پوچھ لیجیے کل چودویں کی رات اور بیم تھنگ سم تھنگ۔
چھوڑا مہ نخشب کی طرح دست قضاء نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا