کزن میرج کی بیماریوں سے خون کی کمی اور ہڈیاں ٹیڑھے پن کا شکار ہوجاتی ہیں

تشخیص اور علاج کے لیے لیبارٹریاں اور فنڈ قائم کیا جائے، ڈاکٹرہما ارشد، ڈاکٹر آغا شبیر، ڈاکٹر شبنم ، عاطف قریشی کاخطاب


Yousuf Abbasi April 09, 2019
بچوں کے علاج کیلیے سہولیات دیں گے، حنیف پتافی، ایکسپریس میڈیا گروپ اور ایل ایس ڈی سوسائٹی کے زیر اہتمام سیمینار۔ فوٹو:فائل

مشیروزیراعلی پنجاب برائے صحت حنیف خان پتافی نے کہا ہے کہ کزن میرج اور انٹر فیملی میرج کے پیش نظرمورثی بیماریوں کا شکار بچوں کے امراض کی تشخیص اوران کے علاج کے لیے وزیر اعلی پنجاب سے بھرپورانداز میں مالی و طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔


حنیف خان پتافی نے مقامی ہوٹل میں ایکسپریس میڈیا گروپ اور ایل ایس ڈی سوسائٹی کے زیر اہتمامSANOFI GENZYME کے اشتراک سے LYSOSOMAL STORAGE DISORDERS کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کزن میرج اور انٹر فیملی میرج کے پیش نظرمورثی بیماریوں کا شکار بچوں کے امراض کی تشخیص اوران کے علاج کے لیے وزیر اعلی پنجاب سے بھرپورانداز میں مالی و طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔


اس موقع پر ایل ایس ڈی (بچوں میں پیدائشی مورثی بیماریوں)کی ماہر پروفیسرڈاکٹرہما ارشد چیمہ، پروفیسر ڈاکٹرآغاشبیر علی، ڈاکٹر شبنم بشیر، ایل ایس ڈی سوسائٹی کے سربراہ عاطف اعجاز قریشی اور SANOFI GENZYME کی نمائندہ لیلیٰ خان بھی موجود تھیں۔ پروگرام کی میزبانی کے فرائض ایڈیٹر فورم روزنامہ ایکسپریس اجمل ستار ملک نے سرانجام دیئے۔


مشیر وزیر اعلی پنجاب حنیف خان پتافی نے کہا کہ LYSOSOMAL STORAGE DISORDERS پر سیمینار کا انعقاد کرکے ایکسپریس میڈیا گروپ نے قومی ذمہ داری کو پورا کیا ہے جس پر ایکسپریس میڈیا گروپ کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایل ایس ڈی پچاس مختلف ایسی بیماریوں کا موجب ہے جس کی تشخیص اور علاج نایاب ہے تاہم ہم پنجاب حکومت سے ان بیماریوں میں مبتلا بچوں کے علاج اور تشخیص کے لیے ہر ممکن مالی وطبی سہولیات کی فراہمی کویقینی بنائیں گے۔


اس موقع پر پروفیسرڈاکٹر ہما ارشد چیمہ نے بتایا کہ پاکستان میں ایل ایس ڈی کے پھیلاؤ کی وجوہات میں خاندانی اورکزن میرج شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بطور کنسلٹنٹ وہ چلڈرن ہسپتال میں خدمات انجام دے رہی ہیں اور ایل ایس ڈی سوسائٹی کے تعاون سے مخیر حضرات کی مالی معاونت سے ایل ایس ڈی کا شکاربچوں کا علاج کیا جارہاہے۔


پروفیسر ڈاکٹر آغاشبیر علی نے کہا کہ معاشرہ میں ایل ایس ڈی میں مبتلا بچوں کی تعداد گوکہ سینکڑوں میں ہے تاہم ان کے علاج اوران زندگی کومحفوظ بنانے کے لیے انہیں لائف ٹائم ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے جس کو حکومتی تعاون کے بغیر ممکن نہیں بنایا جاسکتا جس کے لیے حکومتی سطح پر ڈاکٹر ز کی تربیت بھی ضروری امر ہے۔


ایل ایس ڈی سوسائٹی کے سربراہ عاطف اعجاز قریشی نے کہا کہ 2018ء میں سوسائٹی کو رجسٹرڈ کرایا گیا تاکہ مورثی بیماریوں سے بچوں کو بچایا جاسکے اورعوام کو کزن میرج کی آگہی دی جا سکے جس کی وجہ سے ایل ایس ڈی پھیل رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ پچیس فیصد مواقع ہوتے ہیں کہ بچوں میں مورثی بیماریاں منتقل ہوجائیں، ہم ایسا نظام لانا چاہتے ہیں جس سے بروقت والدین اور بچوں میں ایل ایس ڈی کی تشخیص ہوسکے۔


انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں ایل ایس ڈی میں مبتلا بچوں کی تعداد کو780 رجسٹرڈ کیا گیا ہے،51 مریضوں کا علاج ہورہا ہے جبکہ باقی فنڈز کی قلت کے باعث پائپ لائن میں ہیں۔


پنجاب تھیلیسیما پریوینشن پروگرام کی پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شبنم بشیر نے کہا کہ ایل ایس ڈی ایک خطرناک مگرعلاج کے قابل بیماریاں ہیں۔سیمینار میں ملک کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے ایل ایس ڈی بیماریوں کا شکار افراد اور ان کے والدین وجاہت اللہ، ذکیہ بی بی، نوربادشاہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔


سیمینار کے آخر میں مہمان خصوصی مشیر وزیر اعلی پنجاب برائے صحت حنیف خان پتافی نے مہمان گرامی اورشرکاء میں یادگاری شیلڈز تقسیم کیں۔


 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں