خواتین مارچ
8 مارچ خواتین کی جدوجہد کا دن ہے، یہ دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔
PARIS:
کراچی کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکی نے اپنی ہمجولیوں کی طرح زندگی گزارنے کے سنہرے خواب دیکھے۔ والدین نے اس کو اعلیٰ اسکولوں میں تعلیم دلائی، وہ پوسٹ گریجویشن کرنے کے لیے کراچی یونیورسٹی آگئی اور محنت کر کے امتیازی نمبروں کے ساتھ ڈگری حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیمی ادارے میں معلمہ کے فرائض انجام دینے لگی، والدین نے اس لڑکی کا رشتہ تلاش کیا، اس لڑکی نے مشرقی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اس فیصلے کو خوش دِلی سے قبول کیا، اس لڑکی کا شوہر ایک سرکاری افسر ہے، پھر ایک نئی زندگی کا آغاز ہوا۔ اس لڑکی نے سسرال والوں کے ساتھ سمجھوتہ کیا، بہت سی اچھی بری باتیں برداشت کیں اور اپنی ملازمت بھی جاری رکھی۔
اس دوران تین بچے پیدا ہوئے، ان بچوں کی تعلیم کاسلسلہ شروع ہوا تو اس کی تدریس کے ساتھ بچوں کی تربیت اور ان کی نگرانی کا فریضہ بھی اس کی زندگی کا حصہ بن گیا، اسکول کے کام کا دباؤ بڑھ گیا، گھرکے مسائل میں اضافہ ہوا، شوہر کی مصروفیات بڑھ گئیں۔ یہ لڑکی اپنی زندگی کی30 سے 35 بہارے دیکھ چکی تھی، اس میں چڑچڑا پن پیدا ہونے لگا، اسکول میں ساتھیوں اور گھر میں بچوں کے ساتھ سختی ظاہر ہونے لگی۔
شوہر کی ترجیحات مختلف تھیں۔ انھوں نے اپنی اہلیہ کی اس غیر معمولی حالت کو محسوس کرنے کی زحمت گوارہ نہ کی، یہ خاتون ڈپریشن کے مرض کا شکار ہوئیں، انھیں ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہوئی۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ ڈاکٹر کے پاس جائیں، یہ خاتون اپنے فیملی فزیشن کے پاس گئیں، اس ڈاکٹر نے برسوں اس خاتون اس کے شوہر اور اس کے بچوں کا علاج کیا تھا، اس ڈاکٹر نے یہ تشخیص کی کہ خاتون ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہیں۔
ڈاکٹر نے اس خاتون کو ڈپریشن کے مرض سے چھٹکارا پانے کے لیے دوائی تجویز کرنے کے بجائے مشورہ دیا کہ وہ کسی ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں ان کا کہنا تھا کہ اس مرض کے ماہر ڈاکٹر جو مشورہ دیں اور دوائیاں تجویزکریں وہ ان کا استعمال کریں اور ممکن ہے انھیں کونسلنگ کے سیشن کرنے کا مشورہ دیا جائے۔ اس خاتون کے شوہر اپنی اہلیہ کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے اگرچہ جب شوہر بیمار ہوتے تو یہ خاتون شوہر کے ساتھ اسپتالوں کے چکرکاٹتی ہیں۔ یوں اپنی اہلیہ کی زبانی اپنے فیملی ڈاکٹر کے مشورے کاجب شوہر کو علم ہوا تو شوہر موصوف کو اس ڈاکٹر کا مشورہ پسند نہیں آیا۔
انھوں نے کہا کہ تم ماہرِ نفسیات سے علاج کراؤگی تو لوگ پاگل کہنے لگیں گے، پھر ان ڈاکٹروں کی دوائیوں کی عادی ہو جاؤ گی اور کوئی کام نہ کر سکو گی، اس خاتون کے لیے شوہر کی ہدایت حکم کا درجہ رکھتی تھی کہ وہ اپنا علاج نہ کرائیں۔ یوں مرض کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا گیا۔ یہ خاتون اپنا غصہ اپنی بچیوں پر نکالتی ہیں، بچیاں ماں کی حالت سے پریشان رہتی ہیں، ایک بچی زیادہ حساس ہے اس لیے وہ اپنی ماں کے غصے کو زیادہ محسوس کرتی ہے، اس خاتون کی دوست کراچی یونیورسٹی کی استاد ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کی دوست کو فوری طور پر نفسیات کے علاج کی ضرورت ہے مگر شوہر کسی صورت میں اپنی اہلیہ کو ماہرِ نفسیات کے پاس جانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔کراچی یونیورسٹی کی استاد کہتی ہیں کہ اگر اس خاتون نے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنا علاج کرایا تو پھر اس بات خاصے امکانات ہیں طلاق کے حق کو استعمال نہ کر لیں ۔
ماہرِ نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کی دوسری اسٹیج نروس بریک ڈاؤن، پاگل پن کے دورے، خود کشی اور تیسری برین ہیمرج ہوتی ہے۔ یہ خاتون انتہائی سنگین بحران کا شکار ہیں مگر اپنی جسمانی اور ذہنی علاج کرانے کا حق نہیں رکھتی۔
25 سالہ ایک عورت کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے، وہ کراچی کی متوسط طبقے کی آبادی گلشنِ اقبال کے گھروں میں کام کرتی ہیں، اس خاتون کے شوہر نے سالوں قبل کمر میں درد کی شکایت کی، اس کے بعد کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس خاتون نے ہر سال بچے پیدا کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہوا ہے اور اس کے اب تک 8 بچے پیدا ہو چکے ہیں، بڑی بچیاں اماں کے ساتھ گھروں میں کام کرتی ہیں، یہ خاتون اب نویں مرتبہ حاملہ ہوئیں، اس برادری میں حاملہ عورتوں کو ڈاکٹروں کے پاس لے جانے کی روایت نہیں ہے۔ عموماً بچے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں یا جب جان کے لالے پڑ جاتے ہیں تو کسی میٹرنٹی ہوم یا سرکاری اسپتال کا رخ کیا جاتا ہے۔
اس خاتون کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو جن گھروں میں وہ کام کرتی ہیں ان گھروں کی خواتین نے شور مچایا کہ اس کو اسپتال جانا چاہیے، یوں مجبوراً اسپتال گئی ۔لیڈی ڈاکٹر نے معائنے کے بعد ہدایت کی کہ الٹراساؤنڈ کیا جائے، الٹراساؤنڈ کی رپورٹ سے پتہ چلا کہ بچے کی تو پہلے ہی موت ہو چکی ہے۔ ڈاکٹروں نے مشورہ کیا کہ خاتون کو تو سرجری کی ضرورت ہے مگر اس خاتون کے شوہر اور سسرال والے اس قسم کی سرجری کے لیے تیار نہیں، اب یہ عورت سارا دن گھروں میں کام کرتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سرجری نہ ہونے کی صورت میں ماں کی زندگی خطرے میں ہے۔
8 مارچ خواتین کی جدوجہد کا دن ہے، یہ دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ 19 ویں صدی میں امریکا کی خواتین کارکن خواتین نے مردوں کے برابر تنخواہ اور یکساں حالات کے لیے تاریخی جدوجہد کی تھی تو امریکی پولیس نے اس جدوجہد کو طاقت سے کچل دیا تھا۔ پھر جب پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین قائم ہوئی تو اس کے آئین میں تحریر کیا گیا کہ سوشلسٹ ریاست میں عورتوں اور مردوں کے حقوق برابر ہونگے۔ پہلی دفعہ سوویت یونین میں 8 مارچ کا دن سرکاری طور پر منایا گیا، پھر اقوامِ متحدہ نے اس دن کو پوری دنیا میں منانے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان میں 80ء کی دہائی میں جب جنرل ضیاالحق نے خواتین سے امتیازی سلوک کے قوانین نافذ کیے تو پھر کراچی اور لاہور میں قوانین کے خلاف تاریخی جدوجہد کی گئی، پولیس نے لاہور کے مال روڈ پر ان خواتین پر بیہمانہ تشدد کیا، شاعرِ انقلاب حبیب جالبؔ ،عاصمہ جہانگیر اور دوسری خواتین پولیس کے لاٹھی چارج میں زخمی ہوئیں، ان خواتین کو کوٹ لکھپت جیل کی ہوا کھانی پڑی، پھر ہر سال پورے پاکستان میں 8 مارچ کا دن منایا جانے لگا، اس دفعہ پاکستان میں خواتین نے اس دن کو منانے کے لیے ایک بڑے مارچ کا فیصلہ کیا۔
یوں کراچی، لاہور اور حیدرآباد میں خواتین کا تاریخی جلوس نکلا، ہزاروں خواتین اس جلوس میں شریک ہوئیں جس میں غریب خواتین سے لے کر امیر خواتین بھی شامل تھیں ،جلوس میں خواتین نے مختلف بینر اٹھائے ہوئے تھے، ان میں درج نعروں کی بنیاد پررجعت پسندوں نے منفی تحریک شروع کر دی۔ مگر اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا گیا کہ پسند کی شادی کا حق سب سے پہلے اسلام نے دیا، پھر ملک کے بانی محمد علی جناح نے اس حق کی بناء پر رتی سے شادی کی۔ پاکستان کے آئین نے یہ حق خواتین کو دیا، پھر اس آرٹیکل کے آغاز پر جو دو کیسز بیان کیے گئے وہ صرف دو کیسز کا معاملہ نہیں بلکہ لاکھوں خواتین اپنی مرضی کی غذا، اپنی پسند کا لباس اور حتیٰ کے اپنا علاج کرانے کا حق بھی نہیں رکھتی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض علاقوں میں مرد اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لیے اپنی بیوی، بیٹی اور بہن کو عزت کے نام پر قتل کر دیتے ہیں اور پھر جرگوں سے غیرت مند ہونے کا سرٹیفیکٹ حاصل کرتے ہیں۔ جو لوگ 8 مارچ کے نعروں پر تنقید کر رہے ہیں انھیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے، عورت کے حقیقی مسائل کیا ہیں۔ ان مسائل کو حل کر کے عورتوں کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں اور غربت کے خلاف کوشش کامیاب ہو سکتی ہے۔