نئی حکومت
قوم نے سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ قوم کس قدر ذہین ہے۔
نوماہی حکومت اپنے مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ گو کہ سیاسی میدان میں اس کی مشکلات نہ ہونے کے برابر ہیں مگر معاشی میدان میں ہمارے نئے حکمران ابھی تک وہ کارکردگی دکھانے سے ناکام رہے ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ حکومت سنبھالتے ہی ملک کی کایا پلٹ دیں گے۔ لیکن پہلے نو ماہ میں ہی وفاقی کابینہ میں اہم تبدیلیوں نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ حکومت درست سمت میں نہیں جا رہی ورنہ بجٹ سے پہلے وزیر خزانہ اسد عمر کی تبدیلی کی ضرورت نہیں تھی۔
اگر ایمانداری سے ملک کے معاشی حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گزشتہ حکومتوں کے قرضے موجودہ حکومت ادا کرنے کی پابند ہے، جس کی وجہ سے سر منڈاتے ہی اولے پڑنے لگے ہیں اور بھاری بھرکم قرضے کی بھاری بھرکم قسط ادا کرنے کا وقت آ چکا ہے اور اس کی ادائیگی کے لیے حکومت مزید قرض لے رہی ہے۔ دراصل شائستہ مزاج اسد عمر اس مغالطے میں مارے گئے ہیں کہ حکومت میں آنے سے پہلے کی تقریریں عوام بھول چکے ہوں گے لیکن برا ہو موجودہ دور کے میڈیا کا جو کسی کو بھی کچھ بھولنے نہیں دیتا بلکہ منہ پر ہی اس کو ماضی کی باتیں یاد دلا دیتا ہے۔
اس وجہ سے اسد عمر شائد اخلاقی دبائو کا بھی شکار تھے اور انھوں نے عافیت اسی میں جانی کہ موجودہ حالت میں جان چھڑانا ہی سب سے بہتر ہے۔ اسد عمر مشکل وقت گزار گئے ان کے بعد آنے والے وزیر خزانہ کو ورثہ میں وہ کچھ نہیں ملے گا جو اسد عمر کو ملا تھا، بلکہ آنے والا وزیر خزانہ وہیں سے کام شروع کرے گا جہاں سے ان کے پیشرو نے چھوڑا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان آہستہ آہستہ ملکی معاملات کو سمجھ رہے ہیں اور کابینہ میں موجودہ تبدیلیوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجود وزیراعظم کے اقتدار کو کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا، ان کی حکومت چند ووٹوں کے سہارے کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی کیونکہ صدر مملکت کے پاس وزیر اعظم کو برطرف کرنے کا اختیار مدت ہوئی ختم ہو چکا ہے۔ عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں اور ملکی اور بین الاقوامی حالات بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ اس مشکل وقت میں حکومت کو تبدیل کیا جائے۔ جہاں تک کسی عوامی تحریک کا تعلق ہے تو ملک میں کوئی لیڈر ایسا موجود نہیں ہے جس کی آواز پر قوم گلی کوچوں میں نکل آئے۔
ماضی کے سیاستدان حکمران جب سے عوام کے سامنے بے نقاب ہوئے ہیں قوم نے شاید دل ہی دل میں یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ آیندہ سیاستدانوں پر اعتماد کر کے کوئی قربانی نہیں دیں گے۔ گویا قوم نے جماندرو سیاستدانوں سے اعتماد کا ووٹ واپس لے لیا ہے۔ نظر بظاہر عمران خان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن وزیر اعظم کو لاتعداد مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے مسائل جو ان کا اقتدار نہ بھی لے سکیں ان کا سکھ چین ضرور لے سکتے ہیں۔
پاکستانی قوم نے عمران خان کو اس لیے ووٹ دیے تھے کہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ عمران خان کے حکومت سنبھالتے ہی ملک کی معاشی حالت سدھر جائے گی اس لیے ان کے نزدیک ان کا مسیحا عمران خان کی صورت میں موجود تھا جب کہ اس سے پہلے وہ ایک کاروباری سیاستدان میاں نواز شریف کی حکومت بھگت چکے تھے اس لیے ان کے نزدیک تبدیلی سے ان کی حالت سدھرنے کے امکانات موجود تھے۔ قوم نے سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ قوم کس قدر ذہین ہے۔ ہر طرح کی پریشان حالی کے باوجود قوم کی یہ اجتماعی ذہانت پاکستانی تاریخ کے مورخین کو ہمیشہ یاد رہے گی۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک اس اجتماعی ذہانت کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔
کاروباری اور معاشی مسائل حل ہونے کی بجائے روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں اور ہمارے انفرادی اور معاشی مسائل حد سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ڈکیتیاں، خود کشیاں اور رشوت ستانی ان سب کا بہت بڑا سبب ایک ایسی مہنگائی ہے جو قوت برداشت سے باہر ہو چکی ہے۔ معاشی بدحالی اور عالمی قرضوں کے بوجھ تلے دبی حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جو اپنے پائوں پر آپ کلہاڑا چلانے سے بھی بڑھ کر نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب وزیر اعظم نے اپنے آپ کو چند ساتھیوں تک محدود کر لیا ہے، بلکہ ایک خول میں بند کر رکھا ہے اور اس خول کے اندر سے ہی جو احکامات یا پیغامات ملتے ہیں وہ صرف انھی پر عمل کرتے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی جہانبانی کے قابل ذہن کا مالک نہیں۔
وزیر اعظم حصار کا شکار نظر آتے ہیں اور ان پر تازہ ہوا کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ وزیر اعظم اس وقت انتہائی ناسازگار ملکی حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کی نیب زدہ کمزور اپوزیشن اپنے لیے کچھ حاصل نہیں کر پا رہی کیونکہ عوام اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن وہ حکومت کے خلاف فضاء کو سازگار بنانے میں ضرور کامیاب ہو رہی ہے۔ حکومت کے پہلے نو ماہ تک تو عوام نے اپوزیشن کی کسی بات پر کان نہیں دھرے لیکن اب وہ اپوزیشن کے الزامات کو سنتے ہیں اور ان کی باتوں پر توجہ بھی دے رہے ہیں۔
'ہمت مرادں مدد خدا' ایک پرانی کہاوت ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ عمران خان کے معاملے میں یہ درست ثابت نہ ہو۔ بہرکیف جو بھی ہو فی الحال جو کچھ سامنے ہے وہ یہ کہ وزیر اعظم اپنے قریبی ساتھیوں کی کار کردگی سے غیر مطمئن ہیں اور انھوں نے اپنی کابینہ میں تبدیلیاں شروع کر دی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تبدیلیاں واقعی نئے پاکستان کی بنیاد ثابت ہوں۔ وزیر اعظم کی سب سے بڑی طاقت اور خوش قسمتی یہ ہے کہ عوام ان کی ذات پر اعتماد کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کا وزیر اعظم ان کے مسائل حل کرے۔
عوام کو وزیر اعظم سے سب سے بڑی شکایت ان کی عوام سے کے مسائل سے بے خبری کی تھی توقع ہے کہ ان کے تازہ اقدامات سے وہ اب دور ہو گی اور مستقبل کا کوئی راستہ سجھائی دے گا، ایک ایسا راستہ جو نئے پاکستان کی بنیاد بنے گا۔