غزل
آنکھوں کی دہلیز پہ ٹھہرا دریا دینے والی تھی
داسی تھی اور دان میں اپنا صدقہ دینے والی تھی
تم نے بڑھ کر روک لیا ہے میرا رستہ ورنہ میں
تم پہ وار کے سچ مچ ساری دنیا دینے والی تھی
اس بھائی نے چھین کے بیچے میرے چند نوالے بھی
جس کو میں کھلیان سے اپنا حصہ دینے والی تھی
اچھا ہے وہ لوٹ گیا ہے بن دیکھے دروازے سے
سچ تو یہ ہے میں خود اس کو رستہ دینے والی تھی
تم نے تو خود اس کا دامن اشکوں سے لبریز کیا
جو معصوم سی لڑکی تم کو پُرسہ دینے والی تھی
شکر کہ میں نے ایک صدا پر پیچھے مڑ کر دیکھ لیا
ایک سہیلی پشت سے ور نہ دھکا دینے والی تھی
وہ دنیا کے منہ پر دیکھو واپس آ کر تھوک گیا
دنیا جس کے نام کا مجھ کو طعنہ دینے والی تھی
آج کسی کی خاطر ہنس کر کیوں دروازہ کھول دیا
تم تو ایماں دل نگری پر پہرہ دینے والی تھی
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
تیرے پیچھے میں کسی طور نہیں آ سکتا
چھوڑ کر گاؤں کو لاہور نہیں آ سکتا
وہ خدا ہے جو فلک چھوڑ کے آ سکتا ہے
میں زمیں چھوڑ کے فی الفور نہیں آ سکتا
ہم کہانی کے اب اس موڑ پہ آ پہنچے ہیں
جس میں بچپن کا کوئی دور نہیں آ سکتا
دیکھ مشہور مصور مری تصویر کے ساتھ
ماسوا اس کے کوئی اور نہیں آ سکتا
میں نے خاموش محبت کو یہاں رکھا ہے
یعنی اس دل سے کبھی شور نہیں آ سکتا
(توصیف یوسف اشعر۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
مدت کے بعد میں اسی مہمان سے ملا
یہ کیا کہ پھر بچھڑنے کے امکان سے ملا
عالم تو دیکھیے مری دیوانگی کا آپ
دامن کا چاک جا کے گریبان سے ملا
اس سے تمہارے ہاتھ کی خوش بُو نہیں گئی
سوکھا ہوا گلاب جو گُل دان سے ملا
کرتا ہوں اُن کی ذات سے میں عشق اس لیے
کیوں کہ یہ حکمِِ عشق بھی قرآن سے ملا
میں دوستو اگرچہ زبوں حال تھا بہت
جب شاہ سے ملا تو بڑی شان سے ملا
اس سے لپٹ کے آج میں رویا بہت ندیمؔ
بچپن کا اک کھلونا جو سامان سے ملا
(ندیم احمد شہزاد۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
ہاتھ ہاتھوں سے چھوٹ سکتا ہے
بیج نفرت کا پھوٹ سکتا ہے
بھر گیا دل جواز پھر کیسا
بے سبب بھی وہ روٹھ سکتا ہے
لے نہ انگڑائی سامنے اس کے
آئینہ ہے یہ ٹوٹ سکتا ہے
سچ کی اس سے امید کیا رکھنی
بول خود سے جو جھوٹ سکتا ہے
صرف رہ زن پہ آنکھ مت رکھنا
کوئی اپنا بھی لُوٹ سکتا ہے
(اخلاد الحسن اخلاد۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
پچھلا دور بھی ویسے کتنا اچھا تھا
پیار وغیرہ فلموں میں ہی ہوتا تھا
کھانے کی ضد کرتی ماں کو کیا معلوم
اس کا بیٹا کیا کچھ کھو کر آیا تھا
زہر کی شیشی کھولنے والے بھول گئے!!
تو نے بھی اک شخص کو زندہ چھوڑا تھا
یا رب تیرا حکم مری سَر آنکھوں پر
لیکن اس کا میرا ہونا بنتا تھا
اب اتنا محسوس نہیں ہوتا مجھ کو
پہلے پہل میں جذباتی ہو جاتا تھا
نئے مچھیروں کے آنے سے کچھ پہلے
دریا میری ساری باتیں سنتا تھا
(محسن ظفر ستی، کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
پہلے کسی نے ایسے گزاری ہے زندگی
جس نے تجھے کہا ہو تمہاری ہے زندگی
بچپن سے میرے سَر پر محبت رہی سوار
سَر پر اٹھا کے بوجھ گزاری ہے زندگی
خواہش کہ چار دن تو میں ہنس کے گزار لوں
افسوس کیا بتاؤں کہ بھاری ہے زندگی
کیوں ناز تیرے اتنے اٹھاؤں میں دوستا!
یہ آپ کی نہیں ہے ، ہماری ہے زندگی
تیرے بغیر جینا تو مشکل نہیں تھا دوست
لیکن فقط یہ موت سے ہاری ہے زندگی
گو لاکھ مشکلوں نے ہے گھیرے میں لے رکھا
عاجزؔ کو پھر بھی یار یہ پیاری ہے زندگی
(عبدالوحید عاجز۔ بھیرہ، سرگودھا)
۔۔۔
غزل
تمہیں پانے کی چاہت، مگر کھونے کا ڈر بھی ہے
کہ دل شہرِ تمنا ہے تو محرومی کا گھر بھی ہے
وفا کے باغ میں جھولے پڑے ہیں آرزوؤں کے
دعاؤں کی ہری بیلوں پہ خواہش کا ثمر بھی ہے
مسافت ناامیدی کی پڑی ہے پاؤں میں میرے
تمہاری ہمرہی بھی ہے مگر تنہا سفر بھی ہے
فصیلِ فکر پہ یادوں کی اک قندیل روشن ہے
تمہاری منتظر میں ہی نہیں یہ چشمِ تر بھی ہے
چمکتی کانچ جیسی دھڑکنوں کو توڑنے والا
وہ پتھر دل بہت مانا ہوا اک شیشہ گر بھی ہے
ہماری ایک خامی ہے تمہاری ذات میں کھونا
تمہیں تم سے چرا لینا ہمارا اِک ہنر بھی ہے
کنولؔ اعزاز بھی کہتی ہے اس کو جرم بھی دنیا
کہ بدنامِ زمانہ بھی، محبت معتبر بھی ہے
(کنول ملک۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
کمر پہ رکھے جو ہاتھ، لڑکی کھڑی ہوئی ہے
یہ میرے بچپن میں ساتھ پڑھ کر بڑی ہوئی ہے
ہمیں جو دیکھیں تو تتلیاں بھی یہ خوف کھائیں
ہمارے چہرے پہ ایسی وحشت گڑی ہوئی ہے
ہوں اس کے تابع یہ وقت، خوش بُو، یہ رنگ سارے
یہ شاہ زادی عجیب ضد پر اڑی ہوئی ہے
تُو کہہ رہا ہے اسے محبت کے خط لکھوں میں
وہ اس لیے ہی تو مجھ سے پیارے! لڑی ہوئی ہے
جو میری آنکھیں ہیں لال اس کا سبب پتا ہے؟
میرے موبائل میں تیری فوٹو پڑی ہوئی ہے
سنا ہے تُو نے کہ سگریٹی ہو گیا ہے ویسیؔ
یہ سچ نہیں ہے، یہ بات خود سے گھڑی ہوئی ہے
(اویس احمد ویسی ، ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
تمہارے ہجر کی تفسیر ہو گئے ہم لوگ
جو مٹ نہ پائے تو تحریر ہو گئے ہم لوگ
وہ جس نے ہم کو تسلی سے پائمال کیا
اسی کے پاؤں کی زنجیر ہو گئے ہم لوگ
تمہیں جو سوچا تو رشک آیا زندگی پہ ہمیں
تمہیں جو دیکھا تو تصویر ہو گئے ہم لوگ
ہمارے خواب کی تعبیر مل نہ پائی تو پھر
تمہارے خواب کی تعبیر ہو گئے ہم لوگ
جب اپنے آپ میں خوبی کوئی دکھائی نہ دی
تو اپنے عیبوں کی تشہیر ہو گئے ہم لوگ
(عمار یاسر مگسی۔ کبیر والا)
۔۔۔
غزل
یوں اداسی میں ملی ہے ترے آنے کی خبر
جیسے مفلس کو ملے ایک خزانے کی خبر
مستیِ عشق میں ڈوبے ہیں ترے دیوانے
اِن کو عقبٰی کی، نہ اپنی، نہ زمانے کی خبر
دل ترے ہاتھ پہ رکھ دیتا میں اک لمحے میں
کاش ہوتی جو مجھے دل کے ٹھکانے کی خبر
میں کسی اور کے خوابوں میں مگن رہتا ہوں
جھوٹ ہے جھوٹ فقط، تم سے نبھانے کی خبر
میرے آنے پہ خوشی دگنی منانے والے
تجھ کو رنجور نہ کر دے مرے جانے کی خبر
ایسے یاروں سے بھلا کیسے نبھاؤں فیصلؔ
پیار میں جن کو نہیں اپنے گھرانے کی خبر
(فیصل کاشمیری۔ ضلع گوجرانوالہ، تحصیل وزیرآباد)
۔۔۔
غزل
میرا جیون تو بس اداسی ہے
کیا کریں ہر برس اداسی ہے
میرے ترکے میں اور ہے ہی کیا؟
ایک تُو اور بس اداسی ہے
اور کچھ بھی نہیں محبّت بس
پھول ہے جِس کا رَس اداسی ہے
دھوپ ہے عاشقی کے موسم میں
ابر! تُو اب برس، اداسی ہے
جسم میرا کبھی محبت تھا
اب تو ہر ایک نس اداسی ہے
(حماد اداس۔ چکوال)
۔۔۔
غزل
وہم و گماں، یقیں سے بھی باہر ملو کبھی
ہاں ہاں، نہیں نہیں سے بھی باہر ملو کبھی
مسحور کر رہی ہیں یہ کلیاں بھی ادھ کِھلی
اب مشک و عنبریں سے بھی باہر ملو کبھی
زہریلی سی ہنسی میں ہے کتنی مٹھاس بھی
مسکانِ انگبیں سے بھی باہر ملو کبھی
کومل سُروں کی راگنی خاموش ہو گئی
کلیان، بھیرویں سے بھی باہر ملو کبھی
کیا یہ طلسمِ خاک ہے یا پھر کشش کوئی
اس آسماں، زمیں سے بھی باہر ملو کبھی
اے نکتہ چیں شمار نہ باریکیاں کرو
شیشہ و خرد بیں سے بھی باہر ملو کبھی
جگنو کو راس آئی ہے تِیرہ شبی علیمؔ
چندا کی چودھویں سے بھی باہر ملو کبھی
(علیم اطہر۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
آپ آئے تو عنایت ہو گی
کس قیامت کی محبت ہو گی
آپ الزام لگائیں جاناں
مجھ کو رسوائی بھی شہرت ہو گی
دشت کو چھوڑتے کب سوچا تھا
گھر میں اس طور سے وحشت ہو گی
یہ محبت ہے گناہِ افضل
کیا بغیر اس کے عبادت ہو گی
اب گلابوں پہ بہار آئی ہے
اب ملاقات کی صورت ہو گی
تم ہو دل توڑنے والوں میں میاں
تم سے کیا خاک حفاظت ہو گی
آخر کار وفا میں احمدؔ
جان دینے سے ہی راحت ہو گی
(احمد نیازی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
بیٹھے ہیں ان کی دید کا ساماں کیے ہوئے
دامن کو چاک، دل کو بیاباں کیے ہوئے
اک عمر کٹ گئی ہے دوانے کی، ہجر میں
بیتابیوں کو زیست کا عنواں کیے ہوئے
کٹتی نہیں ہے مجھ سے کسی طور سرد رات
بیٹھا ہوں دل میں درد کو پنہاں کیے ہوئے
عرصہ ہوا ہے یار کی چوکھٹ سے دور ہوں
مدت ہوئی ہے درد کا درماں کیے ہوئے
مجھ کو غمِ حیات کی لذت عزیز ہے
سو شاد ہوں میں خود کو پریشاں کیے ہوئے
حالت جو اس نے پوچھی تو آنکھوں سے بہہ پڑا
گریہ تھا میرے قلب میں طوفاں کیے ہوئے
کیسی ہوا چلی ہے یہ ہیثم کہ شہر میں
خلقت ہے خود کو مائلِ زنداں کیے ہوئے
(علی ہیثم حضرو۔ اٹک)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]