بچپن کے باغی مزاج کا یہ عالَم تھا کہ اپنے دادا کی ’شاعری‘ رد کر دیتا تھا

اسکول میں داخلہ لینے گیا، تو بچوں کا رسالہ پڑھ رہا تھا، تیسری جماعت میں ہی ’تُک بندی‘ کرنے لگا۔


Rizwan Tahir Mubeen April 16, 2019
اسکول میں دو مرتبہ رسالہ نکالنے کی کوشش کی، ممتاز محقق ومترجم اور ادب کے شناور سہیل احمد صدیقی سے ملاقات۔ فوٹو: فائل

KARACHI: پانچویں جماعت کا ایک طالب علم عمر اور قد کاٹھ میں بڑا ہونے کے ناتے مانیٹر بنایا گیا۔۔۔

اُس کے اِس مرتبے کے ناتے اساتذہ نے اُسے ایک پروگرام کے لیے ایک تقریر لکھ کر دی، لیکن پروگرام والے دن وہ تقریر لانا بھول گیا۔ اساتذہ نے ہنگامی طور پر تقریر کے کچھ نکات لکھ کر یہ ذمہ داری ایک دوسرے طالب علم کو سونپ دی اور پھر اس طالب علم نے مختصر تیاری کے ساتھ وہ تقریر کر دی، اس تقریر کو بہت زیادہ سراہا گیا۔

یہ اتفاقیہ امر اُس دوسرے طالب علم کی 'ہم نصابی سرگرمیوں' کی طرف آمد کا ایک راستہ سا کھول گیا، یا پھر اِسے بارش کا پہلا قطرہ کہہ لیں۔۔۔ آج اس طالب علم کو ہم ممتاز محقق، شاعر اور ادیب سہیل احمد صدیقی کے طور پر جانتے ہیں، جو شعبہ تشہیر کے شہ سوار ہونے کے ساتھ ساتھ بطور صحافی بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔

انہوں نے 15 دسمبر 1964ء کو کراچی میں آنکھ کھولی، اُن کا تعلق ہاپوڑ کے صدیقی خاندان سے ہے۔ پروفیسر جمیل واسطی، کشور ناہید سے بھی دور پرے کی رشتے داری ہے، سید امتیاز علی تاج کو بھی وہ ننھیالی بزرگوں میں شمار کرتے ہیں۔

بچپن کے کچھ دن 'مارٹن کوارٹرز' اس کے بعد بہت سے برس عزیز آباد میں گزرے، پھر شہر کے مختلف علاقوں میں رہائش رہی۔ 10 بہن بھائیوں میں سہیل صدیقی کا شمار تیسرا ہے۔ بدقسمتی سے بڑے بھائی 14 سال کی عمر میں بلڈ کینسر کی نذر ہو گئے۔ سہیل صدیقی کے والد رفیع صدیقی ڈپٹی ڈائریکٹر سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی کے عہدے سے ریٹائر ہیں۔ کہتے ہیں کہ والد نور محمد ہائی اسکول، حیدرآباد کے وظیفہ یافتہ طالب علم تھے، انہیں میٹرک کرتے ہی ہیڈ ماسٹر نے نوکری کی پیش کش کی، وہاں پڑھایا، پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

ابتدائی تعلیم کے حوالے سے سہیل احمد صدیقی کہتے ہیں کہ انہوں نے مختلف سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی، ان اسکولوں میں روزانہ چُھٹی کے وقت ہر بچے کو دودھ دیا جاتا تھا۔ انہوں نے آزاد بن حیدر کے قائم کردہ گورنمنٹ مسلم بوائز اسکول 'دستگیر' سے میٹرک کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُن کی تربیت بہت سخت تھی، پتنگ بازی اور کنچے کھیلنے پر والدہ سے پٹائی لگتی تھی۔ وہ اساتذہ کے قریب ترین طلبہ میں تھے، اسکول میں ہی تقاریر اور نعت خوانی کرنے لگے، میٹرک تک کوئز چیمپین بھی ہو گئے۔ اُن کے الفاظ میں 'لکھنے پڑھنے کا شوق ایسا تھا کہ جب پہلی جماعت میں داخلہ لینے گیا، تو بچوں کا رسالہ 'ہونہار' پڑھ رہا تھا، پانچویں کے بعد مسلم اسکول، دستگیر میں تقریری مقابلوں میں بھی حصہ لیا۔ بین الاسکول مقابلوں میں فتح یاب ہوا، پھر میٹرک میں بیت بازی کا مقابلہ بھی اپنے نام کیا۔'

سہیل صدیقی کہتے ہیں کہ 'اُن کے والد کو ادب سے شغف ضرور ہے، لیکن انہوں نے خود کبھی نہیں لکھا۔ اُن کے دادا پوسٹ آفس میں رہے، انہوں نے 'پوربی اردو' اور پنجابی میں شاعری بھی کی۔' ہم نے پنجابی زبان پر حیرت کا اظہار کیا، تو وہ بولے کہ 'وہ چوں کہ پنجاب میں رہے، اس لیے انہیں پنجابی آگئی۔ سہیل صدیقی اپنے بچپن کے باغی مزاج کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'میں اپنے دادا کی شاعری رد کر دیتا تھا۔ تیکنیک کے اعتبار سے شاید وہ کچھ شاعری ہو، باقی تو تُک بندی ہے۔ ان کا کچھ 'پوربی' کلام سنبھال کر رکھا ہوا ہے، جسے شایع کروں گا۔'

اپنے شاعری کے ذوق کے حوالے سے سہیل احمد صدیقی نے بتایا کہ وہ جن استانی کے ہاں قرآن پڑھے، ان کے بھائی بیت بازی کے شوقین تھے، وہاں سے ہمارے کانوں میں شعر پڑے، اسے ہم شعر گوئی کی بنیاد کہہ سکتے ہیں۔ تیسری جماعت میں بڑی بہن کے ساتھ مل کر تُک بندی کرنے لگا۔ ساتویں کی بات ہے، جب ڈاکٹر فیاض عالم صدیقی ہم جماعت تھے، انہیں شاعری کا جنون تھا، وہ فزکس اور کیمسٹری کی کلاس میں بیٹھ کر شاعری لکھتے رہتے، لوگ شک کرتے کہ کہیں سے نقل تو نہیں کرتے۔ تب میں اُن کی غزل کی نوک پلک سنوارتا تھا۔ اب وہ 'ایم بی بی ایس' ڈاکٹر ہیں، شاعری تھوڑی بہت ہی کی، لیکن مجھے فخر ہے مجھ سے جونیر مجھ سے زیادہ مشہور ہیں۔ اب احساس ہوتا ہے کہ مجھے شاعری پر توجہ دینا چاہیے تھی۔ میں طالب علم اچھا تھا، لیکن ریاضی میں کم زور تھا، میٹرک میں آکر محسوس ہوا کہ میں نے جو غزلیں اور نظمیں لکھی ہیں، وہ تُک بندی ہیں، تو ضایع کر دیں۔

نثر کے حوالے سے سہیل صدیقی نے بتایا کہ 'اس کی بنیاد دادا کو خط لکھنے سے پڑی، دادا تاکیداً مجھ سے مکتوب لکھواتے، وہ ملازمت کے سلسلے میں سندھ کے مختلف علاقوں میں رہائش رہی، آخر میں حیدرآباد میں رہے۔ میں آج بھی اپنے پانچویں جماعت کے خطوط پڑھ کر حیران ہوتا ہوں کہ اُس عمر میں کتنی اچھی زبان لکھی۔ بچپن میں کچھ دن دادا اور والد کی ہدایت پر تختی بھی لکھی۔ آج بھی بہتر لکھائی کے لیے تختی یا سلیٹ کو ضروری سمجھتا ہوں۔'

سہیل صدیقی کہتے ہیں کہ 'بچپن میں موڈی تھا۔ اسکول میں دوڑ کے مقابلے میں اساتذہ کے کہنے کے باوجود نام نہ لکھوایا، لیکن پھر جا کر دوڑ میں شامل ہوگیا اور تیسرے نمبر پر آیا، لیکن اصولی خلاف ورزی کے سبب مجھے انعام نہیں دیا گیا۔ اسکول میں اکلوتا اسپن بالر تھا، ایک مرتبہ ہماری ٹیم کے 10 رنز پر چار اہم کھلاڑی آؤٹ ہوگئے، تو میں نے اپنے ایک ہم جماعت سے مل کر غیر متوقع طور پر میچ جتوایا۔'

1981ء میں میٹرک اور 1985ء میں انٹر کرنے والے سہیل صدیقی کہتے ہیں کہ انہوں نے فارسی اپنے شوق سے پڑھی۔ انٹر سائنس کے لیے شپ اونرز کالج میں میں داخلہ لیا، لیکن رجحان آرٹس کی طرف تھا، ناکام ہو کر پھر پرائیوٹ انٹر کیا، پھر اردو کالج سے بی اے اور پھر ایم اے (اردو) کیا، ماسٹرز کے دوران بینک میں ملازمت کر رہے تھے، اس لیے کلاسیں نہ لے سکے۔ 1985ء میں انٹر کے بعد مختلف اسکولوں میں تدریس پر مامور رہے، 1990ء تک یہ سلسلہ رہا۔ اسی دوران 1988ء میں گریجویشن اور 1990ء میں بی ایڈ اور پھر 1992ء میں ایم اے (اردو) کیا۔

معلومات عامہ کے شوق کے حوالے سے سہیل صدیقی گویا ہوتے ہیں کہ 'بچپن میں ہی اہم معلومات کے کئی رجسٹر بھر گئے تھے، اسکول کے زمانے میں آٹھویں اور میٹرک میں دو مرتبہ رسالہ نکالنے کی کوشش کی۔ ایک رجسٹر پر ساڑھے چارسو کے قریب ناموں کے معنی لکھے، کالج آنے تک یہ نام 800 ہو گئے۔ لوگوں نے اِسے شایع کرنے کا مشورہ دیا، کیوں کہ تب ناموں کے معنی کی کوئی کتاب دست یاب نہ تھی۔ پھر ریڈیو پر معلومات عامہ کے پروگراموں میں حصہ لیتا رہا، 1978ء میں آٹھویں جماعت کے طالب علم کے طور پر اسکولوں کا کل کراچی مقابلہ جیتا۔ 1981ء میں کالج بھر کے مقابلہ معلومات میں سوم آئے، اساتذہ نے اسلامی معلومات کا چیمپئن قرار دیا۔ اسلامی معلومات کا پروگرام مشعل کوئز کے نام سے ایک نجی چینل کے لیے کیا، تحریر وتقریر سے لے کر میزبانی تک ساری ذمہ داریاں خود ادا کیں۔

سہیل احمد صدیقی نے 1987ء میں معلومات عامہ کے مشہور پروگرام 'نیلام گھر' میں گاڑی بھی جیتی، وہ کہتے ہیں کہ یہ ایشیا بھر میں اس وقت اور بعد میں کافی عرصے تک سب سے بڑا کوئز پروگرام تھا۔ انہوں نے انعامی گاڑی فروخت کر کے گھر کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی، وہ کہتے ہیں کہ 'ہم کوئز مقابلوں میں حصہ لینے والے تمام ساتھی ایک دوسرے کو موقع دیتے اور ایک دوسرے کا مقابلہ نہیں کرتے، تاکہ سب کو گاڑی جیتنے کا موقع ملے، اس میں ہماری باری 13ویں مرتبہ آئی۔'

سہیل صدیقی کے بقول ایک بینک میں 'اسپورٹس اینڈ پی آر ڈویژن' میں ملازمت کے دوران بینک کے کھلاڑیوں اور کھیل کی سرگرمیوں کی تشہیر کی ذمہ داریاں نبھائیں، اس دوران کرکٹر راشد لطیف اور باسط علی سمیت مختلف کھلاڑیوں کو اخبارات میں متعارف کرایا، بینک کے اشتہارات بھی دیکھے۔ 'یو بی ایل' اسپورٹس کی تاریخ (1974ء تا 1991ء) لکھی، جو بوجوہ شایع نہ ہو سکی۔ 1992ء میں وہ 'فارن ایکسچینج' میں آگئے، نو سال یہاں رہے۔ 1985ء میں مختلف تحقیقی مضامین 'جنگ' وغیرہ میں شایع ہونے لگے تھے، اب اس سلسلے میں باقاعدگی آگئی۔ جنوری 1993ء میں 'پی ٹی وی' میں بطور محقق خدمات دیں۔ 2001ء میں پھر تدریس اور پھر 2004ء میں ایک تشہیری ایجنسی سے منسلک ہوگئے۔ 2013ء میں ایک مذہبی چینل سے وابستہ ہوئے، لیکن یہاں معاملات زیادہ دیر نہ چل سکے، استعفا دے دیا اور 2014ء میں ایک خبری ایجنسی کے چیف ایڈیٹر ہو گئے، 2018ء سے ایک بار پھر تشہیری ادارے سے بطور 'کاپی رائٹر' جڑے ہوئے ہیں۔ 2015ء تا 2017ء 'ایکسپریس' کے لیے تحقیقی مضامین بہ عنوان 'زبان فہمی' لکھے، پھر 'سخن شناسی' کے عنوان سے 'سن ڈے ایکسپریس' میں لکھنے کا سلسلہ رہا۔

وہ کہتے ہیں کہ میرا تعلق زیادہ تر شعبہ تشہیر سے رہا۔ شادی 2010ء میں ہوئی، شریک حیات بھی تدریس سے وابستہ ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ شادی پسند کی ہے؟ تو وہ بولے 'ملی جلی۔۔۔ ارینج۔ میری اور گھر والوں کی پسند۔۔۔!' ہم نے پوچھا کہ یعنی پسند کو ارینج کر لیا؟ تو وہ بولے کہ نہیں، ہم نے سب کی پسند سے متفقہ طور پر شادی کی۔ گھریلو ذمہ داریوں کے سبب اس فریضے کی ادائی میں تاخیر ہوئی، کہتے ہیں 'میں نے اپنی ذات کو پس پشت ڈالا ہوا تھا۔'

پہلی کتاب 1983ء میں مکمل کر لی تھی!
اپنی پہلی کتاب کے حوالے سے سہیل احمد صدیقی کہتے ہیں کہ یہ دو ہزار سوال جواب (مع حوالہ) اسلامی معلومات کی کتاب ہے، جو 1983ء میں مکمل کر لی، لیکن شایع 1988ء میں ہوئی، پھر اس کے درجن بھر ایڈیشن آئے۔ بعد میں اس میں ترمیم واضافے کا ارادہ کیا، لیکن یہ نہ کر سکے۔ یہ کتاب اب ایک تیسرے ناشر کے ہاتھ میں ہے۔ 'حقوق دانش' کے قانون کے تحت لکھاری کے حقوق دائمی ہوتے ہیں، اس لیے مسودہ فروخت کرنے کے باوجود میں خود بھی اپنی کتاب شایع کر سکتا ہوں۔ 2000ء میں غضنفر علی خان کی کتاب کی تصحیح بہ عنوان 'اردو کے مشہور اشعار ایک جائزہ' منظر عام پر آئی۔ 2001ء میں جمال نقوی کی ہائیکو شاعری 'نغمے سورج دیس کے' کا ترجمہ بہ عنوان Songs form the land of Rising Sun کیا، کہتے ہیں کہ یہ اردو سے انگریزی میں ہونے والا واحد ہائیکو ترجمہ ہے۔

'ہائیکو' کی طرف آنے کی راہ پوچھی تو اسہیل صدیقی نے بتایا کہ زمانہ طالب علمی سے مختلف کتب خانوں کے رکن تھے، جاپانی قونصلیٹ کے کتب خانے کی رکنیت بھی حاصل تھی، وہاں مشاعروں میں ہائیکو سے متعارف ہوئے۔ کہتے ہیں کہ '1998ء میں 'ہائیکو انٹرنیشنل' نکالا، جو جنوبی ایشیا کا واحد کثیر السانی جریدہ ہے، جس میں 25 زبانوں میں شایع ہوا۔ ایک شمارے میں 15 زبانوں پر مواد عالمی ریکارڈ ہے۔ میں نے چار زبانوں فرنچ، انگریزی، فارسی، سندھی سے براہ راست انگریزی اور اردو میں اور اردو سے فرنچ اور انگریزی میں تراجم بھی کیے ہیں۔'

زمانہ طالب علمی میں ہی 'تحقیق' کو پیشہ بنالیا
سہیل احمد صدیقی کے بقول انہوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی پیشہ وارانہ طور پر 'تحقیق وتدوین' کو اپنالیا، 1982ء میں فرسٹ ائیر میں پہلی نوکری محمد ظفر اقبال کے پاس کی اور اُن کے ادارے 'شاہین پبلی کیشنز' کی کتابوں کی جانچ پڑتال کے لیے خدمات انجام دیں، ساتھ ٹیوشن پڑھانا بھی شروع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ظفر اقبال نے یک ساں سرورق کی 34 مختلف کتابیں شایع کیں، لیکن اِن اہم موضوعات کی غلط پیش کش انہیں لے ڈوبی اور وہ دیوالیہ ہو گئے۔ ان کے پاس دنیا بھر کی معلومات کی ہزاروں کتب تھیں، انہوں نے ڈاک ٹکٹ اور سکے بھی جمع کیے تھے، جو برے وقت میں فروخت کیے۔ فوٹوگرافی بھی کی۔ بہ یک وقت دو کیمرے لے کر پھرتے کہ کون سا کہاں کام آنا ہے۔

سہیل صدیقی نے بتایا کہ 'ان 34 کتابوں کی ترتیب وتدوین کے لیے پیشہ وارانہ طور پر بہت سے لوگوں سے کام لیا گیا، اس میں دل چسپ معلومات اور عجیب وغریب واقعات وغیرہ جیسے موضوعات پر 15، 20 کتب خود ظفر اقبال کی بھی تھیں۔ تب یہ کتابیں بہت زیادہ فروخت ہوتی تھیں۔ اُن کی گھریلو تراکیب کی کتاب بے تحاشا نقل کی گئی، ٹی وی پر بھی اس سے استفادہ کیا گیا، کیوں کہ تب یہ بہت منفرد چیز تھی۔ ظفر اقبال کے پاس اپنے کام کی نوعیت کے حوالے سے سہیل صدیقی نے بتایا کہ جیسے ایک عنوان '100 بڑے شاعر' ہے، تو پہلے اس کے چار سے چھے گنا زیادہ مواد کی کاٹ چھانٹ کرنا پڑتی تھی، پھر ہر ایک شاعر سے متعلق باقاعدہ 10، 15 سوال وجواب بنانے ہوتے۔'

اپنا ایک تجربہ بیان کرتے ہوئے سہیل صدیقی کہتے ہیں کہ وہاں ایک مرتبہ فیصل آباد کے فیصل مسعود بٹ کی ایک کتاب 'آئینہ رسالتﷺ' انہیں جانچ پڑتال کے لیے دی گئی، فیصل صاحب کا ذریعہ یافت چائے کی فروخت تھی، ساتھ ہی انہوں نے حیات طیبہ پر سوالاً جواباً یہ کتاب بھی ترتیب دی۔ وہ عمر میں سہیل صدیقی سے کافی بڑے تھے، جس کی تصحیح ونظرثانی فیصل مسعود کو کافی گراں گزری، انہیں سمجھایا گیا کہ ہر چیز کے باقاعدہ حوالے دیکھ کر درستی کی گئی ہے۔ 34 کتب کی تیاری کرتے ہوئے، ایک دفعہ کافی پرانی کتاب کی فوٹو کاپی دی گئی، جس پر سے ایک استاد نے بھی ہاتھ اٹھا لیا تھا کہ اس قدیم زبان سے کچھ اخذ نہیں کیا جا سکتا، جب کہ سہیل صدیقی نے 17 برس کی عمر میں اس مشکل متن سے 20 سوال و جواب بنالیے،ظفر اقبال اس پر بہت خوش ہوئے۔

کتاب کی موجودہ شکل باقی رہے گی۔۔۔؟
تشہیری ادارے سے وابستہ سہیل احمد صدیقی سے 'شعبۂ تشہیر' کی صورت حال کا ذکر ہوا، تو وہ بولے کہ ہر شعبے کی طرح یہاں بھی بنیادی مسئلہ تعلیم اور تربیت کا ہے۔ اشتہارات ذرایع اِبلاغ کا جزو لاینفک ہیں اور شعبہ تشہیر پاکستان میں فی الحال زوال پذیر ہے۔ ہم نے وجہ پوچھی، تو وہ بولے کہ مختصراً بیان کیا جائے، تو 'تعلیم وتربیت کا فقدان' اور بھیڑ چال ہے، نقل درعقل بلاعقل۔ وہ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ تشہیری صنعت مجموعی طور پر اچھے اور اہل لوگوں کے ہاتھ میں نہیں۔ مطبوعہ ذرایع اِبلاغ کے مستقبل کا ذکر نکلا، تو سہیل صدیقی نے کہا کہ کتاب اپنی موجودہ شکل میں باقی رہے گی۔۔۔ ابھی انٹرنیٹ ہر آدمی کی رسائی میں نہیں اور نیٹ پر بھی سب کچھ نہیں، مثال کے طور پر آپ انٹرنیٹ سے پاکستان کے تمام کرکٹرز کی فہرست نہیں بنا سکتے!

ہم نے کہا مواد موجود نہ ہونا تو ایک تیکنیکی وجہ ہے، یہ کمی دور ہو جائے پھر؟ تو وہ بولے کہ 'کیا ہمارے تعلیمی نظام سے کتاب ختم ہو گئی؟' ہم نے کہا 'پھر یہ بھی تو ایک مجبوری ہے، جب ایسا ہو جائے گا اس کے بعد۔۔۔؟' تو وہ بولے کہ تب بھی ہم اپنا سارا سرمایہ کمپیوٹر پر منتقل نہیں کر سکتے۔۔۔! جیسے ترکی زبان کا رسم الخط بدلا، تو ان کا پرانے رسم الخط کا ذخیرہ ردی ہو گیا۔ میں اس بات پر قائم ہوں کہ مطبوعہ لفظ قائم رہے گا، جب تک پوری دنیا کے پاس انٹرنیٹ اور کمپیوٹر نہ آجائے۔ ہم نے پوچھا ''سب کے پاس انٹرنیٹ آنے کے بعد۔۔۔؟'' تو انہوں نے اس کے لیے کہا اس کے بعد بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ نہیں ہوگا، اب آپ اسے عقیدت کہہ لیں یا کچھ اور۔' جدید تر برقی ذرایع کی موجودی میں مطبوعہ اشتہار کی اہمیت دریافت کی تو سہیل صدیقی نے اسے کاروباری مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'مشتہر تو اپنے اشتہار کی زیادہ سے زیادہ رسائی دیکھے گا۔ میرے خیال میں مطبوعہ اشتہار کی افادیت ابھی موجود ہے، ہم مغرب یا ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں، وہ مطبوعہ کو چھوڑ چکے، چھوڑ رہے ہیں، لیکن ابھی سارے ختم نہیں ہوئے۔'

'فرنچ اردو لغت' زیر تکمیل ہے!
سہیل احمد صدیقی کے دیے گئے کوائف کے مطابق انہوں نے بہت سے ادبی جرائد میں بھی ادارتی خدمات انجام دیں، 1990ء میں جریدے 'پاکستان ہاکی' کے De-fecto ایڈیٹر رہے، اسے وہ ملک میں ہاکی کے پہلا اور بین الاقوامی جریدہ قرار دیتے ہیں، 2018ء میں پاک چین بزم ادب کا ترجمان ہم رکابThe Fellow Rider/بھی جاری کیا۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کی خدمات کا سلسلہ 2012ء سے جاری ہے۔ سرکاری اور نجی ٹی وی سے بھی منسلک رہے، جس میں سوالاً جواباً، دستاویزی اور تاریخی نوعیت کے بہت سے پروگراموں کے روح و رواں رہے۔ 'پی ٹی وی' کے مشہور پروگراموں میں 1993ء تا 1996ء 'ٹی وی انسائیکلوپیڈیا'، 1995ء تا 1996ء 'بوجھیے' اور دیگر پروگرام شامل ہیں۔ 'نیشنل لائبریری آف پوئٹری' اور 'انٹرنیشنل لائبریری آف پوئٹری' (ریاست ہائے متحدہ امریکا) کے عالمی انتخاب میں تین بار انگریزی نظموں کی اشاعت رہی۔ وہ 'ہائیکو' کے عالمی مقابلوں اور میلوں میں بھی شرکت کرتے رہے۔ ان دنوں 'فرنچ اردو لغت' پر کام کر رہے ہیں، اس کے علاوہ اردو اور انگریزی کا بہت سا کام ابھی غیر مطبوعہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں