تعلیمی نظام میں تبدیلی کے لیے چند اہم تجاویز

ضروری ہے کہ ہم بچوں کو صرف پڑھائیں نہیں بلکہ انہیں ہر بات تجربات کے ساتھ سکھائیں، تاکہ ان کے دل و دماغ میں بیٹھ جائے


پاکستان کا تعلیمی نظام نہایت پیچیدہ اور غیر مؤثر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان کا تعلیمی نظام نہایت پیچیدہ اور غیر مؤثر ہے، جس میں طلبا کو بہت سے مضامین پڑھائے جاتے ہیں، بہت زیادہ محنت کرائی جاتی ہے مگر نتائج کے لحاظ سے یہ سب بے سود ثابت ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک طالب علم کو اتنے زیادہ مضامین پڑھائے جائیں گے تو وہ کسی ایک میں بھی ماہر نہیں ہوپائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس فاضلین (اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد) تو بہت ہیں مگر ماہرین کی قلت ہے۔

ہم مڈل تک ہی طالب علم کو کئی طرح کے مضامین پڑھاتے ہیں جن میں انگریزی پر بہت زیادہ؛ شاید ضرورت سے بھی زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے طلبا کی توجہ دیگر مضامین کی طرف نہیں رہتی، وہ انگریزی کو ہی رٹتے رہتے ہیں اور زبان سیکھنے کے شوق میں فنون سے محروم ہوجاتے ہیں، جبکہ قومی ترقی ماہرین فنون سے ہوتی ہے نہ کہ ماہرین لسانیات سے۔ پھر میٹرک میں ریاضی، بائیو، فزکس، کیمسٹری پڑھاتے ہیں اور یہ تمام مضامین ہر ایک طالب علم کو پڑھنے پڑتے ہیں، چاہے اسے شوق ہو یا نہ ہو، چاہے اس نے زندگی میں ان مضامین کو لے کر چلنا ہو یا نہیں، اسے ہر حال میں پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ روایت بھی کئی خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔

ذرا غور کریں کہ ایک طالب علم، جس نے میٹرک کے بعد کلرک یا سرکاری محکمے میں افسر بننا ہے، اسے یہ سب چیزیں کیا فائدہ دیں گی؟ کیا اسے وہاں بائیو، فزکس، کیمسٹری جیسے مضامین کچھ کام دیں گے؟ وہاں اسے ریاضی کے پڑھے ہوئے فارمولوں سے فائدہ ہوگا؟ کیا کبھی کسی سرکاری دفتر میں کسی کلرک یا افسر کو a2+b2 = ab4 والے فارمولے کام آئے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ وہ تعلیمی اداروں سے اتنے زیادہ مضامین میں نہایت محنت کرکے امتحان پاس کرنے کے بعد ملازمت شروع کرتے ہیں، مگر وہاں یہ ساری محنت ان کے کسی کام نہیں آتی اور جو چیز ان کے کام آنے والی ہوتی ہے وہ انہوں نے کبھی سیکھی نہیں ہوتی۔ وہاں تو فائلیں ہوتی ہیں، کمپیوٹر ہوتے ہیں، جن پر انہیں کام کرنا ہوتا ہے۔ انہیں نوٹ شیٹ، لیٹر، آفس میمورنڈم (O.M) اور یو او نوٹ (U.O note) بنانے ہوتے ہیں، جو ان کے لیے بالکل اجنبی ہوتے ہیں۔ انہیں وہاں نہ تو بائیو، فزکس کام آتی ہیں اور نہ ہی ریاضی کے فارمولے۔

دوران تعلیم طلبا کو ریاضی کے فارمولے اور بہت کچھ سکھایا جاتا ہے مگر اکثر سرکاری ملازمین یہ نہیں جانتے کہ کتنے لاکھ کا ملین ہوتا ہے اور کروڑوں کی رقم کو ملین میں کس طرح لکھنا ہے۔ یہ چیزیں ان کے کام آنے والی ہیں جو انہیں سکھائی ہی نہیں جاتیں۔ انہیں دفاتر میں شروع سے سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے، جس سے وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور محنت بھی۔

اسی طرح ایک طالب علم میٹرک میں بائیو، فزکس وغیرہ پڑھتا ہے، انٹرمیڈیٹ میں وہ آئی سی ایس ( کمپیوٹر سائنس) کرتا ہے اور بیچلرز لیول پر وہ بی کام کرلیتا ہے، اس کے بعد ایم اے پولیٹیکل سائنس میں کرتا ہے۔ یوں وہ ایک مضمون میں بھی مہارت حاصل نہیں کرسکتا مگر وہ ماسٹرز کی ڈگری رکھتا ہے، حالانکہ وہ کسی مضمون میں بھی ماسٹر نہیں ہے اور ہمارے ملک میں اس طرح تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے۔

اسی طرح ایک طالب علم میٹرک میں سائنس مضامین بائیو، کیمسٹری، ریاضی پڑھتا ہے، اس کے بعد وہ آئی سی ایس، بی سی ایس، ایم سی ایس یا بی ایس سی ایس کرلیتا ہے۔ چلو اس طرح وہ کمپیوٹر سائنس میں تو کچھ ماہر ہوا، لیکن اس نے میٹرک میں جو محنت دیگر چند مضامین پر کی، جنہیں اس نے عمر بھر دوبارہ کھول کر نہیں دیکھا، ان مضامین کا اسے کیا فائدہ ہوا؟ پھر اسے انگریزی میں ہی سب کچھ پڑھنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے دہری محنت کرنی پڑتی ہے۔

ایک اور بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ کسی بھی تعلیمی شعبے کو اپنالیں آپ کو اس میں بہت سے مضامین پڑھنے پڑیں گے، مثلاً انگریزی ہر ایک شعبے میں اور ہر درجے میں لازمی ہے۔ اسی طرح اسلامیات، مطالعہ پاکستان، اس کے علاوہ بھی کئی مضامین پڑھائے جاتے ہیں جو طلبا کے بوجھ میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری تعلیم میں اخلاقیات اور اسلامیات کی بہت کمی پائی جاتی ہے۔ اسلامیات اگرچہ گریجویشن تک لازمی تو ہے مگر یہ ضرورت پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ فقہ کے اتنے مسائل جاننا ہر مسلمان کے لیے لازم ہیں کہ وہ اپنی زندگی کو دین کے مطابق گزار سکے، اسی طرح چند اہم آیات قرآنی کا ترجمہ و تفسیر اور احادیث کا سیکھنا بھی ضروری ہے۔

اس کے علاوہ اخلاقیات کی تعلیم ہمیں معاشرے میں رہنا سہنا سکھاتی ہے، ہمیں مہذب شہری بناتی ہے، ہمیں جھوٹ، فراڈ، کرپشن، دھوکا دہی سے بچاتی ہے۔ مگر ہمارے تعلیمی نظام میں اس کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم تو عام ہوچکی ہے مگر اخلاقیات کا جنازہ نکلتا جارہا ہے۔

اگر ہمیں ترقی کرنی ہے اور دنیا میں مہذب قوم کے طور پر ابھرنا ہے تو ہمیں اپنا نظام تعلیم بدلنا ہوگا۔ اس کے لیے چند تجاویز پیش ہیں۔

سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم بچوں پر زیادہ تعلیم کا بوجھ نہ ڈالیں، انہیں دماغی طور آرام دیں۔ بچوں کو مڈل تک چند ایک مضامین پڑھائیں، جن میں اسلامیات، اخلاقیات اور پاکستانیات پر خاص توجہ دیں۔ بچوں کو اخلاق بہتر کرنے اور اچھے شہری بننے کے آداب سکھائیں۔ اس سلسلے میں ہمیں اسلام کیا درس دیتا ہے، اس کی تعلیم دیں۔ پاکستان کی محبت ان کے دلوں میں بٹھائیں۔ انگریزی کو نصاب سے نکال دیں، اس کے لیے الگ سے کورسز رکھیں تاکہ جو اپنے شوق سے سیکھنا چاہے وہ سیکھ لے، باقی طلبا پر بوجھ نہ بنے۔ انگریزی نے بھی ہمارے معاشرے کی ترقی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

ہمارے ہاں ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ جو شخص انگریزی جانتا ہو خواہ اسے اس کے سوا کچھ بھی نہ آتا ہو، اسے سب پڑھا لکھا سمجھتے ہیں، اور جس شخص کو انگریزی نہیں آتی، وہ دیگر فنون یا زبانوں میں کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو ہمارے معاشرے میں اسے بے کار سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ سارا نظام ہی انگریزی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبا علوم و فنون پر کم توجہ دیتے ہیں جبکہ انگریزی پر بہت محنت کرتے ہیں اور یہی چیز ہمارے معاشرے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ طلبا کو اپنی زبان میں ہی تعلیم دیں، کیونکہ اپنی زبان میں تعلیم ہی قابل اور تجربہ کار افراد تیار کرسکتی ہے۔ انگریزی میں تعلیم تو صرف رٹے کے بل بوتے پر امتحانات پاس کرنے والے ہی پیدا کرتی ہے۔ تمام ترقی یافتہ اقوام اپنی زبان میں تعلیم دیتی ہیں اور دوسری زبانوں کی اصطلاحات کا بھی ترجمہ کرلیتی ہیں، جس سے طلبا زبان کے بجائے فنون پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

ضروری ہے کہ ہم بچوں کو صرف پڑھائیں نہیں بلکہ انہیں سکھائیں۔ اور ہر بات انہیں تجربات کے ساتھ سکھائیں، تاکہ ان کے دل و دماغ میں بیٹھ جائے۔ ان کے دلوں میں جھوٹ سے نفرت پیدا کریں، غیبت بہتان، گالم گلوچ، دھوکا دہی، کرپشن وغیرہ کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ سچ بولنا، پیار محبت اور شفقت سے پیش آنا، دوسروں کی چھوٹی چھوٹی خطاؤں کو معاف کرنا سکھائیں۔ کم از کم پانچویں جماعت تک اخلاقیات پر ہی توجہ دیں اور یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب بہت سے مضامین نہ پڑھائے جائیں۔ انہیں کتابی کیڑا بننے کے بجائے تجربات سے گزارا جائے۔ ان کی حرکات و سکنات پر توجہ دی جائے۔ پانچویں کے بعد مڈل تک چند ضروری مضامین پڑھائے جائیں، ان میں بھی صرف بنیادی باتیں ہی سکھائی جائیں، جیسے ریاضی میں جمع، تفریق، ضرب اور تقسیم کے علاوہ چند ضروری چیزیں سکھا دی جائیں۔ اسی طرح سائنس کے چند بنیادی تصورات، مطالعہ پاکستان کے اہم ابواب پڑھائے جائیں، کمپیوٹر کی اہم چیزیں سکھادی جائیں۔ ان کے علاوہ چند دیگر اہم مضامین پڑھائے جائیں مگر اسلامیات و اخلاقیات کو نہ چھوڑا جائے، وہ بھی ساتھ ساتھ مڈل تک لازمی مضامین کے طور پر چلیں۔

مڈل کے بعد طلبا کو ان کے رجحان کے مطابق مختلف شعبوں میں سے کسی ایک میں تعلیم دی جائے۔ شعبے قائم کرنے کے لیے معاشرے پر نظر دوڑائیں کہ وہاں کون کون سے شعبے قائم ہیں، مثلاً میڈیکل، انجینئرنگ، بزنس، آرٹس، سول سروسز، پولیس و فوج وغیرہ۔ اب ہر طالب علم کو مڈل کے بعد کسی بھی ایک شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کا اختیار دیا جائے۔ وہ خود فیصلہ کرے کہ وہ کس شعبہ میں تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ طلبا کو میٹرک کی سطح سے ہی ایک ہی شعبے میں تعلیم دی جائے۔ اگر کوئی میڈیکل پڑھنا چاہتا ہے تو اسے میٹرک سے ہی میڈیکل پڑھائی جائے۔ کوئی انجینئرنگ کرنا چاہتا ہے تو میٹرک سے ہی انجینئرنگ پڑھائی جائے۔ ایسے ہی کمپیوٹر کا شوق رکھنے والوں کو میٹرک سے ہی کمپیوٹر پڑھایا جائے اور ان کے ساتھ اضافی کوئی مضمون نہ ہو، بلکہ وہ صرف ایک مضمون ہی پڑھیں، اسی میں بہت سی کتب پڑھیں اور میٹرک سے ماسٹرز لیول تک اسی مضمون کو پڑھتے رہیں، اس میں تحقیق کریں، ساتھ ساتھ پریکٹس اور تجربات بھی کریں۔

جب وہ آٹھ سال تک ایک ہی مضمون میں محنت کریں گے تو پھر وہ حقیقتاً ماہر بنیں گے۔ پھر ہمارے پاس فقط فاضلین نہیں بلکہ ماہرین ہوں گے، جو اپنے شعبوں میں انقلاب لائیں گے۔ تعلیم کے دوران ان سے تحقیقات بھی کرائی جائیں۔ اپنے اپنے شعبے کے بارے میں تحقیق کریں کہ ہمارے ملک میں اس شعبے میں کیا کام ہوا ہے، اس میں مزید کتنے کام کی ضرورت ہے اور دیگر ممالک میں اس شعبے میں کس طرح کام ہورہا ہے، مثلاً معاشیات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے یہ تحقیق کریں کہ ہمارے ملک میں معیشت کا نظام کیسا ہے اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں یہ نظام کیسے چل رہا ہے۔ ہمارے نظام میں کیا خامیاں ہیں اور ان خامیوں کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔ یوں ملک میں ہر شعبہ میں حقیقی تبدیلی رونما ہوگی۔

اسی طرح یونیورسٹیوں میں ایک شعبہ سول سروسز کا ہو۔ جو طلبا دفاتر میں ملازمت کرنا چاہتے ہیں انہیں اس شعبہ میں داخلہ دیا جائے اور انہیں سکھایا جائے کہ دفاتر میں ان کی پیشہ ورانہ ذمے داریاں کیا ہوں گی، اخلاقی ذمے داریاں کیا ہوں گی اور ان کے کیا فرائض ہوں گے، انہوں نے کیا کام کرنا ہوگا اور اس کام کو سرانجام دینے کا طریقہ کیا ہوگا، فائلوں پر کیسے کام کرنا ہے، کمپیوٹر پر کیا کام کرنا ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں دفاتر میں بھی انگریزی کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہر جگہ، ہر شعبے میں انگریزی چلتی ہے۔ پہلے تو اسے ختم کرکے دفاتر کا نظام اردو میں کرنا چاہیے مگر جب تک یہ نہیں ہوسکتا تب تک طلبا کو دفاتر میں استعمال ہونے والی انگریزی سے بھی روشناس کرایا جائے، کیونکہ طلبا جو انگریزی نصابی کتب میں پڑھتے ہیں وہ دفاتر کی انگریزی سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دفاتر میں جا کر انہیں انگریزی کے وہ الفاظ بھی سیکھنے پڑتے ہیں جو دفاتر میں استعمال ہوتے ہیں۔ ہر وہ چیز انہیں سکھائی جائے جو دفاتر میں ان کے کام آئے گی۔ اس طرح جب وہ تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی استعداد کے مطابق اپنے دفاتر میں اپنے عہدوں کے مطابق کام شروع کریں گے تو انہیں اس کام سے اجنبیت محسوس نہیں ہو گی اور وہ پہلے دن سے ہی اپنے کام کو بہتر طور پر سر انجام دینے کے قابل ہوں گے۔

ایسے ہی یونیورسٹیوں میں پولیس اور آرمڈ فورسز کے ڈپارٹمنٹ میں ان طلبا کو داخلہ دیا جائے جو پولیس یا فوج میں جانے کا شوق رکھتے ہوں۔ وہاں انہیں پولیس اور فوج کی ذمے داریوں سے آگاہ کیا جائے۔ انہیں عوام کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا سکھایا جائے۔ انہیں وطن کی محبت کے جذبے سے سرشار کیا جائے۔ تعلیم کے ساتھ ہی پولیس اور فوج کی اکیڈمیوں سے وقتاً فوقتاً تربیت بھی دلائی جائے۔ پولیس اور فوج کے قوانین بھی بتائے جائیں۔ علاوہ ازیں انہیں چند ایک ضروری مضامین بھی پڑھادیے جائیں۔ یوں وہ ان مضامین میں محنت کرنے سے بچ جائیں گے جو انہیں عمر بھر کام آنے والے نہیں ہیں اور وہ باتیں سیکھ لیں گے جن سے ان کا ہمیشہ واسطہ پڑنا ہے۔

دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کا بھی خاص انتظام کیا جائے اور طلبا کو اپنے شعبے میں رہتے ہوئے اپنے مضمون کے ساتھ ساتھ اسلامیات کی تعلیم بھی دی جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہو کہ ایک سال قرآن کریم کی اہم آیات اور سورتوں کی تفسیر پڑھادی جائے، دوسرے سال احادیث کی کوئی چھوٹی مگر اہم کتاب پڑھائی جائے اور تیسرے سال فقہ کی کوئی چھوٹی کتاب پڑھائی جائے، جس میں روزمرہ زندگی کے متعلق فقہ کے اہم مسائل موجود ہوں۔ اس طرح طلبا پر اضافی بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور ان میں کافی حد تک دین کی سمجھ بوجھ پیدا ہوجائے گی، جس سے وہ اپنی زندگیاں دین کے مطابق گزارنے کے قابل ہوجائیں گے۔

اب ہم نظر دوڑاتے ہیں ملک میں دینی تعلیمی نظام کی طرف۔ اس میں بھی بہت سی پیچیدگیاں موجود ہیں، جن کی اصلاح ضروری ہے۔ دینی تعلیم کے اداروں میں بھی طلبا کو ایک ساتھ بہت سے مضامین پڑھائے جاتے ہیں، جن میں تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو(عربی گرامر)، عربی ادب، منطق، فلسفہ، بلاغہ قابل ذکر ہیں۔ یہاں بھی مذکورہ بالا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک ہی طالب علم کو اتنے زیادہ علوم پڑھائے جاتے ہیں تو وہ کسی ایک میں بھی ماہر نہیں ہوسکتا اور جس طرح اوپر بیان کیا گیا کہ عصری تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کی کمی ہے، اسی طرح دینی تعلیمی اداروں میں عصری تعلیم کی کمی پائی جاتی ہے، جسے دور کرنا عصر حاضر کی ضرورت ہے۔

مذکورہ بالا دونوں مسائل کے حل کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ مڈل کے بعد طلبا کوشعبہ اسلامیات یا درس نظامی میں داخلہ دیا جائے۔ نصاب کو یوں ترتیب دیا جائے کہ سب سے پہلے وہ کتب جو موجودہ دور میں غیر ضروری ہوچکی ہیں اور جن کو پڑھنے کے بعد طلبا کو کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہورہا، انہیں نصاب سے نکال دیا جائے۔ ان میں منطق، توضیح والتلویح اور عربی ادب کی کتب جیسے دیوان حماسہ، دیوان متنبی اور مقامات حریریہ قابل ذکر ہیں۔ کیوں کہ ان کتب میں اتنی قدیم عربی ہے کہ اسے موجودہ دور کے عرب بھی سمجھنے سے قاصر ہیں، لہٰذا انہیں نصاب سے خارج کرکے ان کی جگہ جدید عربی کی کتب نصاب میں شامل کی جائیں۔ اس کے بعد نصاب میں انگریزی، ریاضی، مطالعہ پاکستان، سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم کو بھی شامل کیا جائے۔

اس سارے نصاب کی تعلیم یوں دی جائے کہ پہلے سال صرف و نحو (عربی گرامر) کے ساتھ انگریزی و ریاضی پڑھائی جائیں، دوسرے سال تفسیر کے پہلے دس سپارے، حدیث اور فقہ کی کوئی سی اہم چھوٹی کتب کے ساتھ مطالعہ پاکستان اور انگریزی پڑھائی جائیں، تیسرے سال تفسیر کے دوسرے دس سپارے، حدیث اور فقہ کی کوئی دوسری چھوٹی کتب کے ساتھ کمپیوٹر اور سائنس کو شامل نصاب کیا جائے اور چوتھے سال تفسیر کے آخری دس سپارے، حدیث و فقہ کی کتب اور انگریزی و مطالعہ پاکستان یا ریاضی کو نصاب کے طور پر پڑھایا جائے۔ چار سال تک ہر طالب علم کو تفسیر، حدیث، فقہ، صرف، نحو اور دیگر ضروری عصری مضامین سے آگاہی حاصل ہوجائے گی۔ اس کے بعد تین الگ الگ شعبے قائم کیے جائیں، ایک شعبہ تفسیر، دوسرا حدیث اور تیسرا فقہ کا شعبہ ہو۔ چار سال پورے کرنے کے بعد طلبا کو ان کے رجحان کے مطابق کسی بھی ایک شعبے میں داخلہ دیا جائے اور چار سال تک انہیں ایک ہی دینی علم سکھایا جائے؛ چاہے وہ تفسیر ہو، حدیث یا فقہ ہو۔ اور اس علم میں انہیں ماہر بنا دیا جائے۔ اس طرح ہمارے ہاں فقط فاضلیں نہیں بلکہ مفسر، محدث اور فقیہ ہوں گے، جنہیں اپنے علوم پر مکمل دسترس حاصل ہوگی۔

دینی علوم حاصل کرنے والے طلبا کو چار سال تک دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ آرٹس کے مضامین (اردو، انگریزی، مطالعہ پاکستان، سیاسیات، صحافت، بین الاقوامی تعلقات وغیرہ) میں سے ایک مضمون کا انتخاب کرکے وہ بھی پڑھانا چاہیے تاکہ طلبا کو فراغت کے بعد معاش میں مشکل پیش نہ آئے اور وہ کالج، یونیورسٹیوں اور دفاتر میں بھی خدمات سرانجام دے سکیں۔

یہ دونوں تعلیمی نصاب حکومت کی زیر نگرانی متعلقہ شعبوں کے ماہرین کے مشوروں سے ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھائے جائیں، تاکہ دونوں تعلیمی نظام میں پائی جانے والی دوریاں کم ہوں۔ طلبا میں ہم آہنگی پیدا ہو، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں۔

وطن عزیز میں دینی و عصری تعلیم سے تعلق رکھنے والے حضرات کے مابین بہت زیادہ دوریاں پائی جاتی ہیں۔ دینی تعلیم حاصل کرنے والے عصری تعلیم سے منسلک افراد کو سیکولر و ملحد سمجھتے ہیں اور عصری تعلیم یافتہ طبقہ دینی طبقے کو قدامت پسند سمجھتا ہے۔ یہ دوریاں و غلط فہمیاں بھی معاشرے کے لیے ناسور ہیں، جنہیں مٹانا بے حد ضروری ہے۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ایک یونیورسٹی قائم کرے جس میں اس نئے تعلیمی نظام کا تجربہ کیا جائے اور دینی و عصری تعلیم ایک ہی ادارے میں دی جائے۔ اس طرح دونوں طبقات ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گے اور ان کی ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں بھی مٹ جائیں گی۔

یوں ملک میں یکساں تعلیمی نظام بھی نافذ ہوجائے گا اور دینی و عصری تعلیم میں مطابقت بھی پیدا ہوگی، جس سے ملک کے مختلف طبقات آپس میں مل جل کر چلنا سیکھیں گے اور ملکی ترقی میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں