سندھ حکومت جنگلات کی اراضی سے با اثر شخصیات کا قبضہ چھڑانے میں ناکام
1971 سے2015 تک جنگلات میں80 فیصد کمی، رقبہ سکڑکرصرف100,000ایکڑ رہ گیا جوصوبے کی کل اراضی کا0.3 فیصد بنتا ہے
’ریونیو‘ کیلیے ہزاروں درختوںکوکاٹ کرفروخت کر دیا جاتاہے، ایک لاکھ ایکڑاراضی خالی کرائی جاتی تو پورے صوبے میں شور مچ جاتا، ماہرین۔ فوٹو : فائل
سندھ حکومت جنگلات کی اربوں روپے مالیت کی اراضی سے قبضہ چھڑانے میں ناکام ہوگئی با اثر شخصیات سے قبضے چھڑانے میں حکومت بے بس ثابت ہورہی ہے جب کہ سپریم کورٹ کے احکام بھی ہوا میں اڑا دیے گئے۔
بدانتظامی، بدعنوانی، خراب انتظام ، جانب داری، سیاسی مصلحت اور ناقص کنٹرول کی وجہ سے محکمہ جنگلات سندھ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا،1971 سے2015 تک جنگلات میں80 فیصد کمی ہوگئی جنگلات کا رقبہ سکڑ کر صرف100,000 ایکڑ رہ گیا جو صوبے کی زمین کے کل رقبے کا0.3 فیصد بنتا ہے۔
نام نہاد یوٹیلائزیشن پالیسی کے تحت 'ریونیو' حاصل کرنے کے عذر کے تحت ہزارہا درختوں کو کاٹ کر تجارتی بنیادوں پر فروخت کردیا جاتاہے۔ درختوں کی اس بے دردی سے کٹائی سے ماحولیات پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں درجہ حرارت میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بارشیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔
دوسری جانب چیف کنزرویٹر اعجاز نظامانی نے دعویٰ کیاہے کہ مذکورہ خبر میں کوئی صداقت نہیں ہے سپریم کورٹ کے احکام کی روشنی میں جنگلات کی ایک لاکھ 10 ہزار ایکڑ اراضی قابضین سے چھڑالی گئی ہے جبکہ مزید35ہزار ایکڑ اراضی سے بھی قبضہ چھڑایا جارہاہے جبکہ اس وقت محکمہ جنگلات کے پاس5 لاکھ 10 ہزار ایکڑ اراضی خالی ہے جس کی حفاظت بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔
انھوں نے کہاکہ میڈیا تعصب پر مبنی خبریں شائع کرتا ہے آپ کو بھی شائع کرنی ہے تو کرلیں۔ سندھ کے6اضلاع میں کام کرنے والے اعلیٰ حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کا وعدہ لیتے ہوئے بتایاکہ جنگلات کی اراضی پر قبضہ چھڑانے کا دعویٰ من گھڑت اور بے بنیاد ہے درحقیقت ایک لاکھ ایکڑ اراضی خالی کرائی جاتی تو پورے صوبے میں شور مچ جاتا۔ کچے کی زمین سے متعلق تفصیلات جمع کرکے قبضہ چھڑانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔
محکمہ جنگلات سندھ کے چیف کنزرویٹر نے یہ تشویشناک انکشاف کیاہے کہ سندھ میں جنگلات کے 1,45,295ایکڑ رقبے پر قبضہ ہوچکا ہے جبکہ ریونیوڈپارٹمنٹ نے64,500 ایکڑ رقبے کی غیرقانونی الاٹمنٹ کردی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کی ارسال کردہ ایک رپورٹ کے مطابق2004-5میں لیز پالیسی متعارف کرائی گئی جنگلات کی 72,000 ایکڑ اراضی کو 'ایگرو۔فاریسٹری لیز' پر دینے کی منظوری دی گئی، اس انتظام کے تحت یہ وسیع زمین تقریباً 3,500 افراد/اداروں کو لیز پر دی گئی تھی لیکن اس میں بھی2مسائل تھے، اول یہ کہ متعدد کیسز میں زمین کی لیز سے جنگلات کو قطعی کوئی فائدہ نہیں ہوا، دوسرا لیکن زیادہ تشویش ناک مسئلہ یہ رونما ہوا کہ لیز پر یہ زمین حاصل کرنے والوں نے لیز میں درج شرائط کی خلاف ورزی شروع کردی۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ ڈویژنل فاریسٹ افسر کو یہ مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے طور پر لیز منسوخ کرسکتا ہے لیکن محکمہ جنگلات اس کام میں بھی ناکام ہوگیا۔ لیزکی منسوخی ضرور ہوئی لیکن ایسے بیشتر واقعات میں متعلقہ مجاز اتھارٹی کا مقصد جنگلات کا تحفظ نہیں بلکہ ممکنہ طور پر 'انفرادی'' مفاد کی تکمیل تھا۔
نام نہاد یوٹیلائزیشن پالیسی کے تحت 'ریونیو' حاصل کرنے کے عذر کے تحت ہزارہا درخت کاٹ کر تجارتی بنیادوں پر فروخت کیے جاتے رہے چونکہ اس پالیسی میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ موجودہ درختوں کو اکھاڑنے کے بعد نئے درخت لگائے جائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ زمین کے جس حصے سے درخت اکھاڑے گئے وہاں دوسرے درخت نہیں لگائے گئے۔ مقامی ریونیو حکام کی ملی بھگت کرکے قابضین نے رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لیے بھی ان زمینوں کا استعمال شروع کردیا۔
جنگلات کے چیف کنزرویٹر نے یہ تشویشناک انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں 1,45,295 ایکڑ جنگلات کے رقبے پر غیر قانونی قبضہ ہوچکا ہے۔ اس قبضے کی ضلع وار فہرست کے مطابق سکھر ڈویژن میں 14,000.90 ایکڑ، خیرپور میں25,656.44 ایکڑ، میرپوماتھیلو میں2,522.10 ایکڑ، حیدرآباد16,749.90 ایکڑ، میرپورخاص میں191.30ایکڑ، ٹھٹھہ4,699.50 ایکڑ، ٹنڈو محمد خان2,870.90 ایکڑ، کراچی ڈویژن 450.00 ایکڑ، دادو ڈویژن میں26,588.00 ایکڑ، لاڑکانہ میں17,494.80ایکڑ، شکار پور2,949.00 ایکڑ، کندھ کوٹ میں7,365.00 ایکڑ، نواب شاہ 2,1061.00 ایکڑ پر قبضہ ہے،silviculture ریسرچ ڈویژن حیدرآباد20.000 ایکڑ،sericulture ڈویژن حیدرآباد73.000 ایکڑ،social forestry ڈویژن سکھر248.30 ایکڑ،social forestry بدین ڈویژن1,220.00 ایکڑSFDP حیدرآباد ڈویژن 32.000 ایکڑ اراضی شامل ہے۔
وہ زمین جو دراصل محکمہ جنگلات کی ملکیت ہے محکمہ ریونیو نے اس کی بھی غیر قانونی الاٹمنٹ شروع کردی، یہاں تک کہ ریونیو ڈپارٹمنٹ نے جنگلات کی یہ زمینیں دیگر اداروں کے استعمال کے لیے دینے کا عمل بھی شروع کردیا۔
چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ کے مطابق جنگلات کے 64,500 ایکڑ رقبے کی غیرقانونی الاٹمنٹ کردی گئی، جس میں حیدرآباد میں1,158.10 ایکڑ، کراچی میں42,331.21 ایکڑ، سکھر میں900.40 ایکڑ، ٹھٹھہ میں1,343.00 ایکڑ، دادو میں5263.00 ایکڑ، لاڑکانہ4992.51 ایکڑ، کندھ کوٹ میں290.00 ایکڑ، کھپرو میں6637.00 ایکڑ، خیرپور میں1361.00 ایکڑ، میرپور ماتھیلو میں61.000 ایکڑ جبکہ ٹنڈو محمد خان میں164.40 ایکڑ اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی گئی۔
اطلاعات کے مطابق ایک ایسے علاقے میں جہاں مینگروو (Mangrove) کے درخت لگے ہوئے ہیں ان درختوں کی نگرانی اور حفاظت کے نظام پر کامیابی سے عملدرآمد ہو رہا ہے۔ موثر مانیٹرنگ، نگرانی اور کارکردگی کی جانچ پڑتال یقینی بنانے کے لیے سندھ حکومت کو جو سفارشات پیش کی گئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ:
1۔ لیز پالیسی پر نظرثانی کرکے اس بات کو لازمی قرار دینا کہ کم ازکم50 فیصد درخت ضرور لگائے جائیں گے، یہ درخت Rotation Age پر لگائے جائیں گے۔ لیز کی مزید شرائط کا تعین علیحدہ سے ہوگا اور ان کا انحصار مخصوص ماحولیاتی عوامل کے حامل علاقوں (Ecological Areas) پر ہوگا۔ (واضح رہے کہ یہ ایگرو فاریسٹری لیز جس کی مدت مختصر یعنی پانچ سال ہوگی۔)
2۔ لیز شیڈول پر اس طرح نظرثانی کی جائے یہ بات یقینی بنائی جائے کہ اس میں ایسی تمام زمین شامل ہوجائے جس پر جنگل (درخت) لگایا جاسکے اور جو ایگرو فاریسٹری لیز شیڈول کے تحت ''غیر قانونی قبضے'' میں ہے۔
چیف کنزرویٹر یہ عمل 4 ہفتوں میں مکمل کرکے ان زمینوں کی نشاندہی کریں جو اس معیار پر پوری اترتی ہوں، یہ تجویز کابینہ کے غور کے لیے پیش کی جائے۔
3۔ شفافیت اور مالی نظم و ضبط یقینی بنانے کے لیے لیز کی منظوری 3 رکنی کمیٹی دے، لیز کی سفارش چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ کرے اور اس کی منظوری ایڈمنسٹریٹو سیکریٹری دیںگے، یہ کمیٹی ہر ضلع کے لیے تشکیل دی جائے۔
4۔ جی آئی ایس میپنگ مکمل کرنے کے لیے چیف کنزرویٹر کی براہ راست نگرانی میں ایک علیحدہ ڈائریکٹوریٹ قائم ہونا چاہیے جو ریکارڈ کو بھی محفوظ بنائے۔
5۔ عام حالات میں کسی بھی درخت کو کاٹنے کی اجازت نہیں ہوگی، تاہم اگر ترقیاتی مقاصد اور کسی منصوبے کے لیے یہ اقدام ضروری ہوجائے تو ایسی صورت میں عمل درآمد کرنے والے محکمے کی یہ ذمے داری ہوگی کہ ہر کاٹے گئے ایک درخت کے بدلے وہ 100 نئے درخت لگائے گا۔ان نئے درختوں کے لیے جگہ کی نشاندہی متعلقہ ڈی ایف او کرے گا۔
6۔ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر عملدرآمد شروع ہونے سے قبل اوپر درج کیے گئے نکات کو سمجھ کر ان پر عملدرآمد ضرور کرے۔
7۔ حکومت ''ایک درخت لگاؤ، ایک درخت کے مالک بن جاؤ''کے عنوان سے کم لاگت کی ایک اسکیم شروع کرے۔ اس کے ساتھ ہی شہریوں میں آگاہی پیدا کرکے انھیں درخت لگانے پر آمادہ کرنے کے لیے پودے اور معاوضہ فراہم کرے۔
8۔ غیر قانونی الاٹمنٹس کے تمام کیسز کا جائزہ لینے کے لیے بہتر ہوگا کہ بورڈ آف ریونیو کو اسپیشل ٹاسک ٹیم کی تشکیل کی ہدایت کی جائے۔
9۔ حکومت کی جانب سے پولیس اور رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو یہ ہدایت دی جانی چاہیے کہ محکمہ جنگلات کو جب بھی ضرورت ہو اس کی مدد کریں۔
10۔ محکمہ جنگلات کے ریسرچ ونگ کو مزید مستحکم اور سرگرم بنایا جائے۔