ورلڈ کپ کی مہم جوئی کیلئے تیاریاں

غیر مستقل مزاج پاکستان ٹیم سے وابستہ توقعات پوری ہوں گی؟


Mian Asghar Saleemi April 14, 2019
غیر مستقل مزاج پاکستان ٹیم سے وابستہ توقعات پوری ہوں گی؟ فوٹو: فائل

وسیم اکرم کو دنیائے کرکٹ میں اتھارٹی سمجھا جاتا ہے اور ان کی رائے کو ہمیشہ بڑی اہمیت اور تقویت ملتی ہے۔

چند روز قبل لاہور پولو کلب میں شوگر کے مریض بچوں کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے کے بعد میڈیا سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ کے چاروں ایڈیشنز میں کوئی بھی معیاری کرکٹر نظر نہیں آیا، اگر آئے بھی تو بولر ہی نظر آئے لیکن بیٹسمین ایک بھی نظر نہیں آیا، ابھی ڈومیسٹک ٹورنامنٹ ہی دیکھ لیں جس میں بیٹسمینوں کی صرف ایک ہی شاٹ نظر آئے گی۔ وسیم اکرم کی اس بات کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ان کی اس بات میں بھی بڑا وزن ہے۔

یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ پی ایس ایل اب تک پاکستان کو کوئی بہت بڑے نام نہیں دے سکا لیکن بڑے افسوس اور دکھ کا مقام یہ ہے کہ پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی انٹرنیشنل مقابلوں کیلئے زیادہ تر کھلاڑیوں کا انتخاب اسی لیگ میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کو دیکھ کر ہی کرتی آئی ہے۔

اب یہ کیسے اور کس طرح ممکن ہے کہ ٹوئنٹی 20 طرز کی کرکٹ کھیلنے والے پلیئرز ایک روزہ اور ٹیسٹ میچوں میں بھی غیرمعمولی کارکردگی دکھا سکیں، حقیقت یہی ہے کہ تینوں طرز کی کرکٹ کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے، سلیکٹرز کی پی ایس ایل کی بنیاد پر کھلاڑیوں کے انتخاب کی پالیسی کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کو نہ صرف جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ حال ہی میں یو اے ای میں شیڈول ایک روزہ سیریز میں پہلی بار کینگروز کے ہاتھوں 5-0سے شرمناک ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

ورلڈ کپ کی آمد آمد ہے، انگلینڈ میں شیڈول کرکٹ کا عالمی میلہ سجنے میں ڈیرھ ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے، دنیا بھر کی بڑی ٹیمیں ورلڈ کپ کی تیاریوں کو حتمی شکل دے چکی ہیں جبکہ ہمارے ہاں نت نئے نئے تجربات کرنے کا سلسلہ اب بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہے، پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی کی طرف سے ابتدائی طور پر 23 کھلاڑیو ں کا اعلان کیا گیا ہے۔

ابتدا میں راولپنڈی میں جمعہ کو اختتام پذیر ہونے والے قومی ون ڈے کپ میں شریک کھلاڑیوں کو بتایا گیا کہ ایونٹ کے دوران اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو بھی ورلڈکپ سکواڈ کا حصہ بنایا جائے گا، طویل قامت پیسر محمد عرفان بھی پی سی بی کے اس اعلان پر بہت خوش تھے اور انہوں نے اس کا برملا اظہارراقم سے ایل سی سی اے لاہور گراؤنڈ میں خصوصی گفتگو کے دوران بھی کیا تھا، محمد عرفان پر امید تھے کہ ڈومیسٹک ایونٹ میں غیر معمولی کارکردگی دکھا کر وہ ورلڈکپ سکواڈ کا حصہ بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تاہم اب بتایا جا رہا ہے کہ پہلے سے اعلان کر دہ23 ناموں سے ہی ٹیم کا اعلان ہوگا، یہ خبر یقینی طور پر ون ڈے کپ کا حصہ بننے والے کھلاڑیوں کیلئے بجلی بن کر گری ہے ۔

اب تک کے ورلڈکپ میں پاکستان کو صرف ایک بار ورلڈکپ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ یہ کارنامہ گرین شرٹس نے 1992ء کے ورلڈکپ میں موجودہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں انجام دیا تھا۔ آسٹریلیا میں جب یہ عالمی کپ کھیلا جا رہا تھا اس وقت رمضان المبارک تھا۔ ابتداء میں انتہائی بری کارکردگی دکھانے کے باوجود پاکستانی ٹیم پہلی بار ورلڈکپ جیتنے میں کامیاب رہی۔ اس وقت عوامی سطح پر یہ تاثر ابھر کر سامنے آیا کہ رمضان کی برکتوں کی وجہ سے پاکستانی ٹیم ورلڈکپ جیتنے میں کامیاب رہی۔اس وقت بھی انگلینڈ میں شیڈول ورلڈ کپ میں پاکستانی عوام کی طرف سے 2تھیوریز پیش کی جا رہی ہیں۔

پہلی تھیوری یہ ہے کہ ایک بار پھر ورلڈکپ رمضان کے مہینے میں کھیلا جائے گا، اس مہینے کی برکتوں کی وجہ سے پاکستانی ٹیم ایک بار پھر 1992ء کی تاریخ دہرانے میں کامیاب رہے گی۔ دوسری تھیوری کے مطابق پاکستانی ٹیم نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی انگلینڈ میں ہی جیتی تھی اس لئے پاکستان ٹیم کے ورلڈکپ جیتنے کے چانسز بھی بہت زیادہ ہیں۔ قومی کرکٹ ٹیم کیلئے عوام کی دعائیں اور نیک خواہشات ایک طرف تاہم پی سی بی کو بھی ایسے اقدامات کرنے چاہیے جس کی وجہ سے گرین شرٹس ورلڈکپ جیتنے میں کامیاب ہو سکیں۔

عالمی کپ کیلئے ابتدائی ناموں میں وہاب ریاض سمیت متعدد سینئر کھلاڑیوں کو نظر انداز کر کے زیادہ تر نئے پلیئرز پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ ابھرتے ہوئے باصلاحیت کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں جگہ دینا خوش آئند ہے تاہم ایک ساتھ ہی بہت زیادہ پلیئرز کو ٹیم میں شامل کر لینا بھی عقل مندی نہیں ہے۔ شائقین اس کا عملی مظاہرہ دیکھ بھی چکے ہیں جب نئے کپتان اور نئے کھلاڑیوں پر مشتمل قومی ٹیم کو جنوبی افریقہ کے بعد آسٹریلیا کے خلاف میدان میں اتارا گیا تو گرین شرٹس کو عبرت ناک شکستوں کا سامنا کرنا پڑ گیا۔

قومی ٹیم کی اس ذلت آمیز کارکردگی کے باوجود کوچ مکی آرتھر اب بھی بضد ہیں کہ کپتان سرفراز احمد سمیت چھ کرکٹرز کو آرام دینے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ وہ آسٹریلیا سے شکست کھانے والی ٹیم کی جانب سے بننے والی پانچ سینچریوں کے علاوہ نئے فاسٹ بولر محمدحسنین کو ایک بڑی دریافت قرار دیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تجرباتی سیریز کے نتائج سے کپتان سرفراز احمد پر غیرمعمولی دباؤ نہیں بڑھے گا کہ انہیں انگلینڈ کے خلاف سب کچھ صفر سے شروع کر کے ایک بکھری ہوئی ٹیم کو دوبارہ سے اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا اور ایسا نہ ہو کہ اس کوشش میں انگلینڈ کے خلاف سیریز بھی آسٹریلیا کے خلاف سیریز کا ایکشن ری پلے ثابت ہو۔

اس کی ایک بڑی مثال ہم جنوبی افریقہ کے دورے میں کھیلی گئی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں دیکھ چکے ہیں جس میں سرفراز احمد موجود نہیں تھے اور ایک نئے کپتان کے ساتھ میدان میں اترنے والی پاکستانی ٹیم مسلسل 11 ٹی ٹوئنٹی سیریز جیتنے کے بعد پہلی بار شکست سے دوچار ہوئی تھی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف کپتان سرفراز احمد سمیت حسن علی، شاہین شاہ آفریدی، شاداب خان، بابراعظم اور فخرزمان کو آرام دیا گیا تھا، کیا وہ عالمی کپ کے لیے خودبخود منتخب سمجھے جائیں گے، بظاہر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے لیکن شاداب خان اور شاہین شاہ آفریدی کے بارے میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ پی ایس ایل میں مکمل طور پر فٹ نظر نہیں آئے تھے۔ اب وہ کتنے فٹ ہیں اس کا اندازہ فٹنس ٹیسٹ ہی نہیں بلکہ انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں بھی ہو جائے گا۔

جہاں تک آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا تعلق ہے تو شعیب ملک، جنید خان، محمد عامر، محمد عباس، یاسر شاہ اور فہیم اشرف ایسے کھلاڑی ہیں جن کے قومی ٹیم کے انتخاب پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ ورلڈکپ کی ٹیم میں دو کھلاڑیوں کے سلیکشن پر سب سے زیادہ نظریں ہیں یہ کھلاڑی محمد عامر اور شعیب ملک ہیں۔ شعیب ملک کو آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں کپتانی سونپی گئی تھی لیکن تین میچوں کے بعد وہ ان فٹ ہو گئے جن تین میچوں میں وہ کھیلے اس میں ان کی قائدانہ صلاحیت اور بیٹنگ کی کارکردگی دونوں پر سوالیہ نشان ہی لگا رہا۔

محمد عامر نے چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں اپنے طوفانی سپیل سے انڈین بیٹنگ لائن کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی تھیں لیکن اس شاندار کارکردگی کے بعد سے وہ اب تک 14 ون ڈے میچوں میں صرف پانچ وکٹیں ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انضمام الحق کی سربراہی میں قائم سلیکشن کمیٹی ورلڈکپ کے لئے حتمی سکواڈز میں کن کن کھلاڑیوں کو شامل کرتی ہے۔

عالمی کرکٹ کپ کے مقابلے شروع ہونے میں اب ڈیرھ ماہ سے بھی کم کا عرصہ رہ گیا ہے، ہر ٹیم ورلڈکپ جیتنے کے لیے بھر پور کوششوں میں مصروف ہے جس ٹائٹل کی تلاش میں وہ اپنا سفر 30 مئی سے شروع کریں گی، اس وقت وہ ورلڈکپ ٹرافی پاکستان میں ہے۔ اسلام آباد اور لاہور کے بعدیہ ٹرافی لاہور میں بھی جلوے بکھیر چکی ہے، اگلے مرحلے میں یہ ٹرافی 15 اپریل کو کراچی میں کرکٹ شائقین کے درمیان ہوگی۔ یہ دوسرا موقع ہے جب ورلڈکپ ٹرافی کو پاکستان کے دورے پر لایا گیا ہے۔

اس سے قبل گزشتہ سال اکتوبر میں بھی ٹرافی کو پاکستان لایا گیا تھا۔ اس ٹرافی کو صرف 20 سال ہوئے ہیں جب پہلی بار اسے 1999ء میں کھیلے گئے ورلڈ کپ میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اسے اتفاق کہیں یا کچھ اور، وہ ورلڈکپ بھی انگلینڈ میں کھیلا گیا تھا اور اسے پہلی بار آسٹریلیا نے جیتا تھا ۔اب ایک بار پھر دیکھنا یہ ہے کہ ورلڈکپ کی یہ ٹرافی کون سا ملک جیتنے میں کامیاب رہتا ہے، اس کا شائقین کو شدت سے انتظار رہے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں