حالات بدل رہے ہیں
یورپ کی سب سے بڑی مضبوط معیشت جرمنی بھی بریگزٹ کے بحران سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
عالمی سرمایہ داری انتہائی گہرے بھنور میں پھنستی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کی رجعت پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے امریکی عوام میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔
خواتین، سیاہ فام، لاطینی، مسلمانوں اور مزدوروں کے خلاف ٹرمپ کی مخاصمانہ رویوں سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر برنی سینڈرز کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے، جو 2020ء میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدراتی امیدوار ہیں۔ دوسری طرف برطانیہ بریگزٹ کے مسئلے پر سنگین بحران کا شکار ہے۔ لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جیمیری کوربون نے برملا برطانوی دارالعوام میں اس کا واحد حل عام انتخابات کو قرار دے دیا ہے۔
یورپ کی سب سے بڑی مضبوط معیشت جرمنی بھی بریگزٹ کے بحران سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ملائیشیا میں اس وقت 6.3 فیصد، سعودی عرب میں 12.5 فیصد، ترکی میں 7 فیصد، امریکا میں 10 فیصد جب کہ چین میں 4.6 فیصد، پاکستان میں 6.7 فیصد اور ہندوستان میں 6.6 فیصد لوگ بیروزگار ہیں۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے مطابق 2018ء میں انڈیا نے اپنی 14 لاکھ سرگرم فوج کے لیے 4 ٹریلین روپے (58 بلین ڈالر) مختص کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 2.1 فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح پاکستان بھی دفاعی شعبے پر بھاری اخراجات کرتا ہے۔
ترکی اپنی سرمایہ دارانہ معیشت پر بہت ناز کرتا ہے۔ میں نے گزشتہ ایک مضمون میں اس کا تنقیدی جائزہ لیا تھا، آج ترکی کے صدر طیب اردوان نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ''ہماری معیشت بہتر نہیں ہے، ہم آیندہ معیشت کو بہترکرنے پر خاص توجہ دیں گے'' یہ اعتراف تب کیا جب ان کی جماعت پیس اینڈ جسٹس ڈیویلپمنٹ پارٹی کو حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تین بڑے شہروں انقرہ، استنبول اور ازمیر میں شکست سے دوچار ہونا پڑا اور حزب اختلاف کی ری پبلکن پیپلزپارٹی نے میدان مار لیا۔ اپنی شکست کو طیب اردوان نے تسلیم بھی کرلیا ہے، جب کہ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جو قابل مثال، قابل رشک اور قابل تقلید بھی ہیں جن کے بارے میں دنیا بھرکا میڈیا خاموش رہتا ہے۔ جیسا کہ جنوبی امریکا میں وسطیٰ امریکا کا ملک ''کوسٹا ریکا '' ہے۔ جس کے پڑوسی ممالک نکارا گوا اور ایکوا ڈور ہیں۔ یہاں 1949 ء سے آج تک فوج کا ادارہ ہی نہیں ہے۔ پولیس کی ہفتے میں دو دن کی چھٹی ہوتی ہے۔
ڈیزل اور پٹرول کا استعمال ممنوع ہے۔ شمسی، پانی اور ہوا کی توانائی سے ٹرانسپورٹ اور دیگرکاروبار زندگی رواں دواں رہتا ہے۔کوئی جہاز فیول لے کرکوسٹاریکا میں لینڈنگ نہیں کر سکتا۔ تعلیم کا بجٹ یورپ اور امریکا کو ملا کر اوسطاً4 فیصد ہے جب کہ کوسٹاریکا میں6.7 فیصد ہے۔ خواندگی کی شرح 97 فیصد ہے۔ 98 فیصد توانائی شمسی اور ہائیڈرو پاور سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح کی خوبی کیوبا میں موجود ہے۔ یہاں 100 فیصد کیمیائی کھاد استعمال نہیں ہوتی۔ ہیپاٹائٹس، کینسر اور ایڈز جیسی مہلک بیماریاں ناپید ہیں۔ خواندگی 99 فیصد ہے۔ سرمایہ داری اور جاگیر داری نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا قرض نہیں ہے۔
دنیا کے 90 ملکوں میں کیوبا کے 36000 ڈاکٹرز مفت خد مات انجام دے رہے ہیں۔ ہندوستان کے صوبہ میزو رام میں دیسی کھاد استعمال ہوتی ہے اور یہاں بھی کیمیائی کھاد زراعت میں استعمال نہ ہونے سے کینسر کا مرض تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ بھوٹان کی فضا میں کاربن نہیں ہے، یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں فضا میں کاربن نہیں ہے۔ کوسٹاریکا نے بھی اعلان کیا ہے کہ 2020ء تک کوسٹاریکا کاربن فری ہو جائے گا۔ شمالی کوریا میں 100 فی صد خواندگی ہے۔ تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کا سفر مفت ہے۔ افغانستان میں ایڈز کا مرض نہ ہونے کے برابر ہے۔
جب کہ پاکستان میں ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہے۔ 2018ء میں 3872 بچے تشدد کا شکار ہوئے جن میں 45 فیصد لڑکے اور 55 فیصد لڑکیاں ہیں۔کل تشدد کے شکار ہونے والے بچوں میں 45 فیصد بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔ پاکستان میں 90 فیصد غریب لوگوں کی بجلی کی زائد بلنگ، تیزرفتار میٹر بلنگ اور لم سم، ایوریج بلنگ ہوتی ہے جب کہ طاقتور نادہندگان کے واجبات 449 ارب روپے ہونے کے باوجود ان کی بجلی نہیں کٹتی۔ اس لیے کہ ان کا صاحب جائیداد طبقات سے تعلق ہے۔
ڈی آئی جی پولیس کے مطابق رواں سال کے تین ماہ میں یعنی مارچ تک ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر 8 لاکھ 39 ہزار چالان اور 20 کروڑ 9 لاکھ روپے جرمانہ کیا، ان میں پولیس والوں پر بھی کیے گئے جرمانے شامل ہیں'' مگر انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ٹریفک پولیس برملا دن دہاڑے عوام سے روزانہ کتنے کروڑ یا ارب روپے کی رشوت لیتی ہے اورکتنی رقوم اعلیٰ ٰافسران کو پہنچاتی ہے، اگر ڈی آئی جی صاحب ایک دن کا موقع دے دیں اور سادہ لباس میں میرے ساتھ ہو لیں تو پھر وہ خود سمجھ جائیں گے کہ قصہ کیا ہے یا پھر وہ پہلے سے جانتے ہوں، ہاں مگر انقلابی دانشور ایماگولڈ مان کے بقول کہ ''جن کو نہ سمجھنے کے لیے تنخواہ ملتی ہے ان کوکیسے سمجھ میں آئے گی ۔''
ادھر معاشی حالت انتہائی دگرگوں نہیں بلکہ دیوالیہ ہونے کی جانب گامزن ہے۔ حکومتی قرضوں میں ایک ہزار ارب کا اضافہ ہوا ۔کئی ہزار ارب روپے کے حکومتی واجبات ایک ہزار روپے سے بڑھ کر 1362ارب روپے تک پہنچ جانے والی گردشی قرضے اس کے علاوہ ہے۔ معیشت کی شرح نمو نصف سے بھی کم ہوکر 3 فیصد سے نیچے گرجانے کے امکانات ظاہرکیے جا رہے ہیں۔
پچھلے پانچ مہینوں میں بیرونی سرمایہ کاری میں 35 فیصد کمی واقع ہوگئی ہے۔اس عرصے میں ٹیکس وصولی ہدف سے 175 ارب کم رہی۔ 37 ارب ڈالر سے زائد کے تجارتی خسارے میں خاطر خواہ کمی کی کوئی امکان نہیں ہے۔ پچھلے ایک سال کے درمیان روپے کی قدر میں 33 فیصد کمی کے باوجود برآمدات میں صرف ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ بنیادی شرح سود مسلسل اضافے سے 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ افراط زر اور مہنگائی جو اس وقت سرکاری طور پر بھی 6 فیصد سے اوپر جا رہی ہے اور مسلسل بڑھتی جائے گی ۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کی معاشی صورتحال کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 2019ء میں معاشی ترقی کی شرح کم ہوکر 3.9 فیصد ہو جائے گی جب کہ مہنگائی بڑھے گی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور روپیہ دباؤکا شکار رہے گا جب کہ کم ازکم زرمبادلہ کے ذخائرکے لیے بھاری بیرونی امداد کی ضرورت ہوگی۔
بینک کی رپورٹ ''ایشین ڈیویپلمنٹ آؤٹ لک 2019ء کے مطابق رواں سال کے اختتام تک شرح نمو مسلسل دوسرے سال کم ہوتے ہوئے 3.9 فیصد پر آ جائے گی جب کہ آیندہ سال 2019-20ء میں یہ شرح مزیدکم ہو کر 3.6 فیصد پر آجائے گی۔ روپے کی گراوٹ کی وجہ سے افراط زر 7.5 فیصد رہے گا۔
اقوام متحدہ کے معاشی وسماجی کمیشن برائے ایشیا پیسیفک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پا کستان کی معا شی شرح نمو خطے میں سب سے کم رہے گی۔ سروے کے مطابق بنگلہ دیش کی شرح نمو 7.3 فیصد، بھارت کی 7.2 فیصد، نیپال اور مالدیپ کی شرح نمو 6.5 جب کہ پاکستان کی 3.9 فیصد رہے گی ۔