عدم استحکام درعدم استحکام

ہمارے بیس پچیس برس کے انتہائی محترم سیاسی شدت پسندوں نے ملک کااقتصادی باغ مکمل طورپر اُجاڑ دیا ہے۔


راؤ منظر حیات April 19, 2019
[email protected]

مسئلہ کیاہے۔حتمی سوچ کوتوخیرموقعہ ملناناممکن ہے۔ 1947 سے لے کرآج تک کوئی ایساوقت کاٹکڑا نہیں جو انتشار کے بغیرسانس لے۔ستربرس سے اس ملک میں صرف اور صرف ایک چیزمستحکم ہے۔اوروہ ہے عدم استحکام۔ کیاغیر سویلین، کیا سویلین، کیانیم فوجی اورکیانیم سویلین حکومتیں۔ سب اپنے اپنے دامن میں عام لوگوں کے لیے صرف اور صرف "مزیدانتشار"کاتحفہ لاتی ہیں۔

گزشتہ چالیس سال کوہی دیکھ لیجیے۔چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔جمہوری دانشوروں نے سمجھایاکہ مارشل لاء بہت ہی خطرناک چیزہے۔اس سے لوگوں کے حقوق سلب ہوجاتے ہیں۔لوگوںمیں کدورتیںاورنفرتیں بڑھ جاتی ہیں۔ صوبائی اورنسلی تعصب بڑھ جاتاہے۔یہ استدلال اسی اور نوے کی دہائی میں من وعن تسلیم کرلیاگیا۔ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف سندھ اورچنددیگرحصوں میں ایک تحریک چلی جسے سختی سے کچل دیاگیا۔خوبصورت جمہوری تغیرکے لیے اَن گنت لوگ بربادہوگئے۔مگرکوئی نتیجہ نہ نکلا۔

مجلس شوری کوبھول گیا۔کیاکسی جمہوری قائدنے بتایاہے کہ ان کے والد،دادا،قریبی عزیز،غیرنمایندہ مجلس شوری میں تھے یا نہیں۔چلیے،اسے بھی جانے دیجیے۔اس لیے کہ ''مجلس شوریٰ'' تاریخ کے کوڑہ دان کاحصہ ہے۔مگربات یہ بھی اہم ہے کہ مجلس شوریٰ کے اکابرین آج بھی کسی نہ کسی طرح حکومت کررہے ہیں۔بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کیے جارہے ہیں۔یہاں آزاد اسمبلیوں کے وجودکی تواجازت ہی نہیں دی گئی۔ستربرسوں سے مجلس شوریٰ کسی نہ کسی نئے یاپرانے لبادے میں برسرِاقتدارہے۔

تیس چالیس برس پہلے کی نوجوان نسل کوکہاگیاکہ مارشل لاء نے توہرچیزبربادکردی۔قیامت درقیامت اور نوحہ درنوحہ۔ چنانچہ ملک میں1988ء کے الیکشن ہوئے۔سب کواُمیدتھی کہ جمہوریت ہماری قسمت بدل دیگی۔دودھ،شہدکی نہریں بہنا شروع ہوجائینگی۔لوگ اس قدرخوشحال ہوجائینگے کہ دنیا سے باقاعدہ غیرملکی وفودہمارے ملک کی ترقی سے سبق سیکھنے آئینگے۔الیکشن کے نتائج نے تمام اُمیدوں اوردعوؤں کے برعکس پورے معاشرے میں تلخی گھول ڈالی۔سیاستدان جنھوں نے ملک کوترقی کی شاہراہ پرڈالناتھا، جلسوں میں ایک دوسرے کے بارے میں ناشائستہ الفاظ استعمال کرتے تھے۔ جو سیاستدان جتنی ناشائستہ زبان استعمال کرتا تھا،اس کی قیادت اتنی ہی اسے سرکا تاج بناکررکھتی تھی۔پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن نے تمام اخلاقی حدیں عبورکرلیں۔

جہاں ملک میں ہرفلسفہ، ہر خیال، ہر معتدل رویہ ضایع ہوگیا،توصرف ایک دہائی کی بربادی سے کیافرق پڑتاہے۔مگرصاحبان،اس پورے انتشارمیں کسی سیاستدان نے ایک اَمرفراموش نہیں کیا۔وہ تھا،مال بنانا۔ کیا ن لیگ کے معتبرین اورکیا پیپلز پارٹی کے جمہوری خدا۔ سب نے یکسوئی سے کمال لوٹ مار کی۔مثال سامنے رکھیے۔ پنجاب میں اشرافیہ نے جس طرح سے ایل ڈی اے سے مالی لوٹ مارشروع کی،وہ تاریخ نہیں،ہمارے مستقبل کابھی ناقابل قبول ورثہ ہے۔ سیاسی لیڈروں کورشوت کے طور پر سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں پلاٹ مفت تقسیم کیے گئے۔ ہاں،کئی پیاروں کودودوپلاٹ،تاکہ ایک کوبیچ کردوسرے پر گھر بنالے۔ اگرآپکوتصدیق فرمانی ہے توایل ڈی اے کے کسی بھی پرانے اہلکارسے پوچھ لیجیے۔

باتیں سن کررونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔مرکزمیں بالکل یہی حال،جمہوریت پسندپیپلزپارٹی نے کیا۔ سی۔ ڈی۔اے اوردیگرقومی اداروں کولقمہ ترکی طرح بے دریغ لوٹاگیا۔ویسے ایک تلخ سچ اوربھی ہے۔ واپڈا پاکستان کامایہ نازادارہ تھا۔اس نے پاکستان کی ترقی میں ہمیشہ کلیدی رول اداکیاتھا۔محترمہ نے اس ادارہ کوبے دردی سے تقسیم کیا۔بجلی کی کمپنیاں بنائی۔ یہ ادارہ آج خاک چاٹ رہاہے۔انھوں نے ایساکیوں کیا، اس کی تفصیل ہرباخبرشخص کو معلوم ہے۔ بہرحال نوے کی دہائی میں ملک دیوالیہ ہوگیا اور چند خاندان حددرجہ امیر ہوگئے۔لوگوں کے مسائل، جمہوری خواب میں،کسی طور پر بھی حل نہ ہوسکے۔جمہوری خواب کی بڑی بھیانک تعبیر نکلی۔

نناوے میں دوبارہ غیر جمہوری قوتوں نے ملک کا نظام سنبھال لیا۔مانیں یانہ مانیں۔اگرپاکستان کی تاریخ میں ایوب خان کے بعدترقی کاکوئی دورآیاہے تو پرویز مشرف کے پہلے تین سال کی حکومت تھی۔اقتصادی ترقی کی شرح بڑھنے لگی۔ اقتصادی ترقی کی نمومکمل طورپرگرگئی۔چیف جسٹس بحال ہوگئے۔لوگوں کودکھائے ہوئے خواب ایک بارپھر مزید ڈراؤنے ہوگئے۔عدلیہ بچاؤمہم کے نتائج لوگوں کے لیے کتنے بہترین نکلے۔اسکاجواب اعتزازاحسن صاحب کوضرور دینا چاہیے۔کیونکہ اس مہم کے سرخیل تھے۔بہرحال ملک مکمل طورپرعدم استحکام میں غوطے کھانے لگا۔

پرویزمشرف کے بعددس سال کاسنہراجمہوری دور آیا۔اس قدرسنہرا،کہ ہرایک کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ آنکھیں چندھیاگئیں۔مرکزمیں محترم زرداری صاحب نے ایمانداری کے وہ ریکارڈقائم کیے کہ دنیاکے ہرکونے میں بازگشت سنائی دینے لگی۔ان کے مقربین،دونوں ہاتھوں بلکہ دونوں پاؤں سمیت دولت کی گنگامیں اَشنان کرنے لگے۔ لوٹ مارکوئی لفظ ہی نہیں۔ایک محترم وزیراعظم نے ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس فروخت کرنے شروع کردیے۔یہ ان کی کرپشن کی ابتداء تھی۔ایک وزیرداخلہ نے اپنے قریبی پولیس افسروں کے ذریعے مالدارلوگوں پرجھوٹے پرچے کرواکر پیسے وصول کرنے شروع کردیے۔خیرپنجاب میں دس برس اورپھرن کی مرکزی حکومت نے بھی کسی سے کوئی مالی رعایت نہیں کی۔پورے اقتصادی نظام کوہائی جیک کر لیا گیا۔اگر تصدیق کرناچاہیں،توآج بھی گوگل پرجاکرمغربی آزادتحقیقی اداروں کی رپورٹس دیکھ سکتے ہیں۔پورے دس برس،ملک کو اس طرح لوٹاگیاجیسے کہ یہ کوئی دشمن ملک ہے۔یاکوئی مفتوح علاقہ ہے۔ویسے مفتوح کالفظ زیادہ مناسب ہے۔

دس برس میں ن لیگ نے ایک ذاتی حکمتِ عملی کے تحت اپنے درباریوں کومالی طورپراس درجہ مستحکم کیاکہ وہ ہرالیکشن کو خریدنے کی استطاعت رکھ سکیں۔کرپشن کی کہانیاں،آپ نیب کی زبانی روزسنتے ہیں۔دھیلے کی کرپشن نہیں کی،مشہورزمانہ جملہ کہنے والے موصوف اپنی اولادکے اکاؤنٹ میں اربوں روپے آنے کی کوئی توجہیہ پیش نہیں کرسکے۔بہرحال یہ دس سال ہمیں پہلے سے زیادہ بربادکرگئے۔ملک عدم استحکام اوردیوالیہ پن کا بھرپور نمونہ بن کربین الاقوامی سطح پرسامنے آیا۔

ہمارے بیس پچیس برس کے انتہائی محترم سیاسی شدت پسندوں نے ملک کااقتصادی باغ مکمل طورپر اُجاڑ دیا ہے۔ اسحاق ڈارصاحب کایہ فرماناکہ قرضے لیناکوئی بری بات نہیں۔اگلاجملہ نہیں بولتے کہ قرضے واپس کیسے کرنے ہیں۔اس پرمکمل طورپرچپ سادھ لیتے ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ اس کی ٹیم نے ناتجربہ کاری میں کئی متنازعہ فیصلے کیے ہیں۔ مگر صرف سات ماہ میں اسکوبے رحم تنقید کا نشانہ بنانا کیا واقعی انصاف ہے۔اب کچھ لوگ،ملک کو ایک نئے انتشارکی طرف لیجانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔انھیں اوران کے نئے دوستوں کاخیال ہے کہ اگر خان تھوڑاسابھی کامیاب ہو گیا،تو پھر کیا ہوگا۔ اس منتشرسیاسی نظام میں مزید عدم استحکام لانے کی جادوئی کوشش بھرپورطریقے سے جاری ہے۔ مگر ہمیں کیا فرق پڑتاہے۔ہم نے تودیکھاہی عدم استحکام ہے!یہ سیاسی، معاشی، اقتصادی ترقی کس چڑیاکانام ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں