تاریخ کے جھروکوں سے
اگر یہ ضلع پاکستان کے پاس ہی رہنے دیا جاتا تو آج شاید کشمیر نام کا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا۔
جلیانوالہ باغ کا سانحہ یقینا بہت دلخراش تھا، اس میں سیکڑوں آزادی کے پروانوں کو نعرۂ آزادی لگانے کی پاداش میں ابدی نیند سلا دیا گیا تھا۔ اسی زمانے میں ایسے کئی خونی سانحات تحریک آزادی کا انمٹ حصہ بنے تھے۔ 13 اپریل 1919 کے جلیانوالہ باغ کے سانحے کے دوسرے ہی دن 14 اپریل کو گوجرانوالہ میں بھی ایک خونی سانحہ پیش آیا تھا۔
اس میں آزادی کے متوالوں کے ایک بڑے اجتماع پر جنگی جہازوں سے بم گرا کر اور فائرنگ کرکے درجنوں انسانوں کو بھون دیا گیا تھا پھر 25 اپریل کو جنوبی ہند کی موجودہ کرناٹک ریاست کے ایک شہر ودرش وتا میں انگریز سرکار کے خلاف ایک پارک میں منعقدہ جلسے پر انگریز فوجیوں نے فائرنگ کرکے کئی درجن لوگوں کو شہید کردیا تھا۔ ان تمام سانحات پر قائد اعظم نے برطانوی حکومت کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا اور گوجرانوالہ کے سنگین سانحے پر تو آپ نے احتجاجاً لیجسلیٹیو اسمبلی سے استعفیٰ تک دے دیا تھا۔ تحریک آزادی کے حوالے سے بعض بھارتی تاریخ دانوں نے قائد اعظم کے کردارکو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ اس میں ہمیشہ ہی ناکام رہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم نے ایک کانگریسی رہنما کے طور پر تحریک آزادی سے اپنی مخلصی ثابت کی اور پھر تحریک پاکستان سے ان کی مخلصی اور دیانت سب پر ہی عیاں ہے۔ یہ واقعہ تاریخ کا انمٹ حصہ ہے کہ آپ کو پورے ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی گئی تھی اگر آپ نے اس آفر کو قبول کرلیا ہوتا تو آج برصغیر کے مسلمانوں کا کیا حشر ہوتا۔ یہ پیشکش کوئی معمولی نہیں تھی اس لیے کہ جس ملک میں چالیس کروڑ ہندو اور صرف دس کروڑ مسلمان بستے ہوں وہاں کسی مسلمان کا وزیر اعظم بننا ضرور حیرت انگیز بات ہوتی۔ اس آفر پر کوئی پھسل بھی سکتا تھا مگر قائد اعظم نے اسے فوراً مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ آج تو میں ضرور وزیر اعظم بن جاؤں گا مگر بعد میں کیا ہوگا۔
میری مدت ختم ہونے کے بعد لازمی طور پر کسی ہندو کو ہی وزیر اعظم بنایا جائے گا اس لیے کہ جمہوریت کی رُو سے یہ اکثریتی قوم کا ہی حق ہے مگر پھر مسلمانوں کا کیا بنے گا وہ پھر اپنے جائز مطالبات کے لیے اکثریت کے محتاج رہیں گے۔ یہ تھا قائد اعظم کا کریکٹر اور مسلم قوم سے وفاداری کی ایک روشن مثال۔ دراصل ان کے اسی بلند اخلاق نے انھیں جناح سے قائد اعظم بنادیا تھا۔
قائد اعظم کو ہندوستان کا وزیر اعظم بنانے کی پیشکش دراصل کانگریس کی جانب سے انھیں قیام پاکستان سے روکنے کے لیے ایک حکمت عملی کے تحت کی گئی تھی۔ وہ اس وقت جس تندہی اور سنجیدگی سے تحریک پاکستان چلا رہے تھے اس سے کانگریسی رہنما گھبرائے ہوئے تھے۔ انھیں یقین ہوگیا تھا کہ اگر جناح کو نہ روکا گیا تو پاکستان بن کر رہے گا اور ہندوستان ان کی خواہشات کے خلاف ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا مگر قدرت تو پہلے ہی پاکستان کے حق میں فیصلہ کرچکی تھی چنانچہ پاکستان بن کر رہا مگر پاکستان کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئیں وہ بھی تاریخ کا ایک تلخ باب ہے۔
پاکستان اور بھارت کے علاقوں کی حد بندی کے لیے ایک برطانوی وکیل ریڈکلف کو تمام تر اختیارات کے ساتھ ایک چار رکنی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دباؤ میں آکر پاکستان کے علاقوں کو جتنا بھی کم کرسکتا تھا کیا۔ اگرچہ پنجاب میں اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر اسے بھی تقسیم کردیا گیا، پنجاب کے کئی اضلاع جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی انھیں بھارت کو دے دیا گیا۔ پھر یہ بھی ظلم ہوا کہ وہ علاقے جو پاکستان کو باقاعدہ دے دیے گئے تھے بعد میں ان میں بھی کانٹ چھانٹ کی گئی۔
فیروزپورکا ضلع پاکستان کو دے دیا گیا تھا بعد میں اسے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ہدایت پر بھارت کو دے دیا گیا اسی طرح گرداس پور کا اہم ضلع جو مسلم اکثریتی تھا پہلے پاکستان کو دیا گیا تھا جس کا نقشہ بھی جاری کردیا گیا تھا مگر اس ضلعے کو پاکستان میں شامل کرنے پر پنڈت نہرو سخت ناراض تھے کیونکہ یہی ضلع بھارت کو کشمیر تک رسائی فراہم کرتا تھا۔ اگر یہ ضلع پاکستان کے پاس ہی رہنے دیا جاتا تو آج شاید کشمیر نام کا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا اور پاکستان و بھارت کے درمیان کوئی جنگ نہ ہوتی۔
گرداس پور کو بھارت میں ضم کرنے کا واقعہ بی بی سی لندن کی ویب سائٹ پر بیان کیا جاچکا ہے۔ اس کے مطابق ایک رات جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور پنڈت نہرو محفل سجائے ہوئے تھے نہرو نے ماؤنٹ بیٹن سے شکایت کی کہ برٹش سرکار نے کشمیر کو بھارت کا حصہ بننے سے روک دیا ہے اور اسے پاکستان کی گود میں ڈال دیا ہے اس طرح تو بھارت کے ساتھ بہت زیادتی ہوگی کیونکہ کشمیر پر پہلا حق ہمارا ہے۔ آپ کسی طرح ہمیں کشمیر دلائیں۔
شاید اس سے پہلے پنڈت جی ماؤنٹ بیٹن کی بیوی سے بھی یہ شکایت کرچکے تھے اور انھیں اس بات پر راضی کرچکے تھے کہ وہ ماؤنٹ بیٹن کو بھی اس بات پر راضی کرالیں گی پھر اسی وقت رات کو ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف کو بمعہ تقسیم کے نقشوں کے طلب کرلیا اور اسے حکم دیا کہ گرداس پور کو پاکستان کا حصہ دکھانے کے بجائے بھارت کا حصہ دکھایا جائے۔ بے چارہ ریڈکلف بھلا وائسرائے ہند کا کہا کیسے ٹال سکتا تھا اور یوں کشمیر پاکستان کے ہاتھ سے نکل کر بھارت کے چنگل میں پھنس گیا۔
قائد اعظم نے اس تبدیلی کو قبول نہیں کیا اور قیام پاکستان کے بعد پہلی فرصت میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرنے کے لیے اس وقت کے پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو کشمیر میں پیش قدمی کا حکم دیا مگر جنرل گریسی نے اس کے لیے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے اجازت طلب کی اور اس نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ پھر ناچار قبائلی کشمیر میں داخل ہوگئے۔ انھوں نے بھارتی تربیت یافتہ فوج کا اپنے معمولی ہتھیاروں سے مردانہ وار مقابلہ کیا مگر انھیں آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے انڈین رائل ایئرفورس نے خوفناک بمباری کی جس سے سیکڑوں قبائلی شہید ہوگئے مگر پھر بھی انھوں نے میدان نہیں چھوڑا اور بالآخر کشمیر کے تقریباً چالیس فیصدحصے کو بھارت سے چھین لیا۔
تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ جو بھی زیادتیاں ہوئیں وہ شاید نہ ہوتیں اگر قائد اعظم لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھارت کی طرح پاکستان کا بھی گورنر جنرل بننا قبول کرلیتے۔ قائد اعظم ماؤنٹ بیٹن کے مذموم عزائم سے بخوبی واقف تھے۔ انھیں انسانوں کو پہچاننا اورکسی کے دماغ میں چل رہے فطور کو پڑھنا خوب آتا تھا۔ اسی لیے انھوں نے ماؤنٹ بیٹن کو گھاس نہیں ڈالی۔ پھر وہ ایسا وقت تھا کہ خود برطانوی حکومت قیام پاکستان کے لیے دل سے تیار نہیں تھی ادھر امریکی اور روسی حکومتیں بھی پاکستان کے اسلامی تشخص کی وجہ سے اسے پسند نہیں کر رہی تھیں۔
تقسیم ہند کی حد بندی کے اعلان سے قبل دہلی میں مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس ہوا تھا جس میں تمام صوبوں کے مسلم لیگی رہنما شریک تھے انھوں نے پاکستان کے کٹے پٹے نقشے کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ انھیں منانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ آپ نے سب کے سامنے جو مدبرانہ تقریر کی اور کٹے پٹے پاکستان کو قبول کرنے کے حق میں جن معروضات کا اظہار کیا ساتھ ہی انھیں دشمنوں کے مذموم عزائم سے باخبر کیا تو اس کے بعد تمام ہی رہنماؤں کے لیے مطمئن ہونے کے سوا چارہ نہ تھا۔
یہ قائد اعظم کی ہی ہمت اور جرأت تھی کہ بے سروسامانی کے عالم میں بھی بھارت کے منہ سے پورا نہ سہی کشمیر کے کچھ حصے کو ضرور چھین لیا تھا مگر صد افسوس کہ بابائے قوم نے جتنا کشمیر ہمیں دلایا تھا بعد کے حکمرانوں نے اس میں سے بھی کافی کچھ کھو دیا۔ نہ جانے ہمارے رہنما کب ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہوں گے؟