عجیب محسوسات
ازل سے خیر و شر کے درمیان جنگ جاری ہے۔
سب سے پہلے تو ہم روزنامہ ایکسپریس کراچی کے دفتر پر جمعے کو شرپسند عناصر کی فائرنگ کی شدید مذمت کرتے ہیں، کراچی سمیت ملک بھر میں ان شرپسندوں کی کارروائیاں شدید تر ہوتی جارہی ہیں، ازل سے خیر و شر کے درمیان جنگ جاری ہے، بدی کے یہ ہرکارے ہرچند تعداد میں قلیل ہیں لیکن ان کی شرانگیزی کے سامنے کروڑوں معصوم لوگ یرغمال بنے ہوئے ہیں۔عزم صمیم اور استقامت سے ان برے لوگوں کو شکست دی جاسکتی ہے کیونکہ جیت بالآخر ''حق'' کی ہی ہوتی ہے۔ اب آتے ہیں ہم اپنے موضوع کی طرف... آج ہم نفس انسانی کے مظاہر اور انسانی تخیل کی لامحدود پرواز اور محسوسات سے متعلق گفتگو کریں گے۔
نفس انسانی عجیب و غریب محسوسات کا خزانہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ان مناظر و محسوسات کی عجوبہ کاری کی جھلک نظر آتی ہے۔ تمام فنون لطیفہ نفس انسانی کی اس تخلیقی سرگرمی کا مظہر ہیں۔ شاعری، موسیقی، مصوری، مجسمہ سازی، رقص، حسن کاری، سائنس، فلسفہ، غرض نغمہ و تہذیب کا ہر شعبہ نفس انسانی کے عمل کی عجائب گاہ ہے۔ ہمارے کالموں میں دی گئی مشقیں ان ہی مضمر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتی ہیں۔ انسانی سوچ لامحدود وسعت کی حامل ہے اور یہ بحث ہم پہلے بھی کرچکے ہیں کہ سوچ نگر کے محسوسات کس طرح انسانی زندگی پر حقیقی اثرات مرتب کرنے کے موجب بنتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ناپختہ ذہن ان سوچوں کے اسیر ہو کر حقیقی زندگی سے دور ایک تخیلاتی دنیا میں جیتے رہتے ہیں۔ کالموں کا یہ سلسلہ شروع کرنے کے بعد پاکستان سمیت جہاں جہاں ایکسپریس پڑھا جاتا ہے ہمیں ای میلز وصول ہوئیں، اور کئی لوگوں نے اپنی پریشانیوں اور بیماریوں سے آگاہ کیا جن کا تمام تر تعلق صرف اور صرف نفسیات سے تھا۔
نفس کے چکر اور اپنے ہی تخیلات کے حصار میں پھنس کر ان لوگوں کی نہ صرف اپنی زندگی کرب کا شکار ہے بلکہ ان سے متعلقہ رشتے بھی ان چاہے عذاب کا سامنا کررہے ہیں، ہاں اپنے پیاروں اور چاہنے والوں کو پریشانیوں میں گھرا دیکھنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ اس دور میں لوگ طرح طرح کی ذہنی الجھنوں (نفسیاتی امراض کہہ لیجیے) میں مبتلا ہیں، اور سب سے زیادہ متاثر آج کا نوجوان طبقہ ہے، وجوہات کئی ہیں لیکن نوجوان نسل کے ان عارضوں میں مبتلا ہونے سے نہ صرف وہ خود بلکہ معاشرہ بھی بگاڑ کی جانب گامزن ہے۔ خاص کر نوجوانوں کی اخلاقی بے راہ روی اور کج روی نے معاشرے کو انتہائی خوفناک موڑ دے دیا ہے۔
کئی نوجوانوں نے اپنے اشک بھرے خطوط میں اپنی مجبوریاں کا رونا روتے ہوئے نفس کے ہاتھوں خود کے تباہ ہونے کی داستانیں بیان کی ہیں، یہ نوجوان سمجھتے ہیں کہ ان کا علاج ممکن نہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کا علاج 'نفس' کی اصلاح سے ہی ممکن ہے۔ چونکہ ہمارے کالم ہر طبقہ فکر اور مذہب کے لوگ پڑھ رہے ہیں اس لیے ہم اپنے کالموں میں مذہب سے متعلق گفتگو نہیں چھیڑیں گے حالانکہ مذہب کی پیروی آپ کو غلط اقدام سے باز رکھتی ہے اور راست راہ پر چلاتی ہے۔ خیر چونکہ موضوع گفتگو نفسیات وما بعد نفسیات ہے اس لیے ہم اپنی تحریر کو اسی پیرائے تک محدود رکھتے ہیں۔ بعض موضوعات سے پہلو تہی بسا اوقات کالم نگار کی مجبوری ہوتی ہے، سمجھ دار کے لیے اشارہ کافی ہے۔
بہرحال بات ہورہی تھی نفس کے مظاہر کی۔ یہ بات ہم بار بار دہراتے ہیں کہ سانس کی مشقیں بد عادات پر قابو پانے اور کردار سازی میں مہمیز کا کردار ادا کرتی ہیں، ان مشقوں کے مثبت اثرات کا ہم تفصیل سے تذکرہ کرچکے ہیں، انسانی ذہن و جسم پر سانس کی مشقوں کے جو حیران کن اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا صحیح اندازہ ان مراحل سے گزرے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ ان مشقوں سے ایک خوشگوار کیفیت کا سامنا ہوتا ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہمارا ذہن مثبت ہی نہیں منفی بھی ہے، جس طرح آبادی اور شادابی احساس کا ایک حصہ ہے اسی طرح ویرانی کا ادراک بھی قطعی طبعی حقیقت ہے۔ مثبت اور منفی کا وجود ایک دوسرے کا رہین منت ہے، منفی نہ ہو تو مثبت فنا ہوجاتا ہے (کیونکہ مثبت ہے اس لیے منفی کا وجود ہے) اور مثبت نہ رہے تو منفی غالب ہوجاتا ہے۔ سیاہ اس وقت تک سیاہ ہے جب تک سفید موجود ہے۔ ہمیں کبھی اور کسی حال میں یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ ان مشقوں سے جو ''موڈ'' بنا ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گا یہ ممکن ہی نہیں، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔
کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کی مشقوں سے اگر استغراق (ڈوب جانے) کی کیفیت طاری نہ ہو، تو ان مشقوں کو ادھورا سمجھنا چاہیے۔ استغراق کی کیفیت کتنی عجیب ہوتی ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو اس کیفیت سے دوچار ہوا ہو۔ غنودگی یا بے خودی کے عالم میں جو اشارے نظر آتے ہیں وہ ہر چند بہت مبہم ہوتے ہیں تاہم ان کی اہمیت میں شبہ نہیں۔ انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے لیکن نطق و کلام کا یہ درجہ ایک دم حاصل نہیں ہوگیا، وہ تدریجی طور پر نطق آشنا ہوا ہے۔ بچہ بولنے سے پہلے اشارے کرنا سیکھتا ہے، پھر آہستہ آہستہ مفرد الفاظ استعمال کرنے لگتا ہے اور پھر مسلسل گفتگو کا عادی ہوتا ہے۔ نطق کا عمل شعوری عمل ہے اور اشارات کا تعلق لاشعور سے ہے۔ آدمی خواب یا نشے کے عالم میں بے ربط گفتگو کرتا ہے یا صرف اشارے کرتا ہے۔ نوع انسانی کی اکثریت بھی اپنے عالم طفلی میں معنی کے ابلاغ و ترسیل (یعنی بات کہنے اور پیام پہنچانے کے لیے) اشاراتی زبان استعمال کرتی تھی۔
قدیم ترین رسم الخط مثلاً مصری، منگولی، تصویری رسم الخط تھے، مثلاً اونٹ یا گھوڑا سفر کا اشارہ تھا، تیر کمان شکار کا۔ آج تک انسانی شعور کا ابتدائی حصہ یعنی نفس کی نچلی پرت نطق و کلام سے اتنی آشنا نہیں جتنی اشارات و علامت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواب کی حالت میں نفس اپنا مفہوم اشارات کی شکل میں ظاہر کیا کرتا ہے مثلاً آنے والے دنوں میں اگر کوئی خوشی کا لمحہ، کسی بچے کی پیدائش یا مہمان کی آمد پیش آنے والی ہو تو نفس خوشی کے استعارے دکھائے گا جیسے شادمانی، خاندان کے لوگوں کا خوشگوار اجتماع، بچوں کی قلقاریاں اور بھرا پرا آنگن، مٹھائیاں وغیرہ، اور اسی طرح غم یا حادثہ پیش آنے سے قبل اسی سے متعلق استعارات نظر آئیں گے۔ اہم ترین واقعات خواہ ان کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، کے ظہور سے قبل انتہائی حساس ذہن کسی نہ کسی طرح ان کا ادراک کرلیتے ہیں، یہی حالت استغراق کی حالت میں آنے والے مشاہدات کی ہے۔
(گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں)
www.facebook.com/shayan.tamseel))