بھارتی مسلمانوں سے قبل ازانتخابات دھاندلی
مسلم دشمنی بی جے پی کی سیاست کا سب سے اہم مُہرہ ہے۔
انڈیا کی ستر سالہ تاریخ میں جمعرات سے شروع ہونے والے انتخابات کو تاریخ کا سب سے متنازعہ الیکشن قرار دیا جارہا ہے۔ یوں تو وجوہات بے شمار ہیں لیکن میں بات کروں گی ان بھارتیوں کی جو اپنا نام ووٹر لسٹوں میں ایسے تلاش کر رہے ہیں گویا مودی دورِحکومت میں کھویا ہوا اپناشائننگ انڈیا ڈھونڈ رہے ہوں۔
جی ہاں! یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ سیکڑوں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بھارتی شہریوں کا ووٹرلسٹوں سے نام خارج کردیا گیا ہے، لیکن مودی کی گودی میں بیٹھا بھارتی میڈیا اس معاملے کی طرف سے آنکھیں بند کیے انتخابی ہَڑاہُڑی میں مصروف ہے۔ عام جنتا کی سیوا کا راگ الاپنے والے بھارت میں معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایک طرف اکیس ملین عورتوں سے ووٹ ڈالنے کا حق چھینا جارہا ہے تو دوسری جانب تین کروڑ مسلمان اور چار کروڑ دلت ووٹروں کے بھی انتخابی لسٹوں سے اخراج کی کہانی چھپائی جا رہی ہے۔
بھارت میں مسلمان ووٹروں کی کُل تعداد گیارہ کروڑ جب کہ دلت ووٹروں کی تعداد بیس کروڑ ہے۔ ان ووٹروں میں سے زیادہ تر کا تعلق تامل ناڈو، گجرات، اتر پردیش، آندھرا پردیش، کرناٹکا اور تلنگانہ سے ہے۔ دیگر اقلیتوں کے مقابلے میں مسلمان ووٹروں کی تعداد بہت زیادہ ہے جنھیں انتخابی عمل سے باہر دھکیل دیا گیا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ مسلم منافرت کی وہ آگ ہے جو یوں تو بھارتی فضا کو ہمیشہ ہی آلودہ کرتی رہی ہے لیکن مودی جیسے انتہا پسند حکم راں کے دور میں یہ آگ اتنی پھیل چکی ہے کہ شاید کئی سالوں تک یہاں امن کے بادلوں کا رنگ سیاہ ہی رہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو مسلمانوں کی مطلوبہ حمایت کبھی حاصل ہی نہیں رہی۔ وفاقی حکومت میں بھی بی جے پی کی طرف سے کوئی مسلمان وزیر تک موجود نہیں۔ گذشتہ انتخابات میں بھارت کی انتیس ریاستوں میں کھڑے ہونے والے بی جے پی کے چار سو بیاسی امیدواروں میں سے صرف سات مسلمان تھے، جن کا چناؤ یقیناً اضطراری حالت میں کیا گیا کیوں کہ ان کا کوئی متبادل ہندو چہرہ موجود ہی نہ تھا۔
اترپردیش، مہاراشٹر اور راجستھان کے گم شدہ ووٹرز میں ایک بڑی تعداد عورتوں کی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق انڈیا کے ہر انتخابی حلقے میں اوسطاً اڑتیس ہزار عورتوں کے نام ووٹر لسٹوں میں شامل نہیں، جب کہ صرف اترپردیش میں یہ تعداد اسی ہزار تک جا پہنچی ہے۔ 2014 کے عام انتخابات میں گجرات میں لاکھوں مسلمان ووٹروں کو فہرستوں سے نکال دیا گیا تھا لیکن اس بار تو قبل از انتخاب دھاندلی کی انتہا کردی گئی ہے۔ بھارت میں ہندو کُل آبادی کا اَسّی جب کہ مسلمان چودہ فی صد ہیں۔ مسلمانوں کی کل تعداد میں سے بھی پندرہ فی صد کا ووٹر لسٹوں سے اخراج بھارتی جمہوریت کے زورشور سے پٹنے والے ڈھول میں بڑا سا چھید کر گیا ہے۔
حیرت ہے کہ گائے کے لیے ہائے ہائے کرنے والے مودی جی کو اتنی بڑی دھاندلی دکھائی دے رہی ہے نہ دہلی کا سرکاری میڈیا آنکھیں کھولنے کو تیار ہے۔ بھارتی اخبارات اتنے سنگین معاملے کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے مودی جی کے'' شان دار'' دورِحکومت کا راگ الاپ رہے ہیں۔ پورے کا پورا ہندی میڈیا بہت سستا بک چکا ہے اور مودی جی کو 2030تک کی حکم رانی کے سہانے سپنے دکھا رہا ہے۔
مودی جی کی ایک ایک ریلی اور اس میں کی جانے والی تقاریر کا ایک ایک لفظ دکھانا اس وقت بھارتی میڈیا اپنا فرضِ عین اور نصب العین سب ہی کچھ بنا چکا ہے، لیکن بڑی تعداد میں اقلیتوں کو ووٹنگ سے محروم کردینے کی اس بڑی خبر کو کاٹ پیٹ کر بھی شایع کرنے کا کسی کے پاس وقت نہیں۔ سرکار اور سرکار کا گود لیا میڈیا سب مل کر بھارت کو اندھے مستقبل کی طرف دھکیل رہے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ اس حرکت کو ایک بڑی قومی خدمت بھی قرار دے رہے ہیں۔
مسلم دشمنی بی جے پی کی سیاست کا سب سے اہم مُہرہ ہے۔ کرناٹک کے وزیراعلٰی صاحب نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اس بار انتخابات میں کسی بھی مسلمان کو ہرگز ٹکٹ نہ دیا جائے۔ ان کے بیان نے ان دعوؤں کو مضبوط بنیاد فراہم کر دی جن کے مطابق مودی نے ہندوستان کو ذات پات اور برادریوں میں بانٹ کر جمہوریت کی توہین کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ انتہاپسند عناصر، مودی دورِحکومت میں اتنے بے خوف ہوگئے کہ وہ مسلمانوں سے پاک سیاست کے مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے لگے۔ یہاں تک کہ بساہڑہ گاؤں، جہاں گائے رکھشا کے نام پر محمد اخلاق کو مار مار کر قتل کر دیا گیا تھا، میں ہونے والے انتخابی جلسے میں اخلاق احمد کے ایک قاتل کو اگلی صف میں خصوصی جگہ دی گئی، جس سے واضح تاثر ملا کہ بی جے پی کا مقصد ہندوؤں کو خوش کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز ماحول بنانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
آزادی کے بعد کا بھارتی آئین اختیار دیتا ہے کہ کسی بھی مذہب کا شخص تمام مذاہب کے لوگوں کی نمایندگی کرسکتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والی ہندوتوا سوچ نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر اچھوت بنا ڈالا ہے۔ لوک سبھا میں مسلم ارکان کی تعداد گھٹتے گھٹتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ بی جے پی کے موجودہ دورِحکومت میں تو رہی سہی حدیں بھی پار ہو گئیں۔ گذشتہ سال ہونے والے اترپردیش اسمبلی کے انتخابات میں چار کروڑ مسلم آبادی میں سے کسی ایک کو بھی ٹکٹ دینے کے قابل نہ سمجھا گیا بلکہ دھڑلے سے کہا گیا کہ جب مسلمان انھیں ووٹ دیتے ہی نہیں تو وہ انھیں کس بات کا ٹکٹ دیں۔ اسی سوچ کے تحت اب عام انتخابات میں بڑی تعداد میں مسلمان ووٹروں کو انتخابی عمل سے ہی باہر کردیا گیا۔
بھارت کی سیاست میں ہونے والی یہ بے ایمانی جمہوری نظریات کے خون کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ اقلیتوں کے مفاد کا خیال رکھے بغیر جمہوری عمل کو آگے بڑھایا ہی نہیں جا سکتا۔ لیکن بھارتی عوام یقیناً پہلے سے کچھ زیادہ سمجھ دار ہوگئے ہیں، شاید اسی لیے مودی، مودی اور صرف مودی کے نعروں میں وہ چہکار ہے نہ گرم جوشی ۔ اس کی ایک بڑی وجہ کانگریس کا بہترین انتخابی منشور کے ساتھ میدان میں اترنا ہے۔ مودی جی جو''سب کا ساتھ، سب کا وکاس'' جیسے خوش کُن نعرے کے ساتھ اقتدار کے منصب پر براجمان ہوئے تھے، ان کی غلط پالیسیوں نے بھارتیوں کو غفلت کی نیند سے بے دار کردیا۔
بھارتی معیشت پہلے کے مقابلے میں دو فی صد پیچھے چلی گئی ، روزگار ختم ہوگیا، جس کا سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں نے اٹھایا۔ مودی جی اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنے وکاس کے ایجنڈے کو بالائے طاق رکھ کے مسلم دشمنی کی سیاست میں ڈوب گئے ۔ مودی کے پانچ سالہ اقتدار کا سورج غروب ہو رہا ہے لیکن مسلم دشمنی کے کارڈ کو کھیل کھیل کر وہ تھکے نہیں۔ بھارتی میڈیا پر آج کل جس طرح کی رپورٹیں پیش کی جارہی ان کے مطابق 2040تک ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی کا حامل ملک بن جائے گا۔ اس طرح کے بے بنیاد اور بودے جائزوں سے مسلمانوں کے خلاف خوف اور نفرت کو مزید بڑھاوا دیا جارہا ہے۔
انتخابات سے قبل مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی دھاندلی اور ناانصافی دیکھتے ہوئے بھارت کی مسلم آبادی نئی قیادت کے حوالے سے سخت فکر مند ہے۔ اس صورت حال سے پریشان بھارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین اب مزید ''بانٹو اور راج کرو'' کی پالیسی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس وقت بھارتیوں کے لیے کانگریس اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن ہے۔ راہول گاندھی نے ''چوکیدار'' کے گرد بہت خوبی سے گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ الیکشن کا آغاز ہوچکا ہے ۔ دیکھیے وقت بھارتیوں پر مہربان ہوتا ہے یا؟؟