پلی بارگیننگ کا شوشہ

پی ٹی آئی والے انتہائی مضطرب اور بے چینی کی حالت میں اپنی خفت اور خجالت مٹانے کے لیے ایسے شوشے چھوڑتے جا رہے ہیں۔


Dr Mansoor Norani April 06, 2019
[email protected]

حکومت اور حکومتی پارٹی کے اکابرین اور حمایتیوں کی جانب سے آجکل یہ شوشہ بڑی مستعدی اور شدومد کے ساتھ چھوڑ جا رہا ہے کہ اُن کی مخالف دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی قیادت اندرون خانہ کسی ڈیل پر راضی اور رضا مند ہوچکی ہے ۔ جیسے جیسے ملکی عدالتیں شریف برادران کوکچھ ریلیف دیتی دکھائی دے رہی ہیں ۔ پی ٹی آئی والے انتہائی مضطرب اور بے چینی کی حالت میں اپنی خفت اور خجالت مٹانے کے لیے ایسے شوشے چھوڑتے جا رہے ہیں۔

خود ہمارے وزیر اعظم جوکل تک یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ کرپشن کرنے والوں سے کوئی ڈیل یا ڈھیل نہیں ہوگی ۔ اب وہ خود پلی بارگیننگ کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ انھیں ڈر اور خدشہ لاحق ہونے لگا ہے کہ ملکی ادارے شریف بردران کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرتے ہوئے انھیں عدالتوں کے ذریعے ریلیف دلوا رہے ہیں۔ وہ کھل کر اِن اداروں کے خلاف کچھ کہہ تو نہیں سکتے لیکن عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ پلی بارگیننگ کے تحت کیا جا رہا ہے ۔ میاں صاحب اپنی رہائی کے لیے مبینہ طور پرلوٹا ہوا پیسہ واپس کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں ۔

اب اگر عدالت صحت یا کسی اور بنیاد پراُن کی سزاؤں میں کچھ نرمی برتتی ہے اورانھیں مکمل طور پر رہا کردیتی ہے تووہ عوام کو یہ کہنے کے قابل ہوں کہ میاں صاحب نے پیسے دے کر رہائی حاصل کی ہے۔گرچہ وہ ایک دفعہ سے زیادہ بلکہ بیسیوں بار بڑے دھڑلے سے یہ کہہ چکے ہیں کہ کوئی این آر او نہیں ہوگا ۔ چوروں اور ڈاکوؤں سے کوئی ڈیل یا سمجھوتہ نہیں ہوگا، مگر جیسے جیسے انھیں احساس ہونے لگا ہے کہ وہی عدالتیں جوکل تک میاں صاحب کوکسی نہ کسی طرح سزا دینے پر مصر دکھائی دیتی تھیں، آج حالات اور منظر نامہ بدل جانے پر انھیں کچھ ریلیف دینے لگی ہیں تو وہ بھی اپنے سخت مؤقف میں تبدیلی کرنے لگے ہیں ۔کوئی ڈیل نہ کرنے کے اپنے دعوے سے مکر کے اب پلی بارگیننگ کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پلی بارگیننگ کا وقت گزر چکا ہے۔ میاں صاحب کو اگر پلی بارگیننگ کرنی ہوتی تو وہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے کر جاتے۔ اب تو عدالتوں کے فیصلے بھی آچکے ہیں اور وہ کئی ماہ سے اپنی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔ انھیں پلی بارگیننگ کرکے سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خود کو بیدخل کرنے سے بہتر آپشن اُن کے پاس لندن سے واپس نہ آنا تھا۔ وہ بھی اگر جنرل پرویز مشرف کی طرح واپس نہ آتے تو شاید آج بہتر حالات میں ہوتے۔ لندن میں اپنے بیٹوں کے ساتھ مزے میں رہ رہے ہوتے اورکوئی اُن کاکچھ بگاڑ نہیں پاتا ۔انھوں نے تو خود اپنے طور پریہ گرفتاری قبول کی تھی۔وہ عدالتوں کے فیصلوں کے تحت جیل گئے تھے اور اب عدالتوں ہی سے خود کو بے گناہ ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ اُن کے مزاج کودیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کسی ڈیل پر راضی ہوجائیں گے۔

یہی بات آصف علی زرداری کے لیے بھی کہی جاسکتی ہے۔ قطع نظر اِس کے کہ اُن پرکرپشن کے لاتعداد الزامات ہیں وہ ہمارے سیاسی میدان کے سب سے ہشیار اور ذہین شہسوار ہیں۔وہ شہید ہوجانا پسندکرلیں گے لیکن یوں پلی بارگیننگ کرکے رہائی پاکر خود کو عوام کے سامنے رسوا نہیں ہونے دیں گے ۔ ماضی میں بھی وہ ایک سے زیادہ مرتبہ جیل کی ڈالے جاچکے ہیں ۔ لیکن پلی بارگیننگ کرکے کبھی بھی خود کو بے آبرو ہونے نہیں دیا ۔گرفتار کرنے والوں نے خود ہی انھیں جیل سے براہ راست ایوان صدر بلا کر وزارتوں کے نذرانے پیش کیے ۔ وہ آج بھی اپنے مخالفوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ آؤ مجھے گرفتارکرو ۔ وہ جیل کی زندگی سے گھبرانے والے نہیں ہیں ، بلکہ اُسے سیاستداں کے لیے ضروری اور اہم گردانتے ہوئے اُس کا حسن قرار دیتے ہیں ۔

ویسے پیار اور محبت میںآپ اُن سے جتنے چاہیں پیسے مانگ لیں وہ کبھی انکار نہیں کرینگے لیکن یوں زبردستی دھمکیوں سے وہ رعب میں آنے والے نہیں۔ وہ حکمرانوں سمیت سب کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ مجبوریوں کو بھی وہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ انھیں سب کی قیمت کا پتہ ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ کون کتنے میں بک سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیب انھیں طلب ضرورکرتی ہے لیکن ایک روز کے لیے بھی انھیں جیل میں نہیں ڈال سکی۔ وہ اور اُن کی ہمشیرہ گزشتہ آٹھ ماہ سے مسلسل ضمانت پر ہیں ۔ خان صاحب کو یہ بات ابھی سمجھ میں نہیں آئے گی، رفتہ رفتہ وہ سب کچھ سمجھ جائیں گے۔

ملکی معاملات کے پیچ و خم اتنے آسان نہیں ہوتے۔ یہاں جذباتی تقریریں کرنے سے عوام کو بے وقوف تو بنایا جاسکتا ہے لیکن سیاسی معاملات کی گتھیاں جذبات سے نہیں سلجھائی جاسکتی۔ اِس کے لیے ذہانت، دانشمندی اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔خان صاحب کو اب سمجھ لینا چاہیے اور ایسی باتوں سے اجتناب کرناچاہیے جن سے بعد ازاں انھیں خفت اور پشیمانی کا سامنا ہوتا ہے اور جسے مٹانے کے لیے وہ یوٹرن یا دیگر بہانوں کا سہارا تلاش کرتے پھرتے ہیں۔

ہماری عدالت عالیہ نے میاں نواز شریف کو چھ ہفتوں کے لیے جیل سے آزاد کیا ہے تاکہ وہ اپنا علاج جہاں چاہیں کرواسکیں۔دیکھا جائے تویہ کوئی اتنا بڑا ریلیف نہیں ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اور اُس کے چاہنے والوں نے انھی عدالتوں کے خلاف اِس معاملے کو لے کر اچانک زہراگلنا شروع کردیا ہے جن کی تعریفیںکرتے وہ کل تک تھکتے نہیں تھے۔ ریلوے کے وفاقی وزیر اور عمران خان کے بہت ہی عزیز دوست شیخ رشید تو اِس معاملے میں سب پرسبقت لے گئے ۔

میاں شہباز شریف کو بارگیننگ کا ماسٹر مائنڈ کہتے ہوئے وہ براہ راست توہین عدالت کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں ۔ اُن کے خیال میں بڑے میاں کی رہائی میں شہباز شریف نے کوئی کام کر دکھایا ہے ۔گویا وہ اِس طرح عدالتوں کو الزام دے رہے ہیں کہ میاں صاحب کو ریلیف دینے کے لیے عدالتوں نے اندرون خانہ کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے ۔یہی حال پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل کا بھی ہے۔ جن ججوں اورعدالتوں کو چند ماہ قبل تک وہ خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے آج صرف ایک فیصلے کے بعد انھیں اپنی سخت تنقید اورتنقیص کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔

دوسری جانب اُن کی حکومت لوگوں میں یہ تاثر پھیلانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے، جیسے یہ سب کچھ کسی ڈیل کے تحت ہو رہا ہے ۔ میاں صاحب اربوں روپے واپس کرنے پر راضی ہوچکے ہیں اورجس کے عوض وہ سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے دیار غیر میں اپنی زندگی کے آخری ایام آرام وسکون سے گزاریں گے، لیکن ہمارا خیال ہے کہ کوئی اہم اور بڑا سیاستداں ایسا کرکے خود اپنے اوپرکرپشن کی مہر تصدیق ثبت نہیں کرسکتا۔ نہ میاں نواز شریف ایسا کریں گے اور نہ آصف علی زرداری یہ کرسکتے ہیں ۔

خان صاحب ایسا کہ کر نہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں بلکہ اپنے ووٹروں کو بھی بلاوجہ خوش گمانیوں کے فریب میں مبتلا کر رہے ہیں ۔ اُن کا یہ کہنا کہ میاں صاحب اور زرداری کے پاس اِس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کہ لوٹا ہوا پیسہ واپس کریں اور رہائی پائیں خود اپنے اُس عہد اور دعوے کی نفی کرتا ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہونے جا رہا ، نہ کوئی ڈیل ہوگی اور نہ کوئی ڈھیل ۔ پھر ڈیل کی ایسی باتیں کرکے نجانے خان صاحب کسے مطمئن کر رہے ہوتے ہیں ۔ اپنے عوام کو یا اپنے صرف آپ کو ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔