سیاسی منظرنامے میں ڈرامائی تبدیلیوں کے آثار
بینظیر کے بعد آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی ملک کی حقیقی قومی سیاسی جماعت کے مقام سے کئی درجے نیچے اُتر آئی۔
1971 کے بعد قومی سطح کی دو سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن وجود میں آئیں۔ یہ جماعتیں پاکستان کے چاروں صوبوں میں وجود رکھتی تھیں لیکن ایک خاص لسانی پس منظر کے ساتھ مختلف صوبوں میں ان کی قوت بھی مختلف تھی۔ بینظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی ملک کی حقیقی قومی سیاسی جماعت کے مقام سے کئی درجے نیچے اُتر آئی۔ پنجاب میں پی پی کا دائرہ اثر محدود ہوگیا اور بلوچستان اور کے پی کے میں بھی پارٹی کم زور پڑ گئی۔
بار بار سندھ کارڈ کھیلنے کی وجہ سے یہ سندھی جماعت بن گئی۔ سندھ میں بسنے والے مہاجر بھی جس سے بے گانگی رکھتے ہیں۔ زرداری اور ان کے خاندان کے گرد جوں جوں احتساب کا گھیرا تنگ ہورہا ہے منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے بڑے معاملات میں وعدہ معاف گواہ سامنے آرہے ہیں۔ دوسری جانب بلاول نوجوان اور ناتجربے کار ہیں اور نہ ہی کرشماتی لیڈر بن سکے ہیں اس لیے اس وقت پیپلز پارٹی کے مستقبل پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔
دیگر جمی جڑی پارٹیوں کی شکست و ریخت بھی جاری ہے۔ برسوں سے بڑے پیمانے پر جاری بدعنوانی اور ''پاناما پیپرز'' کے انکشاف سے شریف خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔ وزارت عظمی سے وہ کرپشن کی بنیاد پر معزول نہیں ہوئے، عدالت میں دروغ گوئی نے انھیں اقتدار سے محروم کیا۔ اس کے بعد کرپشن کے مقدمات میں نواز شریف کے جیل جانے سے پارٹی کو بھاری نقصان پہنچا۔ جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی الگ صوبے کی فکر میں سرگرداں تھے، چوہدری نثار علی خان اور جاوید ہاشمی جیسے لیڈر پارٹی کی موجودہ قیادت سے دور ہوگئے اور مسلم لیگ ن کو 2018کے انتخابات میں شکست ہوئی۔
میاں نواز شریف کے خلاف زیر التوا مقدمات اور دست یاب شواہد غیر معمولی ہیں اور اسی کے ساتھ گرتی ہوئی صحت کے باعث وہ مزید نقصان سے بچنے کی فکر میں ہیں۔ اگر منی لانڈرنگ میں نواز شریف کو سزا ہوجاتی ہے تو برطانیہ اور دیگر ممالک میں بھی انھیں مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ تاہم جن لوگوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت پر سرمایہ کاری کی تھی وہ نواز شریف کو بطور سیاسی قوت زندہ رکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے بغیر وہ ایک بے مقصد جدوجہد میں کب تک مصروف رہ سکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کا محور نواز شریف کی شخصیت ہے لیکن شہباز شریف نے، بالخصوص لاہور میں، بڑے بڑے منصوبے مکمل کرکے خود کو مردِ میدان ثابت کیا ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ شہباز شریف کی صحت بھی اچھی نہیں، مزید یہ کہ وہ شدید کمر درد میں مبتلا ہیں۔ حمزہ شہباز کو ن لیگ میں قیادت کے لیے ایک آپشن قرار دیا جاتا تھا وہ بھی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات کی زد میں ہیں۔ بالفرض شریف خاندان کی سیاست سے دست برداری مسلم لیگ ن کے لیے آخری دھکا ثابت ہوگی۔ کسی مضبوط قیادت کے بغیر اس کے ارکان تتر بتر ہوجائیں گے اور دیگر جماعتوں کا رُخ کرلیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں چوہدری نثار سب سے مضبوط امیدوار ہوں گے۔
سیاسی منظر نامے پر رونما ہونے والی ڈرامائی تبدیلیاں نظام کے استحکام کو متاثر کریں گی اور پہلے سے کمزور پڑتی پاکستانی ریاست کے لیے صورت حال مزید نازک ہوجائے گی۔ یہ حالات پیدا ہونے سے روکنے کی بھاری ذمے داری حکمران جماعت تحریک انصاف اور عمران خان کے کاندھوں پر ہے۔ پاکستان کو اس وقت ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو چاروں صوبوں میں جڑیں اور ملک، معیشت اور سیاسی نظام کو مستحکم کرنے کا واضح پروگرام رکھتی ہو۔ تحریک انصاف کسی واضح نظریے اور داخلی قوت کے بغیر ایک قدرے نووارد سیاسی جماعت ہے۔ ''الیکٹبلز'' کو قبول کرنے سے اس کے اعتبار کو ٹھیس پہنچی ہے۔
مزید یہ کہ نااہل ہونے والے جہانگیر ترین کی عدم موجودگی میں، انتخابی سیاست کی صلاحیت نہ رکھنے والے لوگ عمران خان کے گرد جمع ہوتے جارہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیںجو 1997 کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں منڈلاتے رہے ہیں۔ یہ کرائے کے سپاہی اپنے مفادات کے سوا کسی سے مخلص نہیں۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف بھی کرپشن کے مرض سے پوری طرح محفوظ نہیں، اسے پھیلنے سے روکنے کے لیے پارٹی اصولوں پر سختی سے عمل کی ضرورت ہے اور پنجاب اسمبلی کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے جیسی مایوس کُن کوششوں کی روک تھام کرنا ہوگی۔ اگر حکمران جماعت ہی ان اصولوں پر کاربند نہیں رہے گی جن کا وہ پرچار کرتی رہی ہے تو کسی اور سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟
اس وقت سیاسی جماعت کا ایسا داخلی مستحکم ڈھانچا کھڑا کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیادیں جمہوری رویوں اور رائے سازی پر استوار کی جائیں اور جس میں اندرونی کھینچ تان نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ عمران کو واضح کردینا چاہیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں تاکہ بار بار اپنی باتوں پر نظر ثانی کی مشق تو ختم ہو۔ امید ہے کہ سیکھنے کا عمل کامیاب ہوگا۔ گزشتہ ماہ بھارتی جارحیت کے بعد عمران خان نے اپنی تقریر میں ہوش مندی اور سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا اور یہ تقریر ان حالات میں انتہائی کارگر ثابت ہوئی۔ عوام کو بھارت کی جانب سے کسی ممکنہ ''فالس فلیگ آپریشن'' سے پیشگی آگاہ کرنا انتہائی سمجھ داری سے کیا گیا اقدام ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور ایجینسیوں کے مابین کس قدر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
پاکستان کو سیاسی نظام برطانوی راج سے ورثے میں ملا جس میں پارلیمان کے دو ایوان اور اکثر قوانین اور قانونی ڈھانچا بھی شامل ہے۔ لیکن پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا ارتقا بالکل ہی الگ ڈھب پر ہوا۔ آزادی کے بعد مسلم لیگ کی گرفت کم زور پڑنے لگی کیوں کہ وہ قیام پاکستان کی صورت میں اپنا مرکزی سیاسی ہدف تو حاصل کرچکی تھی لیکن اس کے بعد قیادت کوئی نیا قومی پروگرام نہیں دے سکی جو ملک کے مختلف حصوں کو متحد رکھ پاتا۔
لبرل ازم اور رجعت پسندی جیسے نظریات پاکستان میں وجود رکھتے تھے اور اسلام ملک کے دونوں بازؤں کی وحدت کی بنیاد تھا لیکن اردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ اتحاد کے بجائے تفریق کا باعث بنا۔ پیپلز پارٹی کا ''اسلامی سوشل ازم'' کا نعرہ بھی محض نعرہ ہی تھا۔ موروثی سیاست سے پاک اور اپنے نظریات پر ثابت قدم واحد سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہے۔چاروں صوبوں میں موجودگی کے باوجود جماعت اسلامی قومی سطح کی پارٹی کا مقام حاصل نہیں کرسکی۔
بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے صرف ایک مضبوط اور یکسو پارٹی ملک کو کرپشن ، شدت پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قومی ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کے قابل بنا سکتی ہے اور گرتی ہوئی ملکی معیشت کو بھی اسی صورت سنبھالا مل سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی شکست و ریخت سے بے چینی پیدا ہوگی جس سے سیاسی عدم استحکام انتشار کی حد تک پہنچ سکتا ہے یا اس سے تحریک انصاف کی قوت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔اس کا سب سے زیادہ انحصار عمران خان پر ہے، انھیں ایسے غیر منتخب لوگوں سے جان چھڑانا ہوگی جن کے دل میں نہ تو پاکستان کے لیے کوئی جذبہ خیر ہے اور نہ ہی انھیں اپنی پارٹی سے کوئی سروکار ہے، وہ صرف اپنے مفادات کے بندے ہیں۔ تحریک انصاف اگر ان اٹھتی موجوں پر اپنا سفینہ آگے بڑھانے کے قابل ثابت نہیں ہوئی تو یقینی طور پر بیرونی مداخلت کا شدید خطرہ پیدا ہوجائے گا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)