معاشی بیانیہ اور حقیقت
باتوں سے پیٹ نہیں بھرا کرتے۔ لفاظی،شعلہ بیانی، میڈیا پر میٹرو ٹرین کا دکھا وا۔
''ہماری جیب کو اب حاجت رفوکیا ہے'' غالبؔ نے یہ بات جس حوالے سے کہی ہوگی وہ تو وہ ہی جانتے ہیں مگر ہماری جیب میں جو روپے ہیں وہ پگھلتی برف کی مانند ہیں۔ یا تو ان کی قدر گرجاتی ہے یا پھر دکان تک جاتے جاتے دام بڑھ جاتے ہیں۔ اور ہم ہیں مشتاق جفا ہم پہ جفا اور سہی۔
ہم نے جو اپنا بیانیہ بنایا ہے اس میں دور تک کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس سے ہماری اصلاح ہوسکے اور حقیقت کے چودہ طبق نہ سہی کچھ تو ہو جس کی آشنائی ہو۔ ہماری تنقید کو ذات پہ نہ لیجیے، دل وگردہ رکھیے اور حوصلے سے سنیے۔ یہ ملک خداداد اس طرح سے چل نہ پائے گا۔ ہمارے غیر ترقیاتی اخراجات ہیں جو بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ شرح نمو ہے کچھ جو بہتر ہوئی بھی تھی وہ پھر سے پیچھے کی طرف چل پڑی ہے۔ قرضے ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں۔
''اس مخصوص خطے کے تناظر میں جہاں ہندوستان کے دفاعی اخراجات اپنی مجموعی پیداوار کے اعتبار سے چین سے بھی زیادہ ہیں اور پھر اس کا اثر ہم پر بھی پڑتا ہے مگر اس خطے کی مجموعی معاشی حالت بھی بہت بہتر ہے جب کہ ہم دن بہ دن سوویت یونین بنتے جا رہے ہیں۔ یہ مثال میں نے اس حوالے سے دی ہے کہ سوویت یونین تھا تو سپر پاور مگر اس کی معیشت بیچاری جواب دے گئی۔ ہم بھی اس خطے کی سپر طاقت تو ہونگے مگر ہماری معیشت بیٹھتی نظر آرہی ہے۔ یوں کہیے ہم جتنی بڑی اس خطے کی سپرطاقت ہیں، اتنی بڑی معیشت جو ہمیں درکار ہے وہ ہم نہیں۔
ہمارے پاس ترقی کے زاویے، روڈ، میٹرو بس اور بی آر ٹی جو پشاورکا پروجیکٹ یا پھر ہمارے سابق محترم چیف جسٹس ایک دن خواب دیکھتے ہیں اور سب کام چھوڑکے ڈیم بنانے کے لیے کوشاں ہوجاتے ہیں۔کاش کہ یہ میگا پروجیکٹ اس چھوٹے سے اسکول کے برابر ہوتے جس سے ڈاکٹر عبدالسلام، من موہن سنگھ جیسے ذہن پیدا ہوئے۔انگریز نے دیا ایک اسکول جو ہرگائوں یا قصبے میں ہوتا تھا ۔ وہ چھوٹی سی کلینک یا آبپاشی کا نظام ، وہ ریل گاڑی، غرض جو بھی ہمیں ادارے ملے ہم نے ان کا برا حال کردیا۔
دیہات نہیں بدلے ا ب بھی ان کا ذریعہ معاش وہ ہی کھیتی باڑی ہے۔ سینٹرل پنجاب میں میاں صاحب اور مشرف کے زمانوں میں ایک بھرپور مڈل کلاس ابھری تو سہی مگر سندھ میں زرداری صاحب یا بھٹوز کی آدھی صدی کے اس سفر میں حالت وہی ہے یا اس سے بھی بدتر ہیں ہاں لیکن ان کے گماشتو ں کی معیشت بہت مضبوط ہوئی ہے۔کمیشن کے ریٹ بڑھ گئے ہیں ۔ تنخواہ تو ایک بہانہ ہے باقی سائیڈکی کمائی کی دکان در دکان کھل گئی ہیں۔
افراط زر دس فیصد کے گرد گھوم رہی ہے جوکہ 2013ء کے بعد سب سے زیادہ ہے، لیکن ان زمانوں میں ہم صرف قرضوں پر جی نہیں رہے تھے جتنا کہ آج اور ہم اتنے مقروض بھی نہیں تھے جتنے آج ۔ ان زمانوں میں ہمارے سب سے بڑے اخراجات دفاع پر تھے اور اب قرضوں اور سود کی ادائیگی پر ۔ ہم وفاق کی سطح پر سب کچھ قرضہ لے کر چلا رہے ہیں ۔ وہ چاہے ملازمین کی تنخواہیں ہوں، پنشن ہو یا روڈ بنانے کا کام ۔
ہم جو ٹیکس کا مجموعہ بجٹ میں دکھاتے ہیں وہ بھی حاصل نہیں کر پاتے اور جو ٹیکس مجموعی پیداوار کے حوالے سے شرح ہے وہ ہمیں اس حوالے سے دنیا کے چند بد ترین ممالک میں شامل کرتی ہے۔ ہماری معیشت جو Documented ہے اس کے لگ بھگ چالیس فیصدکے برابر Un-documented معیشت ہے جو ٹیکس کے زمرے میں آتی ہی نہیں اور اگر آپ اسی کو لانے کی کوشش کریں تو آپ کی معیشت اور بیٹھ جاتی ہے کہ اس Un-documented معیشت سے بھی لاکھوں گھر ہیں جو وابستہ ہیں جن کو روزگار ملتا ہے۔
جب کچھ نظر نہیں آتا تو ہم نے ایک اور لالی پاپ لوگوں کو دے دیا ہے کہ کراچی کے سمندر سے دنیا کے بہت بڑے تیل و گیس کے ذخائر دریافت ہونے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے ہم نے مرغی کے انڈوں پر لوگوں کو بہلائے رکھا اور اب یہ بہلاوے ۔لیکن یہ بات اتنی غیر حقیقی نہیں جس طرح ڈھوڈک کے میدان سے پٹرول کی دریافت دکھا کے بھٹو صاحب وہ بوتل پارلیمنٹ فلور پر لے آئے اور مولانا مفتی محمود کو سونگھائی تھی۔ یہاں EXXON جیسی امریکا کی کمپنی کام کر رہی ہے ۔ جس نے موزمبیق میں آیندہ بیس سال میں لگ بھگ سو ارب ڈالرکمانے کے ذخائر دریافت کیے ہیں، مگر موزمبیق سدھر نہیں سکتا کہ ان کا سیاسی ڈھانچہ و ادارے ہم سے بھی بدترہیں۔کرپشن اور اقرباپروی زوروں پر ہے۔ پٹرول کے ذخیروں سے بہتری ہوتی تو وینز ویلا کا حشر پھر ایسا نہ ہوتا۔
پٹرول مہنگا، گیس مہنگی، بجلی، ڈالر سب مہنگا تو پھر ٹماٹر، آٹا وغیرہ کیسے سستے ہونگے ۔ میڈیا میں چھانٹیاں ۔ مہینوں تک تنخواہیں نہیں ملتیں اور تنخواہوں میں کٹوتیاں۔ ان کے اشتہار بند ہوگئے جو ادائیگیاں ہیں وہ نہیں ہو پا رہی ہیں۔
وفاق نے اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ایک اور طریقہ نکالاکہ صوبوں کی جو آمدنی پہلے این ایف سی ایوارڈ میں بڑھی ہے وہ واپس لی جائے۔ یہ جانے بغیرکے اس کے اثرات وفاق پرکتنے برے پڑینگے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنے پیسے سندھ کو ملے وہ زرداری صاحب نے اپنے من پسند لوگوں کو ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے دلوا کرکے مل جل کے بانٹ لیے۔ اس کا فائدہ سندھ کے لوگوں کو نہ ہوا مگر یہ کہنا کہ وفاق میں کرپشن نہیں یا کم ہے اور صوبوں میں زیادہ ہے، یہ زیادتی ہوگی۔
اس حکومت نے ان نو مہینوں میں جتنے قرضے لیے ہیں، اتنے تو کسے نے نہیں لیے ۔ کرے بھی کیا۔ 5500 ارب روپے کی آمدنی سے 2600 ارب کے لگ بھگ تو این ایف سی کے حصے کے تحت صوبوں کوگئے باقی بچے 3000 ارب کے لگ بھگ جب کہ وفاق کے کل اخراجات ہیں وہ جو اخراجات میں سب کچھ ملا کے 3600 ارب کے لگ بھگ ہیں۔ یعنی121 فیصد ۔632 ارب وفاق کے خرچے آمدنی سے زیادہ ہیں اور صوبے 583 ارب روپے سر پلس ہیں ۔ سندھ کی سیلس ٹیکس بعد میں آمدنی کی شرح دگنی ہوگئی پچھلے سال کے تناظر میں اور جب کہ وفاق میں ایف بی آر 450 ارب روپے اپنے ہدف سے کم کر پائے گا، اس طرح تو پھر صوبائی حکومتیں بہتر پرفارم کر رہی ہیں اور وفاق نہیں۔
ایک تھے ہمارے اسحاق ڈار یا میاں صاحب کی معاشی پالیسی۔ قرضے لینے کا رواج انھوں نے ڈالا، ترقیاتی بجٹ بھی ان کا بہت بڑا ہوتا تھا مگر وہ جو پروجیکٹ وہ سب میگا پروجیکٹ تھے جس سے کمیشن بھی بڑی ملتی تھیں اور قرضے دینے کا کام قوم کے حوالے۔ اب جو سرکلر قرضے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے بڑھے ہیں اور ان کے دینے ہیں۔ بجلی چوری کریں حکومت کے ادارے اور اب اس کا بوجھ بھی لوگوں پر کہ وہ اپنے بلوں میں ادا کریں۔ ڈائریکٹ ٹیکس یہ امیرلوگوں پر لگاتے نہیںہیں ۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس تین مرتبہ منی بجٹوں کے ذریعے لگا چکے جس کا خمیازہ بھی یہاں غریب لوگوں کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
باتوں سے پیٹ نہیں بھرا کرتے۔ لفاظی،شعلہ بیانی، میڈیا پر میٹرو ٹرین کا دکھا وا۔اس سے ترقی نہیں ہوا کرتی یہ چیزیں تو اتنی تیزی سے ہندوستان میں بھی نہیں ہورہی ہیں جس طرح ہمارے پاس۔ اور پھر کیا ہوا ؟ سی پیک کے وہ پروجیکٹ جو بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے تھے یا گوادرکا منصوبہ ہے وہ تو ٹھیک ہے لیکن میٹرو ٹرین وغیرہ کا قرضہ ہمارے Balance of Payment پر پریشر ان سیاستدانوں کی سوچ کے وجہ سے ہے۔ ہمیں ترقی کا بیانیہ تبدیل کرنا پڑے گا اور یہ بھی کہ ایٹم بم یا ہماری عکسری صلاحیت ہماری سیکیورٹی کی ضامن ہے ورنہ امریکا جتنے ایٹم بم تو سوویت یونین کے پاس بھی تھے ، لیکن معاشی طور پرمضبوط سوویت یونین نہیں بلکہ امریکا تھا۔
میاں صاحب ہوں یا زرداری صاحب یہ مصنوعی طریقوں سے نہیں جائیں گے ۔ ان کے جانے کا راستہ بھی ہے کہ بار بار بیلٹ باکس سے رجوع کیا جائے ۔ کل ہم نے بھٹو کو لیڈر کہا پھر نواز شریف کو اور اب عمران خان کو ۔ لیکن اب ہم اکیسویں صدی میں جو بہت خطرناک طورپر تبدیلی کی صدی ہے ایک فطری قیادت کو ابھرنے کا موقع دیں ۔ ہماری معیشت تب ہی آگے نکل سکتی ہے جب ہم human capital میں سرمایہ کاری کریں گے۔
اب آس لگائے بیٹھے ہیں، سعودی عرب و چین کی مدد کے بعد کہ آئی ایم ایف اب آہی جائے اور ہمیں بچائے اور اسد عمر صاحب ہیں کہ اب بھی موسیقی کے سرورمیں مگن ہیں جس طرح جب روم جل رہا تھا Nero بانسری بجا رہا تھا۔