اس معاشی بد حالی کا اصل ذمے دار کون
وطن عزیز کو ناسمجھ اور سیاسی طور پر نابالغ لوگوں کے حوالے کرکے ہم نے کون سا مستحسن اور قابل فخر کام سرانجام دیا۔
حنیف عباسی کی لاہور ہائی کورٹ سے رہائی سے یہ بات توکسی حد تک درست ثابت ہوئی کہ پاناما اسکینڈل سے شروع ہونے والا سارا احتساب کوئی حقیقی احتساب نہیں تھا یہ محض چند ناپسندیدہ شخصیات کو انتخابات سے باہر کرنے اور چند من چاہے ا فراد کو اقتدار میں لانے کا طے شدہ اسکرپٹ تھا۔ ملک میں ایک لمبے عرصے سے کرپشن کے خود ساختہ الزامات کے تحت احتساب کے نام پر یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔
اقتدار اور اختیار کے اصل مالک و مختار کی جانب سے جب چاہے کسی معمولی بات کو بہت بڑا ایشو بنا کر جمہوریت کی بساط الٹ دینے یا عوام کے ووٹو ں سے منتخب شدہ حکومت کو زبردستی گھر بھیج دینے کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آ جانے کے دن ہی سے سانپ اور سیڑھی کا یہ گیم بڑی ہشیاری اور چابکدستی سے کھیلا جاتا رہا ہے۔
شروع شروع میں تو براہ راست مداخلت کر کے حکومتی ایوانوں کی دیواریں پھلاند کر اقتدار پر قبضہ کیا جاتا رہا لیکن اب گزشتہ دس سال سے یہ طریقہ واردات کچھ بد ل سا گیا ہے۔ اب براہ راست حملہ کرنے کی بجائے معزز عدلیہ کے ذریعہ اپنے مذموم مقاصد اور عزائم پورے کیے جانے لگے ہیں۔ ہماری عدلیہ کو جب اپنی عزت و توقیرکا کچھ خیال آنے لگے گا اور پس چلمن بیٹھے کھلاڑیوں کے پاس جب یہ آپشن بھی کارآمد نہیں رہے گا تو پھر یقینا کوئی دوسرا آپشن تلاش کرلیاجائے گا۔
پاناما اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد جس طرح ہنگامہ برپا کر کے، سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا موقع غنیمت جان کر اُسے استعمال کیا گیا ہے دنیا میں شاید ہی کہیںایسا کیا گیا ہو۔ خود ہمارے یہاں اِس کااستعمال عجیب و غریب طریقہ سے کیاگیا۔ 480 نامزد افراد میںسے صرف ایک شخص کوجس کا نام بھی براہ راست اُس لسٹ میں شامل نہ تھا، تختہ مشق بنا کر نہ صرف اقتدار سے فوری معزول کر دیاگیا بلکہ ساری عمرکے لیے سیاست سے نا اہل قرار دے دیا گیا۔دیکھا جائے تو یہ ناانصافی صرف اُس ایک شخص کے ساتھ نہیں کی گئی بلکہ بائیس کروڑ لوگوں کے اِس ملک کے ساتھ بھی کیا گیا۔ وہ ملک جو سن 2017ء میں خوشحالی اور ایک روشن مستقبل کی راہ پر گامزن ہوچکا تھا،اچانک کمزور اور لاغر کرکے محتاج اور بھکاری بنا دیا گیا ہے۔
اِس ملک کو معاشی اور اقتصادی طور پر کمزورکرنے کا جوکام ہمارا ازلی دشمن نہیں کر سکا، وہ ہمارے اپنے لوگوں نے کر دکھایا۔ ذرا دو سال پہلے کی صورتحال پر نظر دوڑائیے تو احساس ہوگا کہ ہم کس طرح اپنے اوپر خود ظلم کیاکرتے ہیں۔ دو سال پہلے اِس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 20ارب ڈالرز سے اوپر جا رہے تھے۔ اسٹاک مارکیٹ ابھرتی ہوئی مارکیٹ کا درجہ حاصل کر چکی تھی۔ افراط زر کم ہونے لگا تھا۔ جی ڈی پی ریشو سالانہ 6 فیصد تک پہنچ چکا تھا ۔
ٹیکس ریونیو تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ روپے کی قدر بھی مستحکم ہوری تھی۔حکمرانوں کی کوششوں سے ملک بھر میں خود کش حملے اور بم دھماکے کرنے والا دہشتگردی کا عفریت بھی دم توڑ چکا تھا۔ مہنگائی اورگرانی پر قابو پالیاگیا تھا۔ توانائی کا بحران تقریبا ً ختم ہو چکا تھا، ہر طرف ترقی اور خوشحالی کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ ملک بھی میںانفراسٹرکچر کے نئے نئے منصوبوں پر کام ہونے لگا تھا۔ سی پیک روشن مستقبل کی نوید سنانے لگا تھا ۔ بد قسمتی سے آج اِن سب پر آج بریک لگ چکا ہے۔
دیکھا جائے کہ ہمارا معاشی طور پر عدم استحکام ہونا کن عالمی قوتوں کے لیے ضروری تھا ۔ ہمارا ''سی پیک'' کن سامراجی طاقتوں کی نظروں میں کھٹک رہا تھا۔ ہمیں معاشی طور پرکنگال اور قلاش کرنا کن طاقتوں کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ ہم نے یہ سب کچھ کرکے کس کے ایجنڈے کو پورا کیا ہے۔ ایک اچھے بھلے پھلتے پھولتے پاکستان کو یوں اچانک خوشحالی کی راہ سے اتارکر کھائی اور گھاٹی کی جانب دھکیل کر ہم نے کس نام نہاد حب الوطنی کا ثبوت دیا ہے۔
وطن عزیز کو ناسمجھ اور سیاسی طور پر نابالغ لوگوں کے حوالے کرکے ہم نے کون سا مستحسن اور قابل فخر کام سرانجام دیا۔ اِن لوگوں نے تو حکومت کرنے سے پہلے کوئی ہوم ورک کیا ہی نہیں تھا۔ مملکت کے امورکس طرح چلائے جاتے ہیں اِنہیں قطعاً پتہ نہیں تھا۔اِنہیں یہ اُمید ہی نہ تھی کہ اقتدار اُن کی جھولی میں اِس طرح زبردستی ڈال دیا جائے گا، وہ تو ابھی مجمع لگانے اور تماشہ کرنے کے دنوں سے باہر نکلے ہی نہ تھے۔
اُن کی ساری زندگی توزکوٰۃ ،خیرات اورچندہ جمع کرنے میں گزر گئی۔یہ عادت اقتدار مل جانے پر بھی ختم نہ ہوئی۔ پہلے وہ صرف اپنے عوام سے یہ سب کچھ مانگا کرتے تھے اقتدار مل جانے کے بعد غیروں سے بھی مانگنا شروع کردیا۔ حکومت کرنے اور ترقیاتی کاموں کا کوئی ویژن اُن کے منشور میں شامل ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آٹھ ماہ سے کوئی بڑا منصوبہ یا میگا پروجیکٹ سامنے آیا ہی نہیں۔ بلکہ پہلے سے جاری منصوبوں پر بھی قدغن لگا دی گئی۔ ملک بھر میں سارے ترقیاتی کاموں پرکام روک لگادیا گیا ہے۔سی پیک منصوبہ بھی کسی خفیہ مفاہمت اور خاموش ڈپلومیسی کے تحت پسِ پشت ڈال دیا گیا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اِنہیں ذرہ بھر بھی احساس نہیں کہ وہ اِس قوم کے ساتھ کتنا بڑا ظلم کر رہے ہیں۔ وقت تیزی سے گزرتا جارہا ہے۔اقتدار میں آئے ہوئے اِنہیں اب آٹھ ماہ ہوچکے ہیں۔ عوام رفتہ رفتہ اِن سے بد دل اور مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنی نااہلیوں اور ناکامیوں کا ملبہ پچھلی حکومتوں کے سر ڈالنے کا یہ حربہ بھی اب زیادہ دنوں تک کارآمد نہیں رہے گا۔ یہ حساب کتاب اور احتساب کا ڈرامہ بھی اب ازخود فیل ہوتا جا رہا ہے۔کسی کو این آر او نہ دینے اور ڈیل یاڈھیل نہ دینے کا دعویٰ بھی پلی بارگیننگ کے خود ساختہ بہانوں میں منہ چھپانے لگا ہے۔ نیب اورانسداد منشیات کی عدالتوں سے سزا پانے والے جب ہماری سول عدالتوں سے ریلیف پانے لگے توحکومت کے اکابرین جھنجھلاہٹ میں اُس عدلیہ کی بے توقیری کرنے پر اُترآئے جس کے فیصلوں پروہ سال بھر پہلے داد تحسین دیا کیا کرتے تھے۔
سول عدالتوں سے میاں نواز شریف، شہباز شریف اور اب حنیف عباسی کوملنے والا ریلیف کوئی انہونہ اور خلاف توقع نہیں ہے۔ جس طرح ایک سال پہلے الیکشن سے قبل جس تیزی سے اُن کے خلاف فیصلے آ رہے تھے اور وہ عدل وانصاف کے کن پیمانوں پر پورا اُتر تے تھے یہ ہم سب کو پتہ ہے۔ پاناما کیس کا فیصلہ کسی اقامہ پر نااہلی کی صورت میں آنا ہر ذی شعور کی عقل وسمجھ سے بالاتر تھا۔
دس دس جلدوں پر مبنی جے آئی ٹی کی طویل ترین رپورٹ میں سے کسی ایک الزام کو بھی حیران کن طور پر اِس فیصلے کی بنیاد نہیں بنا یا گیا۔ اِسی طرح حنیف عباسی کو ایک پرانے کیس میں عمر بھر کی قید کی سزا اور باقی دیگر ملزمان کو باعزت بری کردینا بھی اِس کے پس پردہ محرکات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ جن جن سیاسی شخصیات کو الیکشن میں دھاندلی کرکے بھی ہرایا نہیں جاسکتا تھا انھیں ہی ایسے فیصلوں کے ذریعے انتخابات سے باہرکردیا گیا۔ مگر اب یہ سارے فیصلے ایک ایک کرکے واپس ہو رہے ہیں۔
اِسے آپ ہمارے عدل وانصاف کی اعلیٰ اقدار سمجھیں یا پھر کسی دباؤ یا انجانے میں کیے جانے والے گناہوں کا کفارہ ۔ لیکن دو سال پر محیط اِس ساری کشمکش سے ملک کا بیڑا یقینا غرق ہوگیا ہے۔ ہم اپنے ملک کی اِس تباہی کاذمے دار کسے گردانیں۔ خان صاحب اگر اِس ملک وقوم کو ترقی و خوشحالی کی اُن راہوں پر ایک بار پھرگامزن نہ کرسکے جن پر یہ قوم دوسال پہلے تک رواں دواں تھی تو اِس کاذمے دارکون ہوگا ۔ خود خان صاحب یا اِنہیں اقتدار دلانے والے۔