’’ہم نے اسلام آباد کے بارے میں لوگوں کا تاثر بدلا‘‘

پرائیڈآف پرفارمنس حاصل کرنے والے پہلے انٹرپرینیور لقمان علی افضل کے حالات وخیالات


پرائیڈآف پرفارمنس حاصل کرنے والے پہلے انٹرپرینیور لقمان علی افضل کے حالات وخیالات۔ فوٹو: ایکسپریس

نائن الیون کے بعد سوات میں پیداہونے والے حالات اور وہاں ہونے والے فوجی آپریشن کے نتیجے میں اسلام آباد ملک کے دیگرحصوں کی نسبت زیادہ معرض خطر میں رہا۔

2008ء میں یہاں کے ایک بڑے فائیوسٹارہوٹل میں خودکش حملے کے بعد دہشت گردوں کا اگلا ہدف مارگلہ کی پہاڑیوں پر قائم انتہائی خوبصورت 'مونال ریسٹورنٹ' تھا۔ اس کے روح رواں لقمان علی افضل کی سرکردگی میں ریسٹورنٹ نے ابھی چلنا شروع ہواتھا کہ دہشت گردی کے سیاہ مہیب بادلوں نے اسے آگھیرا۔

غیرمعمولی سرمایہ کاری کرنے کے بعد انسان بڑی کامیابی کے خواب دیکھتاہے تاہم یہاں سب کچھ ڈوب رہاتھا۔ ایسے میں اس نوجوان نے اپنی کرشماتی شخصیت کے بل بوتے پر، کمال دلیری سے مشکل حالات کا مقابلہ کیا اور کامیابی حاصل کی۔ان کی حکمت عملی ایک فرد، معاشرے اور حکومت کیلئے روشنی فراہم کرتی ہے۔

دہشت گردی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں کامیابی کی شمع کیسے روشن کی؟

لقمان علی افضل اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں: ''2006ء،جب میں نے مونال ریسٹورنٹ سی ڈی اے سے لیا، اس کی طرف جانے والا راستہ شام چھ بجے ہی بند کردیاجاتاتھا، مقامی لوگوں کے علاوہ کسی کو اوپر جانے کی اجازت نہ تھی، جرائم کی شرح اس قدر زیادہ تھی کہ کوئی اندازہ نہیںکرسکتا۔ جب لیڈی ڈیانا کو دامن کوہ کی سیر کرائی گئی تو اس وقت یہ علاقہ بالکل سنسان تھا۔''

''یہ وہ وقت تھا، جب اسلام آباد میں رات دس بجے کے بعد کھانا نہیں ملتاتھا، ایف10بھی بند ہوجاتاتھا۔جب ہم نے ریسٹورنٹ شروع کیا، تب اس کی آمدن بہت کم تھی، اگلے چار پانچ مہینے میں آمدن بڑھنے لگی، پھرغیرملکیوں نے بھی آنا شروع کر دیا۔ 2006ء سے 2008ء تک ہم معمول کا سفر طے کرتے رہے۔ ستمبر2008ء میں میریٹ ہوٹل پر حملہ ہوا تو اسلام آباد ریڈزون بن گیا۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک تباہ نہیں ہوتا یا وہاں دہشت گرد کامیاب نہیں ہوتے، جب تک ملک کی معیشت جام نہ ہوجائے۔ اگرمعیشت کا پہیہ چل رہاہے، لوگ پُرامید ہیں،برین ڈرین بھی نہیں ہورہا اور سرمایہ بھی ملک سے باہر منتقل نہ ہو رہا ہو تو ملک استحکام حاصل کر لیتا ہے۔ دہشت گرد ہائی ویلیو اہداف پر حملے کرتے ہیں تاکہ بین الاقوامی میڈیا میں ان کے حملے کو نمایاں جگہ ملے۔

اس وقت سوات میں آپریشن چل رہاتھا، ہمیں دھمکی آمیز فون کالز بھی آتی تھیں اور خط بھی۔ اللہ تعالیٰ ہماری سیکورٹی فورسز کو سلامت رکھے، انھوں نے مونال کو مکمل طور پر اپنی حفاظت میں لے لیا۔ پھرایف سکس سے نکل کر جناح سپرمارکیٹ تک جاناہوتا تو تین چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتاتھا۔ اسلام آباد کیلئے2008ء سے 2010ء تک کا دور مشکل تھا۔ جب کاروبار کچھ ٹھنڈا پڑتاتھا تو میں عموماً لاہور چلاجاتاتھا لیکن ان دوبرسوں میں ، میں یہاں رہا تاکہ ٹیم کا مورال بلند رہے''۔

''جب حالات کچھ بہتر ہوئے، ہم نے ریسٹورنٹ کھولا تو ہم نے پہلے مرحلے میں بڑے پیمانے پر مقامی لوگوںکو بھرتی کیا، ان کی تعداد 300 کے لگ بھگ تھی۔ جب ہم نے مقامی لوگوں کو بھرتی کیا ، یہاں کے ہرگھرانے کا کوئی نہ کوئی فرد ہماری ٹیم میں شامل ہوگیا تو جرائم کی شرح میں فوراً غیرمعمولی طور پر کمی واقع ہوگئی۔ تاہم راستے اب بھی چھ بجے بند ہوجاتے تھے اور چیک پوائنٹس بھی قائم تھیں،تب میں نے اُس وقت کے آئی جی پولیس افتخارصاحب سے کہا:' پولیس کا یہ کام نہیں ہے کہ اگرایک جگہ ڈکیتیاں وغیرہ زیادہ ہورہی ہیں تو آپ وہاں سے راستہ ہی بند کردیں۔ آپ پولیس اہلکاروں کی ایک دوگاڑیاں ہمیں دیدیں، آپ کے پاس بجٹ نہیں ہے تو ہم انھیں سہولیات فراہم کریں گے۔ نتیجتاً ہمیں دوگاڑیاںمل گئیں۔ پھرچھ بجے کے بعد بھی راستہ کھلا رہنے لگا''۔

''تینوں چیزیں ساتھ ساتھ چلیں، ہمیں پولیس کی سکیورٹی مل گئی، جرائم میں ملوث یا جرائم پیشہ لوگوں کو سہولت فراہم کرنے والوں کو روزگارمل گیا، یوںجب ٹریفک رواں دواں ہوئی تو جرائم کے اکا دکا واقعات بھی ختم ہوگئے۔ ہمارے ریسٹورنٹ پر رونق بڑھتی چلی گئی۔ اب ہمارے ریسٹورنٹ سے اس علاقے کو دس سے گیارہ ملین روپے کی مدد جاتی ہے جو تنخواہوں کی صورت میں بھی ہوتی ہے، ہمارے ملازمین نے گھر کرائے پر لئے ہوئے ہیں جبکہ یہاں کی مقامی مصنوعات دودھ وغیرہ بھی ہم خریدتے ہیں ۔ یہ ایک بہترین مثال ہے مقامی معیشت کو کھڑا کرنے کی''۔

لقمان علی افضل کا بنیادی طور پر ایک زمین دار گھرانے سے تعلق ہے،ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور کی ہے، بعدازاں لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) چلے گئے، والد پروفیسرڈاکٹرمحمد افضل شیخ فیکلٹی آف فارمیسی پنجاب یونیورسٹی لاہور کے چئیرمین اور ڈین رہے جو میٹرک کے بعد شرقپورشریف سے بغرضِ تعلیم لاہور آئے تھے، انھوں نے ایف سی کالج سے گریجویشن کی، پھر پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا، پی ایچ ڈی 'لندن سکول آف فارمیسی' سے کی۔1978ء میں واپس آئے تو اپنے بچوں کو بہترین تعلیمی اداروں میں بھیجا۔

لقمان علی افضل بتاتے ہیں: ''میں نے1995ء میںسینئر کیمبرج کیا،سی اے میں داخلہ لے لیا،پھر لمز میں چلاگیا۔ تیسرے سال میں تھا کہ میں نے لمز کا 'سٹوڈنٹ کنوئینس سٹور'سواتین لاکھ میں خریدلیا،اسے صرف طالب علم ہی چلاسکتے تھے، یہ کوئی بزنس ایڈونچر نہیں تھا۔ بزنس شروع کرنا، اسے چلانا، اس کا انتظام کرنا، اس کے اخراجات کا حساب کتاب رکھنا، اپنے سٹاف کو پرجوش رکھنا، یہ میرے لئے ایک ایسا تجربہ تھا جس نے میری زندگی میں کامیابیوں کی بنیاد رکھی''۔

''آج بھی مجھے یاد ہے جب کنوئینس سٹور خریدا تویہ صرف دن کے وقت آپریشنل ہوتا تھا، میں نے خصوصی طور پر اس کا وقت بڑھانے کے لئے اجازت لی، پھر رات کے وقت بھی ہاسٹلوں میں اس کی ڈیلیوری شروع کردی ، جب یہ میرے پاس آیاتواس کی بہت کم آمدن تھی، طلبہ وطالبات اس کی طرف آنے میں دلچسپی نہیں لیتے تھے، پھر اس کی آمدن پانچ گنا تک بڑھ گئی، نتیجتاً آخری دو سال میں نے گھر سے فیس وغیرہ نہ لی، نہ ہی گاڑی کا خرچہ لیا''۔

پھرجب باہر کی دنیا میں آئے تو کئی کاروبار شروع کئے، متعدد ڈیپارٹمنٹس سے واسطہ پڑا۔ بزنس میں پہلے جیسا رسپانس نہیں مل رہا تھا، تاہم والد صاحب نے ساری زندگی یہی نصیحت کی کہ معاملات میں جلدی گھبرایا نہیں کرتے۔ میرے ایک استاد تھے، جب بھی ان کے پاس کوئی مسئلہ لے کر جاتے یا وہ کلاس میں پڑھانے آتے یا آپ ان سے کوئی سوال ہی پوچھتے تو وہ بھی کہتے تھے:' دوست! گھبرانانہیں'۔

کچھ پیسے جمع کر لیے تھے، کچھ والد صاحب سے لئے اور نئے کاروباری تجربات کرنے لگا۔ بعض ناکام ہوئے اور بعض چل نکلے، حتیٰ کہ 2006ء میں سی ڈی اے نے اسلام آباد کے 'مونال ریسٹورنٹ' کی بولی لگائی،اور میں نے ریسٹورنٹ حاصل کرلیا''۔

ریسٹورنٹ، جو تعلیمی اورتربیتی ادارہ بھی ہے

''2006ء سے یہ سفرآہستہ آہستہ شروع ہوا، ہمارے ریسٹورنٹ کی طرف لوگوں کی ٹریفک بڑھتی چلی گئی، مقامی لوگوں کو روزگارملا، جرائم کی شرح کم ہوئی۔ہم نے لوگوں کی ٹریننگ شروع کردی، جس نے ہمارے ہاں کام سیکھا، وہ ایک دن ہمیں چھوڑ کر کسی دوسرے ریسٹورنٹ میں چلاگیا، اس کے بعد ہم نئے لوگوں کو بھرتی کرلیتے تھے، انھیں تربیت دیتے۔ دوسرے لفظوں میں 'مونال' ایک تعلیمی و تربیتی ادارہ بن گیا''۔

''ہمارے کام کا یہاں کے لوگوں پر ایسا اثرپڑا جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔لوگوں نے اپنے بچوںکو پڑھانا بھی شروع کردیا۔مثلاً اگرکسی گھرانے کا ایک بیٹا ہمارے ہاں گارڈ ہے یا ڈش واشنگ پر لگاہواہے تو اس کے والدین نے طے کرلیا کہ دوسرا بیٹا پڑھے گا اور وہ کہیں کیشئیر کی ملازمت پر لگ جائے گا یا اکاؤنٹس،ایچ آر میں۔ یاپھر آرڈر ٹیکر کے طور پرکام کرے گا یعنی لوگوں نے بچوں کی بنیادی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیناشروع کردیا''۔

ہماری محنت اور اس کاعجیب وغریب صلہ

''جہاں ہمارا ریسٹورنٹ ہے، وہاں پانی دستیاب نہیں تھا، ہم نے پانی کا نظام خود بنایا،کوڑے کرکٹ کو تلف کرنے کا کوئی انتظام نہ تھا، ہم نے یہ کام بھی سنبھالا۔ وہاں بجلی، پانی ، گیس سمیت کوئی بنیادی سہولت موجود نہ تھی۔ ٹرانسپورٹیشن کا سسٹم بھی نہیں تھا۔ یہ سارے کام ہم نے خود ہی کئے۔ ہم جو کچھ کسٹمرز کو مہیا کرتے ہیں، اس کی تیاری کے اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ کوئی اندازہ نہیں کرسکتا''۔

''2010ء کے بعد رونق شروع ہوئی تو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ہمارے ریسٹورنٹ پر سوالات اٹھنے لگے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی طرف سے تحقیقات شروع ہوگئیں، پھر ایف آئی آے بھی متحرک ہوگیا، جسٹس شوکت صدیقی نے بھی ہمارے متعلق ایک کمیشن بنادیا، ہمارے خلاف چارانکوائریز چلتی رہیں، بعدازں سوشل سیکورٹی بھی شامل ہوگئی،اولڈایج بینیفٹ کا ادارہ بھی متحرک ہوگیا، لیبر ڈیپارٹمنٹ بھی،ٹورازم والے بھی۔ ہمیں ایسے لگا جیسے ہمارے خلاف کوئی منظم کوشش شروع ہوگئی ہے۔ حالانکہ ہم صرف ریسٹورنٹ نہیں چلارہے تھے بلکہ ہم نے اسلام آباد کی اکنامکس کے بارے میں لوگوں کا تاثر بدل کے رکھ دیا تھا۔ ورنہ لوگ اسلام آبادکو 'مردہ شہر' کہتے تھے، کیونکہ ان کے خیال میں یہاں بزنس کا پوٹینشل ہی نہیں تھا۔ پہلے یہاں کے لوگ کوٹھیاں بناکر سفارت خانوں کو کرائے پر دیتے تھے، ہمارے ریسٹورنٹ کے بعد جتنے ریسٹورنٹس اسلام آباد میں کھلے، پاکستان کے کسی دوسرے شہر میں نہیں کھلے۔ ہم نے اپنے عمل اور اپنی کامیابی سے بتایا کہ اسلام آباد میں پورا کاروباری پوٹیشنل ہے''۔

پاکستان کا لینڈسکیپ

''سوئٹزرلینڈ میں جائیں توآپ دو،چاریا چھ دن میں خوبصورتی کی ایک خاص سطح دیکھ لیتے ہیں،اس کے بعد بس ہوجاتی ہے۔ وہی سبزہ ، وہی خوبصورت عمارات اور وہی وکٹورین طرزتعمیر،آپ اس سے بور ہوجاتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان کا ایسا خوبصورت لینڈ سکیپ ہے جو ہر ایک سوکلومیٹر کے بعد تبدیل ہوجاتاہے،آپ جنوب سے سفر شروع کریں، پنجاب کے میدان ،پوٹھوہار کا علاقہ، پھر نتھیاگلی کی طرف چلے جائیں تو مختلف پہاڑ شروع ہوجائیں گے لیکن ایبٹ آباد، مانسہرہ ، ناران ، کاغان اور گلگت کا رخ کرلیں تو مختلف خوبصورتی دیکھنے کو ملتی ہے۔کبھی زبردست سبزہ آتاہے، پھرپتھریلے پہاڑ شروع ہوجاتے ہیں، پھر برفانی پہاڑ اور درمیان میں مختلف وادیاں جیسے نلتر وادی۔ کہیں تاحدنظرسرسوں کا ساگ دکھائی دیتا ہے اور کہیں باغات ، یہاں سمندربھی ہیں اور ریگستان بھی''۔

ہمارے ملک کا ایک عجیب مسئلہ

''آپ یہاں سے سفر شروع کریں اور ہنزہ تک چلے جائیں، آپ کو کہیں پبلک ٹوائلٹس ہی نہیں ملیں گے۔ بالخصوص خواتین کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔ آپ کو اس کے لئے ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں پر رکنا پڑتاہے، یا پھر ایشیائی طرز کے ٹوائلٹس بنے ہوئے ہیں۔جس طرح موٹروے پر 50روپے میں ٹوائلٹ سروس فراہم کی جاتی ہے، اسی طرح حکومت راستے میں بھی لوگوں کو سہولت فراہم کرسکتی ہے۔ ا گرحکومت کے پاس پیسے نہ بھی ہوںتو راستے کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے سٹے پوائنٹس بنانے کے لئے مختلف جگہوں کی نشاندہی کرکے وہاں کے مقامی فرد کو شامل کریں، بنک سے فنانسنگ کروائیں، ایک مسجد، ایک چائے وغیرہ کا کھوکھا اور کچھ مردوں کے لئے ٹوائلٹس بنوادیں اور کچھ خواتین کے لئے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ حکومت کو ریونییو بھی حاصل ہوگا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ معاملات زندگی کو مشکل بنانے کی کوشش کرتے ہیں''۔

کیا حکومتیں کاروباردوست ہیں؟

''2010ء سے 2018ء تک ہمیں مختلف انکوائریز کا سامنا رہا۔ تین حکومتیں آئیں، ہردور میں سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی نے ایک بار پھر انکوائری شروع کردی، ہردور حکومت کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی ازسرنو تحقیقات شروع کردیں۔ ایف آئی اے نے بھی تحقیقات کیں اور پھر ہمیں کلیئر کیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ٹیکسز کے بھی نوٹسز آرہے ہیں، یہاں کاروباری طبقے کو زیادہ سے زیادہ پریشان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ہماری حکومتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ کاروبار دوست ہیں لیکن ایسی ہوتی نہیں ہیں۔

اگرکوئی کاروبار کرناچاہے تو؟

''کسی بزنس سکول یا ادارے میں نہیں بتایاجاتا کہ آپ کون سا کاروبار کریں گے تو کس ادارے سے واسطہ پڑے گا۔ اسکے قاعدے اور ضابطے کیا ہیں، آج تک سمجھ نہیںسکا کہ بجلی کا پہلا بل تین ماہ بعد کیوں آتاہے؟ ایسے میں کاروباری مراکز بالخصوص ریسٹورنٹس کو پہلے بارہ ماہ تک تنخواہیں وغیرہ اپنی آمدن نہیں، جیب سے ادا کرنا پڑتی ہیں، ساری آمدن تو بجلی کی مد میں اٹھ جاتی ہے،دوسری طرف ہمیں سکھایاجاتاہے کہ جیسے ہی ریسٹورنٹ کھولا تو زبردست آمدن شروع ہوجائے گی۔ جب دو، چار، چھ ماہ کی تنخواہیں اپنی جیب سے دینا پڑتی ہیں تو انسان گھبراجاتاہے۔اس لئے اگرکوئی کاروبار کرناچاہے تو اسے سمجھ لیناچاہئے کہ ایک سال تک کی تنخواہیں اور کرایہ وغیرہ اس کی سرمایہ کاری کا حصہ ہیں۔ اسی موضوع پر آج کل لمز میں ایک کورس بھی پڑھا رہاہوں''۔

''ہمارے نوجوانوں کو تجربہ کار لوگ بھی رہنمائی دینا پسند نہیں کرتے، وہ ڈرتے ہیں کہ نئے بندے کو کاروباری راز بتانے سے میرا رزق تقسیم ہوجائے گا حالانکہ رزق اللہ کی طرف سے آتاہے۔ اگرنئے لوگوں کو رہنمائی مل جائے تو بہت سے لوگ نقصان سے بچ سکتے ہیں اور وہ کامیاب کاروبار کرسکیں گے''۔

بزنس کے چار، پانچ دن ہوتے ہیں

''ریسٹورنٹ کے کاروبار میں چار یا پانچ دن بزنس کے ہوتے ہیں اور پچیس دن ریسٹورنٹ کے۔ اگرکسی بھی مہینے میں پانچ دن خراب ہوگئے تو پورا مہینہ خسارے میں یا کم ازکم منافع میں نہیں جائے گا لیکن ہمارے ہاں پانچ دن تو مسلسل خراب ہوجاتے ہیں، کبھی کوئی دھرنا اور کبھی احتجاج۔ اگرچھ دن بزنس مفلوج رہے تو کاروبار ختم ہوجاتاہے''۔

کاروبار افراد کے لئے سہولیاتاور معلومات کے مراکز

''اگرکوئی بزنس کرناچاہے تو کاروباری افراد کے لئے سہولیات یا معلومات کے مراکزہونے چاہئیں۔ ان مراکز میں ایسا لٹریچرمیسر ہو جو نیاکاروبارشروع کرنے والوں کو رہنمائی فراہم کرے کہ انھیںکس مرحلے پر کیا کچھ کرناچاہئے اورکن اداروں سے واسطہ پڑے گا۔ ہمارے ہاں لوگوں میں بہت قابلیت، صلاحیت اور اہلیت ہے لیکن کاروبار آغاز ہی میں ناکام ہوجائے تو اس کی بنیادی وجہ رہنمائی میسر نہ آنا ہی ہے۔ ہمیں کاروبار شروع کرنے سے پہلے ٹھیک اورٹھوس منصوبہ بندی تعلیمی اداروں میں بھی نہیں سکھائی جاتی۔ کیا ایک پاکستانی شہری کا یہ حق نہیں ہے کہ اسے ایسا تیارشدہ لٹریچر مل جائے جس سے پتہ چلے کہ گزشتہ برس پاکستان کے فلاں علاقے میں کتنے ریسٹورنٹس کھلے اور کتنے بند ہوئے۔ یہ بھی معلوم ہو کہ ریسٹورنٹ کھولنے والے کو شیف اور ویٹرز کہاں سے ملیں گے، ا س ضمن میں حکومت کیا تعاون کرے گی، یادرکھئے کہ دنیا میں اگرکہیں کوئی فرد روزگار کے مواقع پیدا کررہاہو تو اس کے لئے ساری ڈائنامکس تبدیل کردی جاتی ہے''۔

13برسوں میں بارہ انکوائریز بھگتیں

''میں نے اپنے ریسٹورنٹ سے متعلق تیرہ برسوں میں بارہ انکوائریز بھگتیں۔الحمدللہ ہر ایک میں سرخرو ہوا۔ میرے پراجیکٹس سی ڈی اے، ایل ڈی اے ، پی ایچ اے جیسے حکومتی اداروں سے ہی متعلقہ ہیں۔ جب کوئی پرائیڈآف پرفارمنس کے لئے زیرغور آتاہے تو اس کی تمام ایجنسیوںکی طرف سے کلیئرنس ضروری ہوتی ہے،ایف بی آر، اولڈایج بینیفٹ ، لیبرڈیپارٹمنٹ جیسے بہت سے حکومتی ادارے معاملات کو چیک کرتے ہیں۔ دیکھاجاتا ہے کہ آپ کسی حکومتی ادارے کے نادہندہ تو نہیں،آپ کے خلاف کہیں کوئی مقدمہ تو نہیں، کسی وینڈر کے پیسے تو نہیں دبائے،کبھی کوئی چیک باؤنس ہوا،کنزیومرکورٹ میں آپ کے خلاف کیس تو نہیں، انفرادی طور پر آپ کے لوگوں کے ساتھ معاملات کیسے ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ ان تمام چھلنیوں سے گزار کر مجھے قومی اعزاز کا حقدار سمجھا گیا۔''

احوال دیگر
عموماً لوگ بتاتے ہیں کہ وہ کس تعلیمی ادارے سے پڑھے ہوئے ہیں لیکن جناب علی لقمان افضل کا اعزاز ہے کہ 'لمز' ان کی کارکردگی پر نازاں ہے، اس نے اپنے ہاں سے گریجویشن کرنے والے 10200 لوگوں میں سے جن پہلے 10کو اچیومنٹ ایوارڈ دیا، لقمان علی افضل ان میں شامل ہیں۔ وہ رات گئے تک کام کرنے کے عادی ہیں، ان کی سب سے بڑی انسپائریشن والدہیں۔

کہتے ہیں: '' وہ ایک مختلف قسم کے والد تھے جو اپنے بچوں کو اپنی دلچسپیوں میں شامل رکھتے۔2015ء میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے پاس بلالیا، ان کے ساتھ گزرا وقت بہت یاد آتاہے، وہ اب بھی میرے شعور میں رہتے ہیں''۔

' دیے سے دیا جلتاہے'سے موٹی ویشن لینے والے لقمان علی افضل کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ غیرملکی لوگ پاکستان آئیں تو اس کی اچھی تصویر لے کر واپس جائیں۔ اسی لئے اسلام آباد آنے والے غیرملکی مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے شبانہ روز مصروف رہتے ہیں۔کاروباری مصروفیا ت کے بعد خاندان ہی ان کی دلچسپی کا محورومرکز ہوتاہے۔والدہ محترمہ کے زیرسایہ ہی زندگی بسر ہورہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انھیں تین بچے عنایت فرمائے ہیں، دو بیٹیاںاور ایک بیٹاہے۔ کتابوں سے زیادہ زندہ کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، دوسرے الفاظ میں انسانوں کو پڑھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ وارث شاہ اور بابابلھے شاہ کی شاعری کو بہت پسند کرتے ہیں۔کاروباری مصروفیات کے علاوہ ان کی توجہ کا مرکز منڈی فیض آبادمیں واقع ایک بڑا ہسپتال ہے جو ان کے والد صاحب نے ایک ڈسپنسری کی صورت میں شروع کیا تھا، اب اس ہسپتال سے ہر روز اوسطاً600 مریض علاج کراتے ہیں، وہاں سب کچھ مفت ہے حتیٰ کہ ادویات بھی۔ لقمان علی افضل مہینے میں چار سے پانچ دن لاہور میں اپنے بچپن، سکول اور کالج کے دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔انھیں فلمیں دیکھنے کا شوق بہت ہے لیکن وقت نہیں ملتا۔ ائیرلائن میں سفر کرتے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں۔ موسیقی میں راحت فتح علی خان پسند ہیں۔ کہتے ہیں: ''کوئی معاملات کو درست اندازمیں انجام نہ دے یا دھوکہ دینے کی کوشش کرے تو غصہ آتاہے''۔

کہتے ہیں:'' مجھ میں خامی یہ ہے کہ میں چیزوں میں پرفیکشن کی تلاش میں رہتاہوں اور خوبی یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے نیک نیتی سے کسی کام کے لئے بھرپور کوشش کرتاہوں لیکن نتائج کے لالچ میں نہیں پڑتا''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں