قومی مورال اور جگ ہنسائی
اگرچہ اس خبر پر کہ گزشتہ جمعرات کی شام ایک کلاشنکوف اور مشین گن سے مسلح شخص نے پانچ گھنٹے تک۔۔۔
اگرچہ اس خبر پر کہ گزشتہ جمعرات کی شام ایک کلاشنکوف اور مشین گن سے مسلح شخص نے پانچ گھنٹے تک اسلام آباد کے ریڈ زون کے قریبی علاقے میں حکمرانی کی۔ اس ایشو پر بہت سے کالم نویسوں نے طبع آزمائی کر لی ہے اور یہ واقعہ باسی ہو چکا ہے۔ میں نے جمخانہ لاہور کے کارڈز روم میں جھانکا تو وہاں میری ملاقات 1972-73ء کے ریذیڈنٹ مجسٹریٹ اسلام آباد چوہدری زر محمد سے ہو گئی۔ ان دنوں اسلام آباد ایڈمنسٹریشن کا پولیس انچارج انسپکٹر جنرل اور سول انتظامیہ کا اعلیٰ افسر چیف سیکریٹری نہیں ہوتا تھا۔ سول سائیڈ کا باس RM اور پولیس انچارج انسپکٹر ہوتا تھا۔ اسلام آباد کا اکلوتا پولیس اسٹیشن آبپارہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت اسلام آباد ابھی مکمل اور آباد شہر نہ تھا، ابھی تو وہ Grow ہونا شروع ہوا تھا جب کہ اب کاروباری و سرکاری طور پر ایک مکمل اور بھر پور شہر اور ملک کا دارالحکومت ہے۔ میرا اس شہر سے 1973ء میں سرکاری تعلق قائم ہوا جب چوہدری زر کے تبادلے کے بعد میں تھانہ آبپارہ کا علاقہ مجسٹریٹ تعینات ہوا۔
یوں جو 5-6 گھنٹے کا لائیو شو میڈیا پر چلا اور دنیا بھر میں ٹیلی ویژن پر دیکھا گیا مجھ پر بڑے دکھ اور ندامت کے ساتھ اثر انداز ہوا اور وہ تکلیف دہ ڈرامہ جس کا ڈراپ سین آدھے گھنٹے میں ہو جانا چاہیے تھا ہر پاکستانی کو پانچ چھ گھنٹے تک ندامت شرمندگی، ذلت اور نااہلی کے دریا میں غوطے دیکر اسی مختصر انجام کو پہنچا جو کہ ایک صحیح فیصلے اور ایک تجربہ کار کمانڈو کی دسترس میں تھا۔ جو جرأت سابق پارلیمنٹرین زمرد خاں نے دکھائی وہ تو پہلے آدھے گھنٹے میں ہمارے صرف ایک شوٹر یا کمانڈو کو کر لینی چاہیے تھی۔ غضب خدا کا ایک پاگل بندوقچی نے پوری حکومت کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ ٹی وی چینلز لمحہ لمحہ کی کوریج کر رہے تھے اور خیبر سے کراچی تک پوری قوم دم سادھے اس ڈرامے کو دیکھ رہی تھی۔ جب زمرد خاں سے حکومتی بے بسی دیکھی نہ گئی اور اس کی اپنی برداشت پانچ گھنٹے تک TV دیکھ دیکھ کر جواب دے گئی تو اس نے بندوقچی کو قابو کرنے کا رسک لیا۔ یہی کام ڈیوٹی پر مامور پولیس افسر انجام دے سکتے تھے کیونکہ پولیس کے ساتھ اس نے بڑے قریبی فاصلے پر کھڑے ہو کر مطالبات منوانے کے لیے بات چیت کی تھی اور خود موقع فراہم کیا تھا کہ اس پر قابو پایا جا سکے لیکن افسوس اسلام آباد پولیس نے اسے مایوس کیا۔
بندوقچی کی طرف سے اس کی برقع پوش بیوی حکومتی اہلکاروں کو اس کے مطالبات بڑی تیز رفتاری سے پہنچاتی دیکھی جا سکتی تھی اور دیگر مطالبات کے علاوہ دو مطالبات اس کی اپنی زبانی سنے جا سکتے تھے جوحکومت کی دستبرداری اور نفاذ شریعت کے تھے۔ اب تک جن لوگوں نے اس تقریباً ساڑھے پانچ گھنٹے کے لائیو شو کے بارے میں مجھ سے بات کی ہے، وہ سب ڈیپریشن کاشکار حکومتی لائحہ عمل کے شدید ناقد، شرمندہ اور مایوس نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا ایک زبردست فوجی قوت اور ایٹمی طاقت کی یہی اوقات تھی کہ ساری دنیا میں اپنی نااہلی اور فیصلہ کرنے کے فقدان کی وجہ سے ملکی عوام میں شرمساری و بزدلی کا انجکشن لگا کر انھیں ذہنی مریض بنا دے۔
پانچ گھنٹے کا لائیو شو بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں سبھی نے مجبوراً دیکھا اور دراصل جو کچھ انھوں نے دیکھا، وہ اس عرصہ میں ان کے جسموں اور ذہنوں پر بیت رہا تھا۔ اس دوران ہزاروں بلکہ لاکھوں گھروں میں بیٹھے نوجوان بلکہ بوڑھے چاہ رہے تھے کہ وہ پر لگا کر بندوقچی کو مارنے یا مر جانے کے لیے اسلام آباد پہنچ جائیں تا کہ ذلت آمیز فلم کا ڈراپ سین کر دیں۔ ٹی وی کیمروں نے بھی زیادتی کی کہ ملک کے ہر شہری کو پانچ گھنٹے تک مسلسل شرمسار کیے رکھا۔ سکندر کا لائیو انٹرویو چلایا گیا تھا کہ وہ دہشت گرد سے ایک نظریاتی مجاہد کا روپ دھار سکے۔ ایسی غیرذمے داری دنیا کے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہو۔
میرے بزرگ اور سینئر کولیگ نے مجھے کہا کہ کاش وہ جمعرات 15 اگست کے روز بھی ریذیڈنٹ مجسٹریٹ اسلام آباد ہوتا تو اسے صرف نصف گھنٹہ چاہیے تھا کہ وہ انسپکٹر پولیس کو حکم دیتا کہ بندوقچی کو ٹانگ پر گولی مار کر یا اپنا کوئی تجربہ کار حوالدار مذاکرات کے بہانے اس کے پاس بھیج کر لائیو شو کا اختتام کروا دیتا تا کہ ساری دنیا کو پیغام جاتا کہ ایسے موقعوں پر عقل اور عمل سے کام لیا جانا اور فوری ایکشن ہی فورسز اور عوام کا مورال قائم رکھ سکتے ہیں۔ دیکھتے ہیں، قوم کے زمین چاٹتے مورال کو اٹھانے اور ملک کی جگ ہنسائی میں سے نکلنے میں حکومت کو کتنی دیر لگتی ہے۔
سچ پوچھیں تو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس نے مایوسی میں مزید اضافہ کیا۔ پتہ چلا کہ اس ڈرامے کی طوالت کی ایک وجہ ان کے یہ احکامات تھے کہ سکندر کو زندہ گرفتار کیا جائے۔ اس شرط نے پولیس کی پیشہ ورانہ تربیت' مہارت اور منصوبہ بندی کی بھی قلعی کھول دی۔ یوں وفاقی دارالحکومت کی سیکیورٹی کا نظام اور اس کے رکھوالوںکی صلاحیتیں قوم کے سامنے بے نقاب ہو گئیں۔ چوہدری نثار صاحب کا یہ بیان بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ سکندر دہشت گرد نہیں ہے۔ اب پتہ نہیں ان کے نزدیک دہشت گرد اور دہشت گردی کی تعریف کیا ہے، ان سے مودبانہ استدعا ہے کہ کسی اور ایسے ہی واقعے کے بعد اگر وہ پریس کانفرنس کریں تو خدارا قوم کو یہ بھی بتا دیں کہ دہشت گرد کون ہوتا ہے اور دہشت گردی کسے کہا جاتا ہے۔