میرے مرشد کے پیرو کار
میرے اور جماعت کے تعلق کا آغاز اس وقت سے ہوا جب میری مسیں بھی نہیں بھیگیں تھیں۔
میں جسمانی طور پر تو وہاں موجود نہیں تھا لیکن میری روح وہاں موجود تھی، روح پرور اور حقیقی طور پر نیک لوگوں کا اجتماع تھا جس کی ایک جھلک میں نے ٹیلی ویژن پر دیکھی اور اس کی روداد دستی موصول ہونے والی امیر جماعت کی تقریر پڑھ کر معلوم ہو ئی۔ منصورہ میں ہمیشہ کی طرح پاک باز اور اللہ رسولﷺ کے نام لیواؤں کا عظیم اجتماع تھا جہاں پر میرے مرشد ابوالاعلیٰ مودودی کے پیرو کار ملک بھر سے جمع ہوئے اور امیر جماعت سراج الحق کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے۔
جماعت کے نوجوان سیکریٹری اطلاعات برخوردار قیصر شریف کی پر خلوص دعوت اور اصرار کے باجود میں اپنی مجبوریوں کے باعث اس پاک اور بابرکت محفل میں شرکت سے محروم رہا لیکن میں نے اپنے بیٹے کو اس محفل میں شرکت اور اپنی نمایندگی کے لیے بھیج دیا، اس پیغام کے ساتھ میرا جماعت سے تعلق آج بھی وہی ہے جو سید ابوالاعلیٰ مودودی کے دور سے شروع ہو اور آج تک قائم ہے اور میری دنیاوی زندگی تک قائم و دائم رہے گا۔
میرے اور جماعت کے تعلق کا آغاز اس وقت سے ہوا جب میری مسیں بھی نہیں بھیگیں تھیں، میرے بڑے بھائی رب نواز جو کہ جماعت کے اولین کارکنوں میں شامل تھے، انھوں نے دور افتادہ پہاڑوں میں گھرے گاؤں سے جوانی میں قدم رکھتے اپنے سب سے چھوٹے بھائی قادر بخش کو مولانا مودودی کی خدمت میں لاہور کے ذیلدار پارک اچھرہ بھجوا دیا جہاں پر مولانا مودودی قوم کے نوجوانوں کو اسلام کی اصل روح سے آگاہی کے لیے درس و تدریس میں ہمہ وقت مشغول رہتے تھے۔ میں نے لاہور پہنچتے ہی مولانا کی خدمت میں حاضری دی اور علم کے اس سمندر سے بہرہ مند ہونے کا آغاز کر دیا۔
میری والدہ مر حومہ جو کہ گاؤں کے سب سے معزز شخص کی بیٹی تھیں اور انھیں اپنے چھوٹے بیٹے سے بے انتہا پیار تھا، انھوں نے میرے لاہور منتقل ہونے کی شدید مخالفت کی اور اپنے بڑے بیٹے کو جو مجھے لاہور بجھوانے میں پیش پیش تھے، ان کی سخت الفاظ میں ڈانٹ ڈپٹ بھی کی لیکن ان کو ایک اچھی تعلیم کے بارے میں آگاہ کر کے بمشکل اجازت حاصل کر لی گئی۔ لیکن گاؤں سے لاہور روانگی کے وقت انھوں نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا کہ اس کو کچھ پیسے زیادہ دینا، سنا ہے کہ لاہور میں تو پانی بھی خرید کر پینا پڑتا ہے۔ ان کے یہ الفاظ میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہم سب پانی بھی خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔
یوں جوانی میں ہی جماعت اسلامی سے میرے رشتے کا آغاز ہو گیا جو کہ آج تک قائم چلا آ رہا ہے۔ سید مودودی سمیت کئی ایسی نابغہ روزگار شخصیات ان کے اس مشن میں اس وقت ان کے ساتھ تھیں جن سے مجھے بہرہ مند ہونے کا موقع ملا۔ انھی میں سے ایک معتبر شخصیت اور مولانا کے قریبی ساتھی سید مسعود عالم ندوی نے مجھے نام تبدیل کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ قادر بخش اور عبدالقادر حسن کے معانی ایک ہی ہیں اس لیے تم اب عبدالقادر حسن لکھا کرو۔ یو ں میں جماعت اسلامی کی زیر نگرانی قادر بخش سے عبدالقادر حسن بن گیا۔ گو کہ سرکاری اور پٹواری کے کھاتوں میں میرا نام ابھی بھی قادر بخش درج ہے لیکن میری پہچان اور بنیاد جو سید ابو الاعلیٰ مودودی کی نگرانی میں رکھی گئی اس پہچان کے مطابق میں عبدالقادر حسن کہلاتا ہوں۔ یہ تو ایک ذاتی سی اطلاع تھی جو جماعت سے جڑی ہوئی ہے اور ضمناً اس کا ذکر آ گیا ہے۔
جماعت اسلامی ہمارے ملک کی واحد جماعت ہے جس کے سربراہ کا انتخاب اس کے کارکنان کے ذریعے ہوتا ہے اور شفاف ہوتا ہے۔ کارکنا ن جماعت پانچ سال کے لیے اپنے امیر کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح جماعت اسلامی میں کوئی موروثیت نہیں اس کی موروثیت اس کے کارکنان ہیں اور وہی اس جماعت کے اصلی وارث ہیں اور انھی کے دم قدم سے جماعت کے نام لیوا دنیا بھر میں موجود ہیں۔ سید مودودی نے اپنے پیروکاروں کی ایسی تربیت کی کہ میں اگر یہ کہوں جماعت میں ہمیشہ ولی اللہ لوگ موجود رہے تو غلط نہ ہو گا اور میری اس بات کو کوئی جھٹلائے گا بھی نہیں۔ میاں طفیل محمد رحمتہ اللہ علیہ، ملک غلام علی مرحوم و مغفور سے لے کر موجودہ امیر سراج الحق تک اس دنیا میں سادگی ،نیکی اور پاکبازی کے اعلیٰ درجوں میں ہیں۔ ان لوگوں نے دین اسلام کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں تج دیں۔
دنیاوی زندگی کی قربانی کے ساتھ مال اور جان کو بھی اسلام پر قربان کر دیا۔ جماعت کے نوجوانوں کے شہداء کی ایک طویل فہرست ہے جو کافروں کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گئے اس فہرست میں جماعت کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کے بیٹے بھی شامل ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جس نے اپنی سب سے قیمتی متاع اللہ کی راہ میں قربان کر دی ان لوگوں کا ہم دنیاوی لوگوں سے مقابلہ اور موازانہ نہیںکیا جا سکتا۔ یہ کسی اور دنیا کے لوگ ہیں جن کو ہماری رہنمائی کے لیے ہمارے درمیان بھیج دیا گیا ہے۔
حق اور سچ کی بات سننے کا اگر حوصلہ ہو تو جماعت اسلامی کے قائدین سے سنیں جنہوں نے اپنی دنیاوی خواہشات کو اپنے سے کہیں دور کر دیا ہے اور اپنی زندگی کا مقصد اللہ کے احکامات اور اس کے رسولﷺ کی سنت کے مطابق عمل کو قرار دیا ہے اور اس کا عملی نمونہ اسی دنیا میں پیش بھی کرتے ہیں۔ ایک دنیا دار ان لوگوں کے لیے دعا کے علاوہ کیا کر سکتا ہے۔ میرے مرشد کے پیرو کاروں کا گروہ سلامت اور آباد رہے۔ یہ جماعت کی ایک ہلکی سی جھلک اس پر قائم رہنا ایک جہاد ہے۔