شاہ محمود قریشی بمقابلہ جہانگیر ترین
تحریک انصاف کی سیاست میں بے شک شاہ محمود قریشی جہانگیر ترین سے بڑا نام ہیں۔
شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی لڑائی نئی نہیں ہے۔ حالیہ لڑائی پرانی تمام لڑائیوں کا تسلسل ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ جہانگیر ترین شاہ محمود قریشی سے پہلے بھی تمام معرکے جیت چکے ہیں۔ اور اس بار بھی معرکہ ان کا ہی جیتنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ماضی کے تمام معرکوں میں بھی عمران خان نے جہانگیر ترین کا ہی ساتھ دیا تھا اور اس بار بھی قوی امید یہی ہے کہ وہ جہانگیر ترین کا ہی ساتھ دیں گے۔ لیکن شاہ محمود قریشی ہر بار ٹف ٹائم دیتے ہیں اور اس بار بھی انھوں نے خوب ہلچل مچا دی ہے۔
یہ درست ہے کہ ایک عام رائے یہی ہے کہ شاہ محمود بات ٹھیک کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں غلط موقع پر ٹھیک بات کرنا بھی غلط ہی ہوتا ہے۔ البتہ ٹھیک موقع پر غلط بات چل سکتی ہے۔ شاہ محمود کی بات میں وزن ہے۔ ان کی دلیل قانونی ہے، اخلاقی ہے لیکن پھر بھی سیاسی اعتبار سے ٹھیک نہیں لگتی، اس کی بڑی وجہ ہے کہ وہ تنہا ہیں۔ وہ جہانگیر ترین کو چیلنج تو کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ایک حد سے آگے جانے کو تیار نہیں۔ جہانگیر ترین اپنے دوستوں اور دھڑے کے لیے جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔
تحریک انصاف کی سیاست میں بے شک شاہ محمود قریشی جہانگیر ترین سے بڑا نام ہیں۔ لیکن تحریک انصاف میں دھڑا جہانگیر ترین کا بڑا ہے۔ بے شک شاہ محمود قریشی کی پہچان سیاست ہے اور جہانگیر ترین کی پہچان ان کا اثر ورسوخ ہے۔ بظاہر تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی اکثریت جہانگیر ترین کے ساتھ نظر آتی ہے۔ انھوں نے کئی لوگوں کو ٹکٹ دلوائے ہیں۔ وہ لوگوں کو تحریک انصاف میں لائے ہیں۔ کابینہ میں بھی جہانگیر ترین کی لابی مضبوط ہے۔ ا
دھر ایک عمومی رائے یہی ہے کہ شاہ محمود قریشی اسٹبلشمنٹ کی سیاست کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف جہانگیر ترین کے بھی اسٹبلشمنٹ سے کوئی برے تعلقات نہیں ہیں۔ بے شک وہ نا اہل ہو گئے ہیں۔ لیکن ان کی نا اہلی کو بھی ایک قربانی ہی سمجھا جاتا ہے۔ وہ وقت کی ضرورت تھی۔ حالات کا تقاضہ تھا۔ اس لیے نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نا اہلی کو ایک نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔ لیکن کسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی لڑائی میں طاقتور حلقے نیوٹرل ہیں ۔ ان کا وزن کسی کے ساتھ بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ صورتحال بھی شاہ محمود قریشی کے لیے اچھی نہیں ہے۔
کیا شاہ محمود قریشی کو حقیقت کا ادراک نہیں ہے۔ اگر حقیقت یہ ہے تو شاہ محمود قریشی جہانگیر ترین کو چیلنج کیوں کرتے ہیں۔ انھوں نے ایسا پہلی بار نہیں کیا ہے۔ وہ بھی ایسا پہلے بھی کرچکے ہیں۔ انتخابات سے قبل بھی انھوں نے ایسا کیا تھا۔ کہیں نہ کہیں شاہ محمود قریشی کو احساس ہے کہ جہانگیر ترین پوری کوشش کے باوجود انھیں مائنس نہیں کر سکتے۔ اس بار بھی ان کو اندازہ تھا کہ ان کے حملے کے بعد جہانگیر ترین پیچ و تاب کھا جائیں گے لیکن کر کچھ نہیں سکیں گے۔ ایسا ہی ہوا تاہم جہانگیر ترین کے تمام حامی میدان میں ضرور آئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی آرام سے گھر جا کر سو گئے، یوں ان کی حکمت عملی کامیاب تھی۔ انھوں نے جہانگیر ترین کی اخلاقی و سیاسی پوزیشن کمزور کر دی تھی۔
عمران خان جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی سیاسی لڑ ائی کا مزہ لیتے ہیں۔ ان کی اب تک کی حکمت عملی یہی رہی ہے ۔ انھوں نے آج تک اس تنازعہ کو حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ وہ نہ تو جہانگیر ترین کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی شاہ محمود قریشی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں ہی پارٹی میں نمبر ٹو پوزیشن کے امیدوار ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کسی کو بھی غیر متنازعہ نمبر ٹو بنایا جائے۔ وہ نمبر ٹو کی پوزیشن پر ابہام اور تنازعہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔یہ لڑائی جب بھی بڑھی ہے سیز فائر کرایا گیا ہے۔اب بھی سیز فائر ہی اس کا واحد حل ہے۔
سیاسی حلقوں میں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ شاہ محمود قریشی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ وہ تو عمران خان نا اہل ہونے سے اب تک بچتے جا رہے ہیں۔ لیکن ایک رائے ہے کہ نواز زرداری کے بعد عمران خان کی باری آئے گی۔ مائنس کے اسکرپٹ میں ان کا بھی نمبر ہے۔ لیکن سب سے آخر میں ہے۔ اس لیے جب عمران خان مائنس ہو جائیں گے تو شاہ محمود قریشی کی باری آسکتی ہے۔ تحریک انصاف میں صرف وہ ہی وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ اس لیے شاہ محمود قریشی خود کو جہانگیر ترین سے سیاسی طور پر برتر سمجھتے ہیں۔ وہ اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑا سمجھتے ہیں۔
ان ،کے خیال میں ان کی باری آئے گی اور اس میں جہانگیر ترین رکاوٹ ہیں۔ا س لیے اس رکاوٹ کو دور کرنے اور کمزور کرنے کا وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وہ مسلسل حملہ کرتے رہتے ہیں۔ اور انھیں کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور ہوتی ہے۔ لیکن سو سنار کی اور ایک لوہار کی مصداق جہانگیر ترین نے بھی سارے بدلے لے لیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے شاہ محمود قریشی کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے خواب کو چکنا چور کر دیا ۔ وہ وزیر خارجہ تو پہلے بھی رہ چکے تھے۔ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر ان کو ان کے آبائی حلقہ میں شکست ہوئی ۔ یہ کوئی معمولی معرکہ نہیں ہے۔ اس کے بعد کسی اور کامیابی کی ضرورت نہیں ہے۔
جہانگیر ترین کی بے بسی بھی قابل رحم ہے۔ شاہ محمود قریشی کے علاوہ جس نے بھی پارٹی میں جہانگیر ترین کے خلاف سر اٹھا یا ہے اس کی چھٹی ہو گئی ہے۔ اس کا بنی گالہ داخلہ بند ہو گیا۔ اس کو ٹکٹ نہیں ملا ہے۔ لیکن شاہ محمود زندہ ہیں اور ایک زندہ حقیقت ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی صورتحال صرف تحریک انصاف میں نہیں ہے۔ سب جماعتوں میں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن سر عام سیاسی لڑائی کا کلچر صرف تحریک انصاف ہی کا خاصا ہے۔