پرانے دوست
شیخ شکیل سے ملاقات بہت عرصے کے بعدہوئی۔ شکیل کاخاندان کاروبارسے وابستہ ہے
اظہرچوہدری دس بارہ دن پہلے ریٹائرڈ ہوکر لاہور آیا ہے۔وفاقی سیکریٹری انڈسٹریزاس کی آخری تعیناتی تھی۔ اظہر میراکلاس فیلواورپرانادوست ہے۔اس کے والد گرامی، چوہدری فرزندمیرے والدکے ہم نشین تھے۔ بنیادی طورپر یہ دونسلوں پرمحیط تعلقات ہیں۔آج کل کے دورمیں باعزت طورپرسرکاری نوکری سے واپسی بھی نایاب اَمر ہے۔ اس معاملے میں اظہربہت خوش قسمت انسان ہے۔ ہر دم خوش رہنے والا۔ابھی اظہرکادل لاہورمیں نہیں لگتا۔ اسلام آباد زیادہ پسندہے۔
ذہن میں تھاکہ ایک ایسی تقریب منعقدکی جائے، جس میں صرف پرانے دوست بلائیں جائیں۔ قدیم کالفظ بھی استعمال ہوسکتاہے۔کیونکہ لائل پورمیں ڈویژنل پبلک اسکول میں ہم جماعت ہونے کامطلب1960کی دہائی کا ذکرہے۔پچھلی صدی۔بہرحال دوستی جتنی پرانی ہو،اتنی ہی اجلی اوربہترین ہوتی ہے۔اسکول میں بنی ہوئی دوستیاں بے غرض ہوتی ہیں۔ عملی زندگی میں زیادہ ترسماجی تعلقات ہوتے ہیں۔
کافی حدتک غرضوں میں ملفوف مگراصل خوشبو سے عاری۔ارشدچوہدری سے مشورہ کیاکہ کھانارکھاجائے اورکس کس کومدعوکیاجائے؟ بے ساختہ ساجواب دیاکہ صرف اور صرف اسکول کے دوستوں کوزحمت دی جائے۔مشورہ دل کو لگا۔ویسے میں خوش قسمت ہوں۔اسکول،کیڈٹ کالج حسن ابدال،کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج اورپھرسول سروس۔ ہرجگہ مجھے بڑے اعلیٰ ظرف دوست ملے۔سرکاری قافلہ میں ایسے منفی لوگوں سے بھی واسطہ رہاجنہوں نے عملی زندگی میں مجھے نقصان پہنچانے کی بھرپورکوشش کی۔مگرکامیاب نہ ہو پائے۔اس قبیل کے لوگوں سے اپنے آپکو دور رکھتا ہوں۔ ان منفی صفت لوگوں کاذکربہرحال کچھ ماہ بعدضرور کرونگا۔ اس لیے کہ ابھی سرکاری ضابطے کے بندھن میں ہوں۔چھ ماہ بعدیہ بندش بھی ختم ہوجائیگی۔
ہفتہ کی شام کاوقت اوردن مقررہوا۔فیصل آبادسے زاہداسلم،جاویداصغر،شاہدمنیر،ڈاکٹراحسن سلیم،لاہورسے خالد باجوہ،شیخ شکیل،شاہدریاض،احسن خان،کرنل سلیم اور ڈاکٹر احمدکوگزارش کی کہ تشریف لائیں۔ارشدچوہدری دوتین دن سے لاہورمیں ہی تھا۔آپ حیران ہونگے کہ کسی کومدعونہیں کیا۔اس کے برعکس ایک لحاظ سے احتراماًالتجاکی کہ آپ نے ضرور آنا ہے۔اتفاق سے امریکا سے ڈاکٹرعلی حماد بھی آیا ہوا ہے۔اس نے بھی وقت نکالا۔علی حمادامریکا میں دل کا ڈاکٹر ہے اورایک اعلیٰ پایہ کاصوفی شاعربھی ہے۔شکیل احمد ناصر میراقدیم دوست ہے۔لاہورہی میں رہتاہے۔اس نے بھی آنے کی تکلیف گواراکی۔مل جل کے ہم کوئی پندرہ پرانے کلاس فیلواکٹھے ہوگئے۔ایک انتہائی اہم بات تھی کہ کئی دوستوں سے اسکول کے بعدپہلی ملاقات ہورہی تھی۔جیسے کرنل ظفر ابھی فوج سے ریٹائر ہوکر گھر آیا ہے۔پنتالیس برس کے بعد دیکھا۔ بالکل ویسے کا ویساہے جیسے اسکول میں تھا۔ہاں،اب داڑھی رکھ لی ہے۔ بچپن کابھول پن آج بھی چہرے پر ہے۔ ارشدکے مشورہ کے مطابق ڈنرکااہتمام گھرپر رکھا گیا تھا۔
ڈاکٹراحمدسب سے پہلے آیا۔احمدآج کل گنگارام اسپتال میں ڈی ایم ایس ہے اورحیران کن حدتک لائق انسان ہے۔میڈیکل کالج میںانتہائی مشکل کتابوں کوصرف ایک بارپڑھنے سے یادکرلیتاتھا۔پروفیسربھی اس کی ذہانت اور یاداشت سے متاثرتھے۔خیراس کے بعدسب آنے لگے۔ زاہد اسلم اورشیخ شکیل آئے تو مختلف موضوعات پر بحث شروع ہوگئی۔زاہداسلم حددرجہ کامیاب بزنس مین ہے۔کپڑے کی کئی فیکٹریوں کامالک۔اس کی چوتھی نسل اب کاروبارمیں ہے۔فیصل آبادکے چیمبرآف کامرس کاصدربھی رہا۔ حددرجہ سادہ انسان۔کاروباری شخص توہے ہی مگربیوپاری نہیں ہے۔ملک کے معاملات پرایک سنجیدہ رائے رکھتا ہے۔آتے ہی کہنے لگاکہ میں اپنے کچھ کالموں میں جذباتی ہوجاتا ہوں۔درست کہہ رہاتھا۔مگراسکاادراک صرف اور صرف مجھے تھا۔تحریروں میں سے جذبات کوپڑھ لینا غیرمعمولی بات ہے۔عبوری نظام میں زاہداسلم کانام انڈسٹریزکی وزارت کے لیے تجویزکیاگیاتھا۔پھرپتہ نہیں کیاہوا۔ویسے آج بھی وہ ملکی سطح پرصنعت کی ترویح کرنے کے لیے بہترین چوائس ہے۔
شیخ شکیل سے ملاقات بہت عرصے کے بعدہوئی۔ شکیل کاخاندان کاروبارسے وابستہ ہے۔لائل پورسے یہ لوگ کراچی چلے گئے۔دودہائیاں پہلے تمام خاندان لاہور منتقل ہوگیا۔شیخ انتہائی سادہ انسان ہے۔ پاکستان میں کوئی ایسا بڑا کاروبارنہیں جس سے شیخ شکیل منسلک ہونہ ہو۔ ٹیکسٹائل ملز، رئیل اسٹیٹ،پلازے،شوگرملز،فارم ہاؤس، ڈیری فارم۔ شکیل کاخاندان ہرشعبہ میں انتہائی مضبوطی سے موجود ہے۔ سب کچھ ہونے کے باوجوداس کے اندرانکساری ہے۔ حددرجہ خاموش طبع انسان۔اسکول کے بعد کل میں نے اسے کھل کر ہنستے دیکھاتھا۔
فیصل آبادسے شاہد منیر، ڈاکٹر جاوید اصغر اور ڈاکٹر احسن سلیم اکٹھے تشریف لائے۔شاہدمنیربالکل ویساہی ہے۔ جیسا پچھلی صدی میں تھا۔ خوشگوار شخصیت۔ بتا رہا تھا کہ فیصل آباد میں پراپرٹی کاکام کررہاہے۔عمرنے اس کے چہرے پرکوئی منفی اثرات نہیں چھوڑے۔وہی بچپن کے نقوش اورمسکراتی آنکھیں۔ڈاکٹراحسن سلیم،فیصل آبادکے کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ کاروح رواں ہے۔حددرجہ شائستہ انسان۔ سائنس کی دنیاکاشہسوار،مگرزندگی کوپڑھنے کاشوق بھی اسی درجہ کا ہے۔
ڈاکٹراحسن سلیم کی والدہ اورمیری والدہ قریبی سہیلیاں تھیں۔احسن ویسے خاموش طبع انسان ہے۔ انسانی دل کے معاملات کواچھی طرح سمجھنے والاڈاکٹر۔فطرت ایسی ہے کہ اس کے ہاتھ اورزبان سے کبھی کسی کوتکلیف پہنچتے نہیں دیکھا اورنہ ہی سنا۔ڈاکٹرجاویداصغر،سراپازندگی کی علامت ہے۔ چہرے پروہی شرارت ہے جوآج سے پنتالیس برس پہلے تھی۔برجستہ جملے اورشرارت آمیزادائیگی سے وہ سنجیدہ سے سنجیدہ محفل کو گل وگلزار کرسکتاہے۔کل بھی ایسے ہی ہوا۔ ہم سب موجودہ صورتحال پرثقیل گفتگوکررہے تھے، جاوید اصغر نے زورسے کہاکہ جس دن سے پیداہواہے،ملک کے حالات ایک جیسے ہی ہیں۔ایک فقرے سے محفل کارنگ بدل گیا۔
ڈاکٹراحسن خان سے ملاقات بہت عرصے بعد ہوئی۔ لاہورڈیفنس میں رہتاہے۔کبھی پاکستان میں پریکٹس شروع کر دیتاہے اورکبھی لندن میں۔لاہورآکرہجوم میں گم ساہوگیا ہے۔ لاہورایک بڑا شہر ہے ،اکثراپنے مکینوں کو تنہا کر دیتا ہے۔ڈیڑھ کروڑکے اس شہرمیں متعدد بارانسان اجنبی سا ہوجاتا ہے۔ احسن کے ساتھ بھی شائدیہی ہواہے۔کافی حد تک میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہواہے۔متعددباراکیلے پن کا احساس ہوتا ہے۔جیسے جیسے بڑھاپاچھارہاہے،تنہائی کا احساس بھی حددرجہ بڑھتاجارہاہے۔خالدباجوہ بھی مقرر وقت پرپہنچ گیا۔ وہ میرے بچپن کادوست ہے۔زندگی کی تمام مسافتوں میں ساتھ رہاہے۔ اپنی شخصیت میں حددجہ رعب دبدبہ والاا نسان نظرآتاہے۔لگتاہے ابھی کسی آئینی عہدہ کاحلف اُٹھا کرآرہاہے۔ ہرایک کے بھلے اورفائدے سے خوشی محسوس کرنے والاآدمی۔ زمیندارااورکاروباردونوں میں حددرجہ مصروف ہے۔علاقائی سیاست میں نہ چاہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی طرح ملوث ہوجاتاہے۔
اظہرچوہدری کومیراگھرنہیں مل رہاتھا۔ویسے ہمارے ہاں،نئی آبادیاں بھی ترتیب سے نہیں بنیں۔پہلی بارآنے والے شخص کو دقت کاسامناکرناپڑتاہے۔ریٹائرہونے کے بعداظہرحددرجہ مطمئن نظرآرہاتھا۔بہت سے سرکاری افسروں کا جانتاہوں جوریٹائرمنٹ کے بعد بجھ سے جاتے ہیں۔ اظہران سے مختلف ہے۔ورزش کرتاہے اورخوش رہتا ہے۔ جس عزت سے وہ اسلام آبادسے واپس آیاہے،وہ بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتی ہے۔محفلی اورہنسنے کھیلنے والا آدمی۔ بیوروکریسی کے منفی رویے سے کوسوں دور۔اظہرسے پہلے، شکیل احمد ناصر آچکاتھا۔شکیل میرے بچپن کادوست ہے۔ سرکاری نوکری سے استعفیٰ دیکربھرپورزندگی گزار رہا ہے۔ کمال انسان ہے۔ منافقت سے دور۔اسکاخاصہ ہے کہ سنجیدہ سے سنجیدہ تقریب کوبھی کشتِ زعفران بنادیتا ہے۔ کل اس نے بچپن اورجوانی کے قصے اس قدرخالص طریقے سے بیان کیے کہ ہربندہ ہنس ہنس کے دوہراہوگیا۔شکیل کے والدگرامی،چوہدری تاج محمدبھی جج تھے اورمیرے والدکے قریبی دوستوں میں سے تھے۔عرض اپنے اپنے شعبوں میںیہ تمام لوگ حددرجہ کامیاب ہیں۔بچپن ہمیں ایک ساتھ گوندکی طرح جوڑدیتاہے۔
کھانے سے پہلے بہرحال ملکی حالات پربھرپوربحث ہوتی رہی۔ایک بات جو بطورخاص نوٹ کی کہ تمام لوگ اپنی سیاسی وابستگیوں سے اوپراُٹھ کرملک کے مستقبل کو بہتر کرنے کے متعلق بات کررہے تھے۔سوچ اوربحث میں متانت تھی۔یہ معمولی بات نہیں۔ہرشخص اپناذہن کھل کر سامنے لارہاتھا۔کسی بھی سیاسی دیوتاکی غلامی کے بغیر۔ بحث اس قدرمدلل اورغیرجذباتی تھی کہ اصل مسائل کاحل بھی تجویزہورہاتھا۔کس طرح ملک کی معیشت درست کرنی ہے۔کس طرح عام لوگوں کے مسائل حل کرنے ہیں۔کس طرح ہمسایہ ملکوں سے اپنے قومی مفادمیں بہترتعلق رکھنے چاہیے۔عمرکے پختہ حصے میں مسائل کوپہچاننے کے بعد حل تجویزکرناغیرمعمولی اَمرہے۔ہم سارادن صرف اور صرف مسائل پرہی بحث کرتے رہتے ہیں۔طویل اور لایعنی بحث، کسی بھی منطقی انجام کے بغیر۔
شام کیسے رات میں ڈھل گئی اورنصف شب کیسے آگئی۔معلوم ہی نہ ہوپایا۔ایسے لگاکہ کسی نے ہم سب کے لیے وقت کودوبارہ پانچ دہائیاں پہلے جیسابنادیاہے۔ سوچتاہوں کہ پرانے دوست کس درجہ بڑی نعمت ہیں۔زندگی کودوبارہ معنی دے دیتے ہیں۔نئی حرارت اورخالص سوچ!