اُجلے نقوش کے حامل ایک علامہ صاحب کا تذکرہ
مصنف نے بھی کتاب میں کئی واضح اور مبہم اشارے کیے ہیں
برادرم عمر فاروق قدوسی صاحب نے ''تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں'' نامی کتاب بھجوائی ہے تو یادوں کے کئی چراغ روشن ہو گئے ہیں۔ یہ کتاب حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید علیہ رحمہ کے بارے میں ہے۔ آپ کی عمر پچاس سال بھی نہ ہونے پائی تھی کہ ملک دشمنوں نے انھیں شہید کر ڈالا تھا۔
یہ سانحہ 23 سال قبل پیش آیا تھا۔ لاہور کے جس علاقے (قلعہ لچھمن سنگھ) میں جلسے کے دوران انھیں ریموٹ کنٹرول بم سے ہدف بنایا گیا، اُس جلسے میں راقم بھی موجود تھا۔ اُن دنوں میری رہائشگاہ بھی وہیں قریب ہی ''محلّہ توحید آباد'' میں تھی ۔ قلعہ لچھمن سنگھ اور توحید آباد ، دونوں ہی مینارِ پاکستان کے سامنے ، جانبِ مغرب واقع ہیں۔ علامہ صاحب نے مجھے خود مدعو کیا تھا کہ اُن کا نَو تعمیر دفتر ہمارے دفتر کے بالمقابل ہی تھا۔ لاہور کے مشہور ایم اے او کالج سے متصل۔یوں ہم اُن کے ہمسائے ہی تھے۔ اُن کی زندگی کا آخری اور تفصیلی انٹرویو بھی ہم لوگوں ہی نے شایع کیا تھا۔کیا گرجدار لہجے اور طرحدار شخصیت کے حامل تھے علامہ صاحب ! واقعہ یہ ہے کہ لاہور میں تین اہلحدیث علمائے کرام سے ہماری محبت رہی ہے: مولانا محمد اسحق بھٹی صاحب ، پروفیسر یحیٰی صاحب اور علامہ احسان الٰہی ظہیر صاحب ۔ مجھے علامہ صاحب کی امامت میں کئی جمعتہ المبارک کی نمازیں ادا کرنے کا شرف بھی حاصل رہا ہے ۔
الحمد للہ۔ علامہ صاحب نے زندگی میں اپنی بے پناہ تحریروں اور تقریروں کے ذریعے بھی دھومیں مچائے رکھیں اور جب وہ ہم سے ہنگامی طور پر رخصت ہُوئے، تب بھی انھوں نے ملک بھر میں ہلچل مچا دی تھی۔ قاتلوں کے چہروں پر مگر آج تک پردے پڑے ہیں ۔ ''تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں'' کی شکل میں احسان الٰہی ظہیر علیہ رحمہ پر کئی یادیں یکجا کرکے دراصل جناب ابوبکر قدوسی نے پڑھنے اور شہید سے محبت رکھنے والوں پر احسانِ عظیم کیا ہے۔ قلعہ لچھمن سنگھ کے دہشتگرد حملے میں علامہ صاحب کے ساتھ جو دیگر علمائے کرام شہید ہُوئے تھے، اُن میں مصنف کے والد گرامی، مولانا عبدالخالق قدوسی علیہ رحمہ، بھی شامل تھے۔ اس سے بھی ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صاحبِ کتاب کو علامہ صاحب شہید سے کیسی وابستگی رہی ہو گی۔ تقریباً پانچ سو صفحات پر پھیلی یادوں کی اس بارات کو مرتّب کرنے میں تین سال لگے ہیں۔ مصنف نے علامہ صاحب کے تذکرے میں اُردو، پنجابی، فارسی، عربی اور سرائیکی زبانوں کے جو متعدد اور بر محل اشعار شامل کیے ہیں، اِس پُر کاری نے یادوں کی اِس مہک کو دو چند کر دیا ہے۔
23 مارچ1987ء کو علامہ صاحب پر ہونے والا حملہ کارگر ثابت ہُوا تھا لیکن ''تیرانقشِ قدم دیکھتے ہیں'' کے مصنف ہمیں اپنی معلومات اور ذرایع کی بنیاد پر بتاتے ہیں کہ اس سانحہ سے قبل بھی اُن پر دو قاتلانہ حملے ہُوئے تھے۔ ایک بار امریکا میں اور دوسری بار شیخوپورہ میں۔ دونوں ناکام رہے لیکن تیسری بار منصوبہ سازوں نے جان لے کر ہی چھوڑی۔ کئی مبہم اور موہوم قاتلوں کی طرف اُنگلیاں اُٹھی تھیں لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ مصنف نے بھی کتاب میں کئی واضح اور مبہم اشارے کیے ہیں۔
جو لوگ آج بھی علامہ صاحب کی شخصیت کے بارے میں بالتفصیل جاننا چاہتے ہیں، یہ کتاب ایسے متلاشیوں کے لیے بڑی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ علامہ صاحب کی جنم بھومی ( سیالکوٹ) سے لے کر گوجرانوالہ اور پھر لاہور سے سعودی عرب تک اُن تمام تعلیمی اداروں، مدارس اور جامعات کا ذکر کر دیا گیا ہے جہاں جہاں سے علامہ صاحب شہید نے تحصیلِ علم کیا۔ وہ حافظِ قرآن بھی تھے اور عربی زبان پر تو اسقدر عبور رکھتے تھے کہ اہلِ زبان رشک کرتے۔ بغداد میں صدر صدام حسین کے سامنے عربی زبان میں اُن کی وہ شعلہ فشاں تقریر تو اب بھی یو ٹیوب پر محفوظ ہے جس نے عراقی صدر کو حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس خطاب کا دلنشین احوال زیر نظر کتاب کے صفحہ 264 پر محفوظ کر دیا گیا ہے۔
علامہ صاحب تحریر و تقریر، دونوں کے بادشاہ تھے ۔ چونکہ کئی جرائد کے مدیر بھی رہے، اس لیے اخبار نویس بھی کہلائے۔ اپنا رسالہ بھی جاری کیا۔ اُن کی ساری کتابیں تحقیق کا شاہکار ہیں۔ اگرچہ اُن کے مخالفین نے انھیں متنازع بھی کہا۔ اُن کی پہلی تصنیف ہی نے پڑھنے والوں کو بتا دیا تھا کہ وہ تحقیقی مطالعہ کی اساس پر للکارنے والے دانشور مولوی ہیں ۔ علامہ صاحب معروف سیاستدان بھی تھے۔ قومی اتحاد کی سیاست کا مرکز رہے۔ ائر مارشل اصغر خان کی ''تحریکِ استقلال'' کی سب سے جاندار آواز بھی بنے رہے۔
پھر اپنی جماعت کے موسس بھی بنے اور اس کے ناظمِ اعلیٰ بھی۔ سعودی عرب میں بھی اُن کی بڑی تکریم تھی۔ عربی میں لکھی گئی اُن کی کئی تصنیفات سعودی جامعات کا نصاب بننے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان کی رائلٹی سے انھیں مالی خوشحالی کی نعمت میسر رہی۔ لیکن پاکستان میں بھی اُن کے کئی منافع بخش کاروبار تھے۔ مثال کے طور پر، وہ گاڑیوں کی خریدو فروخت بھی کرتے تھے، نیز رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بھی تھا ( صفحہ278) دونوں بزنس کی انھیں بڑی سمجھ بوجھ تھی۔ پراپرٹی کے کاروبار میں انھوں نے دیانت و امانت کا دامن ہمیشہ تھامے رکھا۔ زیر نظر کتاب کے صفحہ210 پر علامہ صاحب کی کاروباری ڈیلنگ کے حوالے سے جو حیرت انگیز واقعہ درج کیا گیا ہے، پراپرٹی ڈیلر ایسے کہاں ملتے ہیں؟
علامہ صاحب موصوف ملک بھر میں اہلحدیث مکتبہ فکر کی ایک توانا اور قوی آواز بن گئے تھے۔ وہ اپنے ہم مسلک طبقے کے لیے آرزوؤں اور اُمیدوں کا مرکز تھے۔ ایک دبنگ آواز۔ لاہور کی بیوروکریسی بھی اُن سے لرزاں رہتی تھی، حالانکہ یہ جنرل ضیاء الحق کا دَور تھا۔ لاہور کے ایک ڈپٹی کمشنر کو انھوں نے جس دبنگ لہجے میں جھاڑ کر خاموش کیا تھا (صفحہ255 ) اس کی گونج کئی دنوں تک لاہور میں سنائی دیتی رہی تھی۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ زندگی کے آخری برسوں میں علامہ صاحب اور جنرل ضیاء الحق کے درمیان کشیدگی خاصی بڑھ گئی تھی۔
اُن کی تحریر وتقریر میں جنرل کے لیے تلخیاں در آئی تھیں ( صفحہ332) ضیاء حکومت نے اُن کے خلاف کئی جھوٹے مقدمات بھی بنائے، اُن کے خلاف ٹیکس حکام کو متحرک کیا گیا اور اُن کی جائیداد بھی قرق کرنے کے احکامات جاری کیے گئے لیکن (بقول علامہ صاحب) : ''بحمد للہ مَیں ثابت قدم رہا۔'' علامہ صاحب جنرل ضیاء کے وضع کردہ کئی بِلوں کی مخالفت کر رہے تھے۔ جنرل ضیاء کو یہ للکار سخت ناپسند تھی۔ ایک بِل کے حوالے سے علامہ صاحب اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو صاحب ہم خیال اور ہمنوا بن گئے تھے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ایک رات خفیہ طور پر وزیر اعظم جونیجو چپکے سے علامہ صاحب کے گھر بھی پہنچ گئے تھے (صفحہ394) ضروری نہیں ہے کہ زیر نظر کتاب کے تمام مندرجات سے اتفاق کیا جائے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ ''تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں'' علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید سے وابستہ اُجلے نقوش کا ایک دلربا مرقع ہے۔ حیاتِ علامہ صاحب کے کئی گوشوں کو پہلی بارسامنے لاتی یہ کتاب محبت سے لکھی گئی ہے۔ جو چاہے ''مکتبہ قدوسیہ، غزنی اسٹریٹ ، اُردو بازار، لاہور'' سے حاصل کر سکتا ہے۔