سیاستدانوں کو قابل نفرت نہ بنائیں

ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ اس طرز سیاست نے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچارکیا اور ملک کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا۔


جبار قریشی April 19, 2019
[email protected]

ISLAMABAD: ماضی میں پاکستان کے ایک اہم سیاسی رہنما کو کراچی جیل میں رکھا گیا، ان سیاسی رہنما کو یہ بتایا گیا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں ان کے دور حکومت میں ان کے مخالف سیاسی رہنما کو کئی سال قید میں رکھا گیا تھا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ بات سن کر ان سیاسی رہنما کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس بات کو پڑھ کر آپ اس کو مکافات عمل قرار دیں یا نہ دیں ان سیاسی رہنما کی حد تک اس کے شواہد موجود ہیں کہ وہ تاریخ اور سیاست کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے لگے ہیں ۔

دراصل ہمارا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہمارے یہاں دہرے معیار اور قول وفعل کا تضاد ہے، ہم انصاف کے تقاضوں کو بھی انصاف کے حوالے سے نہیں دیکھتے، بلکہ ذاتی دشمنی، ذاتی دوستی اور سیاسی ترجیحات کے حوالے سے دیکھتے ہیں یہی ہمارے نظام عدل اور طرز حکمرانی کا سب سے بڑا المیہ ہے انصاف کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل احتساب کا بڑا چرچہ ہے جمہوریت کی طرح احتساب کا عمل بھی مختلف ادوار میں شکلیں بدل بدل کر سامنے آتا رہا ہے۔

ایوب خان کے دور حکومت میں اسے ایبڈوکا نام دیا گیا۔ جنرل یحییٰ خان نے کوئی نام رکھے بغیر مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کا احتساب کرتے ہوئے ملک کے دو ٹکڑے کردیے۔ جنرل ضیا الحق احتساب کو کوڑوں سے لے کر پھانسی گھاٹ تک لے گئے، ان کے بعد جو بھی حکمران آئے انھوں نے اس روایت کوکسی نہ کسی حد تک جاری رکھا ۔ موجودہ حکمران اس معاملے میں '' ہم کسی سے کم نہیں'' کا نعرہ لگا کر دوسروں سے دو قدم آگے نظر آتے ہیں ۔

ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ اس طرز سیاست نے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچارکیا اور ملک کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا طرز سیاست ایسا کیوں ہے جو سیاست دانوں کو ہی قابل نفرت بناتا ہے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق پاکستان کے سیاسی نظام میں بیورو کریسی کو مستقل ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ ہماری بیورو کریسی چاہے وہ عسکری ہو یا سول یہ عوامی نمایندوں کے مقابلے میں زیادہ منظم، باصلاحیت اور تجربہ کار ہوتی ہے اپنے عہدے کے تسلسل کی وجہ سے انھیں اپنے کام میں اچھی مہارت حاصل ہوتی ہے حکومتی وسائل اور معلومات کے ذخائر تک ان کی رسائی ہوتی ہے، اس لیے یہ عوامی نمایندوں سے زیادہ ماہر اور باخبر ہوتی ہے۔ سیاست دانوں کا کسی شعبے میں علم اور تجربہ خاصا محدود ہوتا ہے وہ انتظامی امور سے بھی کم ہی واقف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لامحالہ سیاسی جماعتوں کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے بیوروکریسی پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔

یوں بیورو کریسی حکومت میں اصل طاقت کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق الیکشن میں بیشتر سیاستدان وہی اقتدار میں آتے ہیں جن کو غیر سول اور سول بیورو کریسی کی حمایت حاصل ہوتی ہے ان قوتوں کی نگاہ کرم جن پر اور جتنی دیر تک رہتی ہے وہ اقتدار میں رہتا ہے اور نگاہ کرم ہٹتے ہی اقتدار سے باہر کردیا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ سیاسی ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کا مضبوط نہ ہونا ہے، بار بار کے مارشل لا اور غیر جمہوری قوانین کے نفاذ کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو کام کرنے اور اپنے آپ کو منظم کرنے اور اپنے کارکنان کی تربیت کا موقع نہیں ملا، جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں افسر شاہی کے فراہم کردہ دائرہ عمل کے اندر کام کرنے پر مجبور رہی ہیں۔

سیاسی ماہرین کا یہ تجزیہ کس حد تک درست ہے اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار اہل علم و دانش ہی کرسکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے کے مطابق ہمارے یہاں ہر حکومت میں کوئی نہ کوئی ارسطو اور بقراط ضرور بیٹھے ہوتے ہیں جو عوامی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے اچھی بھلی آگے بڑھتی ہوئی کہانی کو اپنی طرف سے ایک موڑ دے کر اسے ایک فلاپ فلم کی طرح مضحکہ خیز بنا دیتے ہیں۔ ان حضرات کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ یہ نظریات کی لڑائی کو شخصی تصادم میں تبدیل کردیتے ہیں اور اسے ہوا دے کر اپنے پس پردہ مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ سیاسی جماعتیں کسی فوجی ادارے کی طرح ایک کمان کے تحت کام نہیں کرتیں ان کے درمیان نظریاتی اور فکری بنیادوں پر فرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ اپنا الگ الگ منشور رکھتی ہیں اس بنیاد پر ان کے مابین تصادم اور فکری ٹکراؤ کا ہونا فطری ہے لیکن جب یہ نظریاتی مخالفت شخصی تصادم میں تبدیل ہوجائے تو پھر ہمیں اپنے اس سیاسی رویے پر ضرور غور کرنا چاہیے ہمارے یہاں ماضی کی طرح اس وقت بھی سیاست میں شخصی تصادم کی جھلک نمایاں ہے۔ میرے نزدیک کرپشن ملک کا سب سے بڑا ناسور اور مسئلہ ہے اسے ختم ہوجانا چاہیے۔

زندگی کے تمام شعبوں میں کالی بھیڑوں کا وجود ہے۔ کرپٹ تو کوئی بھی ہو سکتا ہے، صرف سیاست دانوں کو یہ کہہ کر کہ انھیں رول ماڈل ہونا چاہیے احتساب کے شکنجے میں جکڑ کر کٹہرے میں لانا اور باقی کو مقدس گائے کا درجہ دینا عدل و انصاف کے اصولوں کے منافی عمل ہے۔ ہمیں اس طرز عمل سے گریز کرنا چاہیے اس کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے جن جن شعبوں میں کالی بھیڑوں کا وجود ہے ان سب کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے۔ صرف سیاستدانوں کو ہی تنقید کا نشانہ بنانے سے ملک میں سیاست سے بیگانگی کا عمل فروغ پاتا ہے جو ملک کی قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہے ۔ یہ سیاسی جماعتیں ہی ہوتی ہیں جو قوم کو متحد اور منظم رکھتی ہیں اور انھیں لائحہ عمل دے کر عمل کے لیے آمادہ کرتی ہیں جس کے نتیجے میں ملک امن اور خوشحالی کی طرف گامزن ہوتا ہے۔

لیکن جب سیاسی عناصر کو ملک کے سیاسی نظام سے باہر کیا جاتا ہے اور انھیں قابل نفرت بنایا جاتا ہے تو ایسی صورت میں معاشرے میں سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے اس سیاسی خلا کو مختلف مافیا، جہادی تنظیمیں، لسانی گروہ، فرقہ پرست تنظیمیں اور غیر سیاسی عناصر پُر کرتے ہیں پھر ان عناصر کو فروغ پانے کا موقع ملتا ہے پھر یہ عناصر پروان چڑھتے ہیں جو ملک کی سلامتی کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو قابل نفرت بنانے کے بجائے انھیں کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ یاد رکھیں جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے سیاسی جماعت بنائی ملک محفوظ رہا جنرل یحییٰ خان نے سیاسی جماعت نہیں بنائی ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ اس بات سے سیاسی جماعتوں کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں