احتساب معیشت کے لیے خطرہ
چین میں جہاں نجانے کتنے ہی بڑے بڑے سرکاری افسر احتساب کی زد میں آکر سزائے موت، عمر قید بامشقت کا نشانہ بن گئے۔
کیا واقعی احتساب سے ملکی معیشت کو خطرہ ہے؟ کیا واقعی احتساب کے عمل سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے گا؟ ملک میں سرمایہ کاری رک جائے گی؟ اور سرمایہ اور سرمایہ دار ملک سے اڑن چھو ہو جائیں گے؟
آپ اس ملک کے اربوں کھربوں لوٹنے والی وی وی آئی پی خاندانوں کے فیملی کالم نگاروں اور ٹی وی اینکروں کے شور سنیں تو لگے گا جیسے واقعی اگر ان کے چاہنے والو سے لوٹ مار کے اربوں کھربوں روپے نکلوانے کے لیے احتساب کیا گیا تو آسمان گر جائے گا، زمین پھٹ جائے گی، ملکی معیشت سکتے میں آجائے گی، ساری ترقی ٹھپ ہوجائے گی، سرمایہ کار اپنے سرمائے سمیت ملک سے رفو چکر ہوجائیں گے۔
اب بھئی سچ پوچھیے تو آپ کو ان معزز پٹواری خواتین و حضرات سے ہمدردی ہونی چاہیے۔ آپ کو ان کے دکھ کو سمجھنا چاہیے، آہ، کہاں وہ دن باغ و بہار کے کہ اس سنہری دور کے راوی یوں حکایت روایت کرتے تھے کہ چار ہا موسم گویا چہار بہار کے تھے، گلستاں میں شب و روز کھلتے تھے، اعزاز و اکرام کے اور اب کہاں یہ دن اور کرپشن کا یہ اجڑا چمن کہ روکھی سوکھی دس، پندرہ، بیس لاکھ کی تنخواہ پہ گزارہ کرنا پڑ رہا ہے، تجزیہ کاروں کا احتساب کے نام سے چڑنا جائز ہے۔
البتہ جو کچھ بظاہر غیر جانبدار اور کسی حد تک عمران خان کی حامی سمجھی جانے والی شخصیات بھی جب تواتر سے احتساب کو قومی معیشت کے لیے خطرہ ہونے کا راگ الاپتی نظر آتی ہیں تو کسی درجے حیرت ہوتی ہے مگر خیر کبھی پذیرائی پانے کی ذاتی توقعات پوری نہ ہوسکیں تو ہر کام ہی غلط نظر آتا ہے۔ خیر چھوڑیے یہ معتبر لوگ کہلاتے ہیں سو دن کو رات اندھیرے کو اجالا قرار دے کر بھی معتبر ہی رہتے ہیں۔ آئیے ہم ذرا جائزہ تو لیں کہ کیا واقعی احتساب قومی معیشت کے لیے مضر صحت ہے؟
کیا واقعی احتساب سے معیشت کی ترقی، سرمایہ کاری رک جائے گی؟ سرمایہ کار ملک سے نو دو گیارہ ہوجائیں گے؟ جی نہیں، بالکل نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ سارا واویلا حقیقت کے برعکس ہے، بے بنیاد ہے، جھوٹ ہے۔ کیسے؟ یہ لیجیے ابھی ثابت ہو جاتا ہے، ذرا پاکستان کے شمال مشرق پڑوس میں دیکھیے جہاں دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں کئی سالوں سے نہیں بلکہ کئی عشروں سے ہر سطح کی کرپشن کے خلاف کڑا احتساب جاری و ساری ہے، ایسا کڑا کڑوا احتساب کہ کرپشن کے مجرموں کا وی آئی پی علاج معالجہ نہیں کروایا جاتا بلکہ انھیں گولی سے اڑا دیا جاتا ہے اور ماری جانے والی گولیوں کی قیمت بھی مجرموں کے خاندانوں سے وصول کی جاتی ہے۔
بہت سوں کو عمر قید سمیت مختلف سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں، سزائے موت، عمر قید اور دوسری کڑی سزائیں پانے والوں میں حکمران، سیاستدان، جنرل، بزنس مین، تاجر، صنعتکار، بیورو کریٹس سبھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن جناب آپ خود ہی دیکھیے کہ ان تمام سالوں، عشروں میں اتنے کڑے بے رحم بے حساب احتساب کی مسلسل موجودگی میں چین کی معیشت کو نہ کوئی نقصان پہنچا، نہ سرمایہ کاری میں کمی آئی، نہ ہی سرمایہ کار سر پہ پاؤں رکھ کے چین سے فرار ہوئے، بلکہ الٹا چین کی معیشت اتنے سخت اتنے وسیع ہمہ وقت جاری و ساری احتساب کی موجودگی میں انتہائی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی جاپان جیسے ملک کی معیشت کو بھی پیچھے چھوڑ کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گئی۔
اب بتائیے! اب ذرا پوچھیے! ان پاکستانی فرینڈز آف کرپشن سے جو مسلسل فیل برپا کیے ہوئے ہیں کہ احتساب ملکی معیشت کو بٹھا دے گا۔ یہ اپنے اپنے سیاسی آقاؤں کی لے میں لے ملا کر چیختے ہیں کہ یہ احتساب عمران خان کا اپوزیشن سے انتقام ہے۔ یہ کھربوں روپے عمران خان کے نہیں بلکہ پاکستان کے لوٹے گئے ہیں، لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بند کردو۔
پاکستان میں احتساب کے خلاف کرپشن کے مبلغ تبلیغ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بڑا سرکاری افسر کبھی کچھ کام کردے تو یہ اس کا اس قوم پہ اتنا بڑا احسان ہے کہ اسے پھر اربوں روپوں کی کرپشن کا پورا حق ہے، اس کو کچھ کہنا کام کرنے والے سرکاری افسر کی حوصلہ شکنی ہے۔ واہ! کیا بات ہے۔ ثقہ پٹواری چورن بیچتے ہیں کہ احتساب کی وجہ سے سرکاری افسر بادشاہوں نے کام بند کردیا ہے۔
لیجیے جناب یہاں تو احتساب ہوا ہی کہاں ہے، جس عظیم کرپٹ کو پکڑو وہ فوراً ہی بیمار ہو کے وی آئی پی میڈیکل ٹریٹمنٹ کے مزے لوٹنے میں مشغول ہوجاتا ہے، یہاں دو چار سو چرانے والوں کو تھانوں میں الٹا لٹکایا جاتا ہے اور ملک کے کھربوں لوٹنے والوں سے وی آئی پی ٹریٹمنٹ کے ساتھ ادب و احترام پورے پروٹوکول میں سوال پوچھے جاتے ہیں جو ان کی مرضی کے جواب دیں کہ نہ دیں۔ ویسے کمال ہے!
چین میں جہاں نجانے کتنے ہی بڑے بڑے سرکاری افسر احتساب کی زد میں آکر سزائے موت، عمر قید بامشقت کا نشانہ بن گئے وہاں تو کبھی سرکاری افسروں نے کام بند نہیں کیا۔ جی نہیں احتساب نہیں بلکہ کڑے اور فوری احتساب اور موثر حکومتی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہاں سرکاری افسر بادشاہ کام بند کرتے ہیں۔ میگا کرپشن اور میگا کرپٹ کرداروں کے وفادار سیلف میڈ میڈیا دانشور ایک اور ڈرامہ کرتے ہیں کہ جی اگر کسی فلاں فلاں موجودہ یا سابق حکمران، وزیر، امیر، افسر، تاجر، لینڈ مافیا والے کو پکڑا، سزا دی تو ملک کی بدنامی ہوگی، واہ یعنی ان کی کرپشن سے ملک کی بدنامی نہیں ہوتی کہ کیسا ملک ہے جہاں اتنی میگا کرپشن ہے۔
جنوبی کوریا کی خاتون صدر پارک گن ہے کو پولیس پکڑ لیتی ہے، اس سے کڑی تفتیش کی جاتی ہے اور 24سال قید کی سزا دی جاتی ہے اور یہ سزا عدالت سے براہ راست میڈیا پہ نشر کی جاتی ہے مگر جنوبی کوریا کی تو کوئی بدنامی نہیں ہوئی۔ ویسے آپ پارک گن کو داد دیں کہ خاتون ہونے کے باوجود 24 سال کی قید کاٹ رہی ہیں اور بیمار بن کر ملک سے باہر علاج کرانے کا مطالبہ نہیں کر رہیں ورنہ ہمارے ہاں تو بڑے بڑے ڈیڑھ دو مہینے میں ہی ریلیف کا مطالبہ اور باہر جانے کی ضد کرنے لگتے ہیں۔
اسرائیلی صدر موشے کٹساف کو خواتین کو ہراساں کرنے پہ جیل ہوگئی، اسرائیلی وزیر اعظم اہود آلمرٹ کو کرپشن پہ جیل ہوگئی۔ برازیل کے مقبول ترین صدر لولا کو کرپشن پہ 12 سال کی جیل ہوگئی۔ نہ اسرائیل کی بدنامی ہوئی نہ برازیل والے دنیا سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں بلکہ الٹا دنیا میں ان کی قدر و منزلت بڑھ گئی کہ ان کے ہاں قانون کے آگے سب برابر ہیں۔
پی آئی اے کو این آر او جمہوریت کے دس سالوں میں 400 ارب روپوں کا خسارہ ہوگیا اتنے میں تو ایک بالکل نئی ایئرلائن کھڑی کی جاسکتی تھی۔ ہر سال 10 ارب ڈالر یعنی کوئی 1300 ارب روپوں کی منی لانڈرنگ ہونے لگی۔ کرپشن کا مال پراپرٹی میں لگایا گیا تو پراپرٹی کی قیمتیں مصنوعی طور پہ آسمان کو چھونے لگیں اور متوسط طبقے کے لیے گھر خریدنا ناممکن ہوگیا اور اسے جغادری پٹواری زرداری حکومت میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی ترقی قرار دیتے ہیں۔
شریف حکومت میں اربوں کے پراجیکٹ کھربوں میں ہونے کو جغادری پٹواری انفرااسٹرکچر کی متعلقہ صنعتوں کی ترقی قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ان خاندانوں اور ان کے حواری کالم نگاروں اور اینکروں کو مبارک کہ بادشاہ لوگ ایک بار پھر این آر او دیتے نظر آرہے ہیں، ملکی معیشت بھاڑ میں جائے کرپشن، معیشت تو ترقی کر رہی ہے اور ان کو کیا چاہیے۔