ماڈل کورٹس

ماڈل کورٹس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے سول ماڈل کورٹس بھی قائم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔


مزمل سہروردی April 17, 2019
[email protected]

چیف جسٹس پاکستان ماڈل کورٹس کی تعداد اور دائرہ کار بڑھاتے جا رہے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف وکلا برداری ان ماڈل کورٹس کے بائیکاٹ اور ہڑتالوں کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔ پاکستان بار کونسل نے تو یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ اگر کوئی وکیل ان ماڈل کورٹس میں پیش ہوا تو اس کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان کے اعلان کے مطابق ان ماڈل کورٹس میں مقدمات کا فیصلہ صرف چار دن میں ہوتا ہے۔ نہ کوئی تاریخ ملتی ہے اور نہ ہی مقدمہ زیر التوا ہوتا ہے۔ ماڈل کورٹس اچھی ہیں یا بری طے کرنے سے پہلے ان کی اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اب تک ان کورٹس نے کیا کار کردگی دکھائی ہے۔ ابتدائی طورپر صرف قتل اور منشیات کے مقدمات ان ماڈل کورٹس میں بھیجے جا رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق چار اضلاع میں ان ماڈل کورٹس نے منشیات اور قتل کے تمام مقدمات نبٹا دیے ہیں۔ اگر یہ ماڈل کورٹس اسی طرح کام کرتی رہیں تو اگلے تین ماہ میں ملک بھر میں قتل اور منشیات کے زیر التوا مقدمات کی تعداد میں اسی فیصد کمی ہوجائے گی۔ اور چھ ماہ بعد ملک میں قتل اور منشیات کے مقدمات کم اور عدالتوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ اب تک ان ماڈل کورٹس نے دس دن میں 1464مقدمات کا فیصلہ کیا ہے۔ اور 5814 گواہوں کی گواہیاں ریکارڈ کی ہیں۔

ایک طرف وکلا کی ہڑتالیں جا ری ہیں تو دوسری طرف ان ماڈل کورٹس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے سول ماڈل کورٹس بھی قائم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد ملک بھر میں ماڈل کورٹس کی تعداد 116سے بڑھا کر 232کی جا رہی ہے۔ جس کے بعد اب ملک بھر میں ہر ضلع میں دو دوما ڈل کورٹس ہونگی۔ ایک فوجداری اور دوسری سول یعنی دیوانی۔ سول ماڈل کورٹس میں ابھی صرف فیملی اور کرایہ داری کے مقدمات جائیں گے۔ عدالتوں کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں صرف روزانہ ایک ہزار فیملی مقدمات دائر ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ عدالتیں کرایہ داری اور فیملی مقدمات کے چار چار دن میں فیصلہ کرنے شروع کر دیں گی۔

سوال یہ ہے کہ وکلا کو ان ماڈل کورٹس سے کیا مسئلہ ہے۔ وکلا کا موقف ہے کہ تیز ترین انصاف کے چکر میںانصاف کا خون کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ تیز ترین انصاف اور مقدمات کے چار چار دن میں فیصلوں کے چکر میں انصاف کے تمام مراحل پورے نہیں کیے جا رہے۔قانونی زبان میں Due Process of Lawکو پورا نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس لیے یہ عدالتیں انصاف نہیں کر سکتیں۔ وکلا کو کہیں نہ کہیں ان عدالتوں میں مقدمات کے التوا نہ ہونے پر بھی اعتراض ہے۔ ان کے خیال میں کئی مواقع پر التوا ناگزیر ہوتا ہے۔

لیکن وکلا برداری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوامی رائے عامہ ان ماڈل کورٹس کے حق میں ہے۔ لوگ تیز ترین اور جلد از جلد انصاف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ تاریخ پر تاریخ کے کلچر سے تنگ آگئے ہوئے ہیں۔ Due Process of Law کو پورا کرنے کے چکر میں انصاف کا خون ہی ہوجاتا ہے۔ وکلا برداری یہ کیوں نہیں مانتی انصاف میں تاخیر انصاف کے خون کے مترداف ہے۔

میں چیف جسٹس پاکستان کی اس بات سے متفق ہوں کہ اگر ٹرائل کورٹس کے نظام کو ٹھیک کر لیا جائے تو اعلیٰ عدلیہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔ ماضی میں ہم نے اعلیٰ عدلیہ میں بہت سی اصلاحات کر کے دیکھی ہیں لیکن ان کے ثمرات نیچے ٹرائل کورٹس تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ سپریم کورٹ میں التوا نہیں ملتا لیکن ٹرائل کورٹس میں تاریخ پر تاریخ کا کلچر انصاف کے نظام پر ایک بد نما داغ سے کم نہیں ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو جتنا مرضی فعال کرلیں جب تک ٹرائل کورٹس اور دیوانی عدالتیں ٹھیک نہیں ہونگی نظام انصاف ٹھیک نہیں ہو سکتا۔

وکلا برداری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مقدمات کے کئی سال چلنے سے جو فیس انھیں قسطوں میں ملتی ہے وہ وہی فیس چند دن میں بھی لے سکتے ہیں۔ یہ سوچ کہ اگر مقدمہ چند دن میں ختم ہو گیا تو ان کی فیس کا کیا بنے گا، درست سوچ نہیں ہے۔ وکلا کو دور جدید کے تقاضوں کے سے اپنے فیس کے نظام کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ تاریخ لینے کو کمال بنانے کے بجائے مقدمہ کی کاروائی کو آگے بڑھانا اپنا کمال بنانا ہوگا۔ مقدمہ کو لمبا کر کے انصاف کا خون کر کے فیس لینے کے بجائے اپنی مہارت سے مقدمہ لڑنے کے فن کو سامنے لانا ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ لیکن ا بھی ا س کام کی گونج عام آدمی تک نہیں پہنچ رہی ہے۔ عام آدمی کو ابھی ان ماڈل کورٹس کے افادیت سمجھ نہیں آرہی۔ ان عدالتوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنی چاہیے تا کہ عوام کو حقائق کا علم ہوسکے۔

میں مودبانہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ وکلا کے کس کوڈ آف کنڈکٹ میں انھیں ہڑتال کرنے کی اجازت ہے۔ ہر موقع پر ہڑتال کس قانون کے تحت جائز ہے۔ ملک میں کچھ بھی ہوجائے۔ سب سے پہلے وکلا ہڑتال کر دیتے ہیں۔ ہڑتال کلچر نے بھی ملک کے عد ا لتی نظام کو آلودہ کر دیا ہے۔ سب سے پہلے پاکستان بار کونسل اورسپر یم کورٹ بار کو ہڑتال کلچر کے خاتمہ کے لیے واضح پالیسی بنانی ہوگی۔ وکلا برداری یہ کیوں نہیں سمجھتی کہ یہ ہڑتالیں کوئی ماتھے کا جھومر نہیں ہیں بلکہ بد نامی ہے ۔

بار اور بنچ کے درمیان تنازع کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر دور میں بار احتجاج کرکے اپنی بات منوائی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں اس بار بھی ایسا ہی نہ ہو۔ ا س ضمن میں ٹرائل کورٹس میں بھی ایک کلچر موجود ہے۔ جہاں درجنوں وکلا کسی ایک مقدمہ میں اکٹھے پیش ہو کر ججز کو دباؤ میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بالخصوص ضمانت کے مقدمات میں یہ کلچر عام ہے۔ ججز سے بدتمیزی کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔ا س کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ٹرائل کورٹس کے پاس توہین عدالت کے اختیارات نہیں ہیں۔ اس اختیار کے نہ ہونے کا خوب فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

میں ذاتی طور پر ٹرائل کورٹس کو توہین عدالت کے اختیارات دینے کے حق میں ہوں۔ جب تک ٹرائل کورٹ کاعزت و احترام یقینی نہیں بنایا جائے گا تب تک نظام انصاف کا احترام اور تقدس یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ اس ضمن میں کم از کم ماڈل کورٹس کو توہین عدالت کے وہی اختیار دیے جائیں جو اعلیٰ عدلیہ کو حاصل ہیں۔ ابھی حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کا ایک واقع ہوا ہے جس میں ایڈو کیٹ جنرل نے آخر تک معافی مانگنے سے انکا رکر دیا جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کو وزیر اعلیٰ پنجاب کو طلب کرنا پڑا۔ اسی طرح ماڈل کورٹس کے پاس بھی ایسے ہی اختیار ہونے چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں