ناپختہ خیالات جذباتی سوچ اجنبی دنیا اور نئے دوست

سوشل میڈیا کا نوعمر صارف والدین کی توجہ اور راہ نمائی چاہتا ہے


سائرہ فاروق April 09, 2019
سوشل میڈیا کا نوعمر صارف والدین کی توجہ اور راہ نمائی چاہتا ہے۔ فوٹو: فائل

انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے جہاں ہمارے ذہن اور فکر کو وسعت دی ہے، ہمارے بے شمار کام آسان کیے ہیں اور ہمارے لیے معلومات کا خزانہ ثابت ہوئی ہے، وہیں اس ٹیکنالوجی نے ہمیں دنیا کے کونے کونے تک رسائی اور افراد و اداروں سے تعلقات استوار کرنے کا موقع بھی دیا ہے۔ اس کا مقبول ترین ذریعہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور ایپلیکیشن ہیں جن میں فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، وَٹس ایپ شامل ہیں۔

دورِ حاضر میں کمپیوٹر، لیپ ٹاپ جیسی مشینوں کے استعمال کے ساتھ اسمارٹ فون وہ آلہ ہے جو سبھی کے ہاتھوں میں نظر آتا ہے۔ اس دور کی مقبول ترین سوشل ویب سائٹس میں فیس بک پر نوجوانوں کی اکثریت متحرک نظر آتی ہے اور یہ ہر خاص و عام کی توجہ اور دل چسپی کا مرکز ہے۔ ان میں ملازمت پیشہ اور گھروں میں رہنے والی عورتوں کے علاوہ اسکول جانے والی لڑکیاں بھی شامل ہیں جن کے لیے اسمارٹ فون میسر آجانے کے بعد انٹرنیٹ سروس حاصل کرنا مشکل نہیں۔ اس کے لیے ان کا جیب خرچ ہی کافی ہوتا ہے۔ یوں یہ نوعمر رابطے کے سہل، سستے اور پیغام رسانی کا مؤثر ذریعہ خیال کیے جانے والے پلیٹ فارم تک بہت آسانی سے رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور ایک نئی دنیا سے متعارف ہوتے ہیں جہاں وہ اپنوں کے ساتھ اجنبی اور انجان لوگوں سے بھی جڑنے لگتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو کم سن لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے مزاج کی تبدیلی، موڈ کا اتار چڑھاؤ، گھر کے کاموں میں اچانک عدم دل چسپی کا مظاہرہ، چڑچڑاہٹ اور اس جیسی کیفیات نہ صرف جلدی نظر میں آجاتی ہیں بلکہ ہمارے سماج میں لڑکیوں پر زیادہ نظر بھی رکھی جاتی ہے، کیوں کہ ہمارے ہاں عزت اور غیرت کا تصور لڑکی سے ہی مشروط ہے جس کی لغزش خاندان کے وقار کو خاک میں ملا سکتی ہے۔ اسی تصور کے تحت جب ضرورت سے زیادہ توجہ یا نگرانی کی جاتی ہے یا اس حوالے سے مناسب طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا تو والدین اور اولاد کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسی لڑکیاں بے جا روک ٹوک اور پابندیوں کی وجہ سے گھٹن اور بددلی کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ اگر والدین ان کے ساتھ دوستانہ رویہ نہ رکھیں اور ان کی بہتر طریقے سے راہ نمائی نہ کریں تو انہیں اپنے والدین کا وہ حفاظتی حصار چھبنے لگتا ہے جس کا نتیجہ بغاوت کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔

ایسے ماحول کی پروردہ لڑکی جب سوشل میڈیا سے جڑتی ہے تو نیرنگیِ زمانہ سے عدم واقفیت اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے کسی اجنبی کی چکنی چپڑی باتوں میں نہایت آسانی سے آسکتی ہے۔ وہ سوتے جاگتے خواب بُنتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ ہیجانی کیفیت کے زیر اثر غلط قدم اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ نوعمر لڑکیوں کے لیے انٹرنیٹ ایک وادیِ رنگین ثابت ہوتا ہے۔ اگر ہم نوجوان لڑکیوں کی راہ نمائی کرتے ہوئے سوشل ویب سائٹس پر ذاتی معلومات کی فراہمی اور نجی یا گھریلو معاملات پر گفتگو کے علاوہ کسی بھی فرد سے جذباتی تعلق قائم کرنے کے حوالے سے آگاہی نہ دیں تو مسئلہ جنم لے سکتا ہے۔

اپنی بچیوں کو بتائیے کہ سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک پر جہاں ہمارے عزیز اور احباب موجود ہیں، وہیں کئی منفی سوچ کے حامل افراد اور گروہ بھی سرگرم ہیں۔ ایک نئے صارف خصوصاً لڑکیوں کو فیس بک استعمال کرتے ہوئے کچھ باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اب صنف مخالف سے رابطہ پہلے کی نسبت آسان ہے۔ مرد اور عورت کے مابین فطری کشش ایک الگ بات ہے، مگر سوشل میڈیا کے دور میں شناسائی اور دوستی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ نوعمر لڑکیوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ غیر ضروری سماجی روابط کو بڑھانے کے عمل میں ان کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہر موصول ہونے والی فرینڈ ریکویسٹ کو قبول کرنا فرض نہیں ہے۔ دوستوں کی تعداد بڑھانے کو جنون نہ بنا لیں۔ یہ کوئی کمال نہیں، کسی قسم کا اعزاز نہیں ہے کہ آپ کے فرینڈز کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پختہ عمر کی باشعور خواتین اتنی آسانی سے کسی فریب اور دھوکے کا شکار نہیں ہوتیں۔ وہ کسی کی پروفائل سے جلدی مرعوب ہوتی ہیں اور نہ ہی جذبات کی رو میں بہہ کر بات آگے بڑھاتی ہیں، مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر بدنیت اور آوارہ ذہن لوگ نوعمر لڑکیوں کو اپنے مالی اسٹیٹس یا شکل و صورت سے متاثر کرنے کی کوشش میں کام یابی کے بعد ان کی جذباتی اور ہیجانی کیفیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اب بات ٹیکسٹ پیغامات کے تبادلے تک محدود نہیں رہی بلکہ وائس اور ویڈیو چیٹ کے آپشن بھی موجود ہیں جس کے بعد ملاقات کی خواہش ظاہر کردی جاتی ہے اور یہ بھی کچھ مشکل نہیں۔ اگر نوعمر بچیوں کی راہ نمائی نہ کی جائے اور ان پر نظر نہ رکھی جائے تو کسی غلطی کی صورت میں نہ تو وہ کُھلکر اپنے گھر والوں کو کچھ بتا سکتی ہیں نہ ہی گھر والے بَروقت اسے بھانپ سکتے ہیں۔

مختلف ویب سائٹس اور فیس بک کی دنیا میں میسنجر دو اجنبیوں کو آسانی سے بات چیت کرنے کا موقع دیتا ہے جس کے بعد ایک گھاگ شکاری چند منٹوں میں ہی جان لیتا ہے کہ اس کے شکار کی عمر کیا ہے؟ وہ کیا پسند کرتا ہے، کس بات سے خوش ہوتا ہے، اسے اپنی کس بات یا ادا کی تعریف پسند ہے۔ اسی طرح وہ یہ جان لیتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول، اہلِ خانہ کے کس رویے سے ناخوش ہے اور اس کی جذباتی کیفیت کیا ہے۔ تب کسی بھی ٹین ایج لڑکی کو اپنے دام میں پھنسانا اس کے لیے ذرا مشکل نہیں رہتا۔ اکثر لوگوں کے لیے یہ صرف شغل اور تفریح کا راستہ ہوتا ہے، مگر ایک کم عمر لڑکی کو ورغلانے کے بعد اپنا مقصد پورا ہوتے ہی مسترد کردینا اس کے ذہن پر نہایت منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

اس عمر میں جب لڑکیاں نہایت جذباتی اور ناسمجھ ہوتی ہیں تو کسی اجنبی کی محبت اور توجہ حاصل ہونے پر خود کو خوش قسمت تصور کرنے لگتی ہیں۔ اس کی اصل وجہ گھر والوں کی عدم توجہی اور اس حوالے سے کسی قسم کی راہ نمائی میسر نہ ہونا ہے۔ ایسی لڑکی اجنبی کے سوالات کے جواب میں اپنے گھریلو حالات کے ساتھ اپنی ذات سے متعلق ہر قسم کی معلومات اور اکثر اہم راز یا نجی نوعیت کی باتیں بھی شیئر کردیتی ہے۔ یوں سوشل میڈیا کا یہ نووارد صارف تعلقات و روابط بڑھانے اور دوستی مستحکم کرنے کے چکر میں کسی بد نیت و بد کردار اور بسا اوقات کسی جرائم پیشہ کو اپنا آپ گویا خود ہی پیش کر دیتی ہے۔

نوعمر لڑکیاں عموماً ہر بات پر جذباتی ردعمل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ یہ اس عمر کا تقاضا بھی ہے، مگر اس میں توازن ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ان کو اس بات سے آگاہ کرنا چاہیے کہ انہیں کسی پر کس حد تک بھروسا کرنا ہے اور جذبات و خیالات پر کنٹرول بھی سکھانا چاہیے۔ ٹین ایج لڑکیوں میں عداوت، حسد اور جلن جیسے منفی جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر میل جول کے حوالے سے ناواقف ایسی لڑکیاں اکثر اس بات پر بھی برانگیختہ ہو جاتی ہیں کہ ان کے کسی قریبی دوست کی پوسٹ کو زیادہ کمنٹس یا لائیک کیوں مل رہے ہیں یا جب ان میں سے کوئی اپنی ترقی اور کام یابی کا فیس بک پر ذکر کرے تو یہ ڈیپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یا پھر انہیں احساسِ کمتری ستانے لگتا ہے اور اس کا علم ہونے پر کوئی بھی اس کا کسی بھی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

فیس بک کے بے تحاشا یا غیر ضروری استعمال نے جہاں ہمارے کلچر کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے، وہیں اس حوالے سے تربیت و آگاہی کی ضرورت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ نو عمر لڑکیوں کی توجہ گلیمر اور سیلفیوں پر مرکوز ہے اور مسابقت کی یہ دوڑ اعصاب شکن ہی نہیں بلکہ یہ گھر جیسی اکائی کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے اور سچے و خونی رشتوں سے لا تعلق بنا رہی ہے۔ اس حوالے سے اعتدال اور ضرورت کے مطابق استعمال کی اہمیت پر زور دینا ہو گا۔

کسی اجنبی سے جب نوعمر لڑکی گھر والوں کے رویے کی شکایت کرتی ہے وہ اس کی جذباتی کیفیت کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اجنبی اسے سمجھانے اور صحیح راستہ دکھانے کے بجائے ہر صورت لڑکی کو درست کہہ کر اس کا دماغ مزید خراب کرتا ہے۔ ایسا کوئی بھی شخص اسے گھر سے متنفر اور خود سے قریب کرنے کے تمام ہتھکنڈوں کو آزماتا ہے اور کام یاب بھی ہو جاتا ہے۔ ایک کم عمر لڑکی جب اس کی نظر سے اپنے گھر کے معاملات کو دیکھتی ہے تو وہ اسے کوئی قید خانہ اور خود کو قیدی سمجھنے لگتی ہے۔ اور اس قید خانے کے باہر ایک اجنبی کا باتوں سے تعمیر کیا گیا محل انتہائی محفوظ اور خوب صورت نظر آتا ہے جہاں گویا ہر طرح کی آزادی اور خوشیاں اس کی منتظر ہوتی ہیں۔

شروع میں لڑکی کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ ماں کے آنچل سے نکل کر خطرے کے کتنے قریب آگئی ہے اور کسی سے مرعوب ہو کر اپنی زندگی برباد کر لیتی ہے۔ محبت کے اس ڈرامے کا اگلا جذباتی موڑ شادی کا جھانسا ہوسکتا ہے۔ کچے ذہن کی لڑکی کے لیے یہ پیغام انتہائی جذباتی اور ہیجانی نوعیت کا ہوتا ہے۔ تاہم زیادہ تر اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ ہم میڈیا پر یہ تو سنتے ہیں کہ فیس بک پر دوستی شادی میں بدل گئی، مگر اس کا انجام کیا ہوا، اس بارے میں اکثر لاعلم ہی رہتے ہیں۔ کچھ حیوان پہلی ملاقات کو آخری سمجھ کر اپنا غلیظ مقصد پورا کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں اور بعض نکاح کا سہارا لیتے ہیں اور یہ بھی دھوکے کی ایک شکل ہوتی ہے۔ اکثر محبت کے بعد نکاح کرنے والی جس مرد کے لیے دہلیز چھوڑتی ہے، وہی بعد میں دل بھر جانے پر کوئی بھی تہمت لگا کر یا شک کی بنیاد پر اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

یہ تو وہ باتیں ہیں جو ہم دیکھتے اور سمجھتے بھی ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا اب ہماری زندگی کا حصہ ہے تو ہمیں اسے قبول کرتے ہوئے اس کا استعمال سیکھنا اور سکھانا بھی ہوگا۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اس نئے دور کے تقاضوں کے مطابق لڑکیوں کو تربیت اور آگاہی دیں اور ان کی ذہنی حالت، اور جذباتی کیفیات کو سمجھیں۔ بڑھتی ہوئی عمر کی بچیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا ضروری ہے۔ ان کے خیالات جاننے، ان کے مشاغل اور دل چسپیوں سے آگاہ رہنے کے ساتھ محبت، نرمی اور اعتماد کے ساتھ توجہ دیں۔ ان پر اپنے فیصلے مسلط نہ کریں بلکہ ان کی ہر معاملے میں بہتر راہ نمائی کرتے ہوئے آزادی بھی دیں۔ بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان فرق روا نہ رکھیں بلکہ دونوں کو ایک جیسی توجہ اور محبت دیں تاکہ وہ اس محبت کے لیے اپنے گھر کی محفوظ باڑ عبور کر کے باہر دلدل میں قدم نہ رکھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔