شیدی بادشاہ ایک تاریخ سازحقیقت

[email protected]


Shabbir Ahmed Arman April 22, 2019
[email protected]

گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں شیدی محمد یعقوب قمبرانی اور علامہ آغا محمد قمبرانی کی مشترکہ تصنیف ( شیدی بادشاہ ، ایک تاریخ سازحقیقت ) کی تقریب رونمائی ہوئی ۔ 168صفحات پرمشتمل یہ کتاب 28عنوانات پر مبنی ہے ۔ ہر عنوان اپنے اندر بیش بہا معلومات کا خزانہ ہے ۔ مرکزی ادارہ نشرواشاعت ، پاکستان شیدی اتحاد اس کتاب کے ناشر ہے ۔ یہ کتاب یقینا پاکستان شیدی اتحاد کا کارنامہ ثابت ہوگا جس کے دامن میں سیاہ فام تاریخ سے متعلق بہت کچھ ہے۔ یوں تو شیدی قبیلے کے متعلق بہت سی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں لیکن شیدی بادشاہ اپنے موضوع سیاہ فام نسل کا تاریخی و تحقیقی جائزہ کے حوالے سے ایک منفرد کتاب ہے جس میں بنی نوع انسان کی ابتداء و ارتقاء سے لے کر شیدی قبیلے کی شجرہ ، اسلامی تاریخی حوالوں سے بیان کیا گیا ہے اس اعتبار سے یہ غالبا پہلی کتاب ہے جس میں شیدی قبیلے کے اسلامی تاریخ کو اجاگر کیا گیا ہے جو کہ قابل ستائش ہے ۔

مصنف کتاب کے صفحہ نمبر 22 میں عنوان : ابوالبشری کے اسباب اور سیاہ فام نسل کی ابتدا ء میں لکھتے ہیںکہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تمام اولاد طوفان نوح میں نبی العصرکی نافرمانی کی وجہ سے غرق ہوگئی ۔ باقی 72اور بعض روایات کے مطابق 80 افراد بچ گئے تھے ۔ اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کو ابوالبشر ثانی کے القاب و امتیاز سے نوازا تھا اور رنگ و نسل کے ساتھ آبادکرنا مقصود تھا ، جس کے بعد انسان کا معیار و فضیلت کا تاج فقط ایمان و تقویٰ کو ہی قرار دیا جانا تھا ۔

روایت ہے کہ ایک دن حضرت نوح علیہ السلام اپنے سفینے میں آرام فرما رہے تھے کہ ہوا کا جھونکا آیا اور ستر سے کپڑا ہٹ گیا ۔ یہ دیکھ کر ان کے فرزند حام اور یافث ہنسنے لگے ۔ تیسرے بھائی سام نے انھیں جھڑکا اور منع کیا ۔ اتنے میں حضرت کی آنکھ کھل گئی اور ان دونوں کے ہنسنے کا سبب معلوم کیا تو سام نے سب واقعہ بتایا ۔ یہ سن کر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور یہ دعا کرنے لگے کہ پروردگار ! حام کے صلب کے پانی کو ایسا بدل دے کہ اس سے صرف شیدی (سوڈانی، حبشی، سیاہ فام ) نسل پیدا ہوں اور یافث کے صلب پانی کو بھی متغیرکردے جس سے ترک و سقالبہ و یا جوج و ماجوج اور چینی نسل پیدا ہوں ۔

مصنف لکھتے ہیں کہ ہم اہل علم کے لیے کتاب کا حوالہ بھی دے چکے ہیں کہ دنیا میں جہاں بھی سیاہ فام ، شیدی ، حبشی ، سوڈانی ، افریقن ، امریکن ، کنعانی ، مصری ، یمنی ، لیبیائی ، تنزاین رہتے ہیں وہ حام بن نوح کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شیدی ایک حقیقت کے عنوان سے مصنفین لکھتے ہیں کہ حبشہ جسے موجودہ دور میں افریقہ کہا اور جانا جاتا ہے ، جہاں اسلامی اثرات کی واضح نشانی عربی زبان ہے ۔ براعظم افریقہ میں تقریبا ۵۴ ممالک ہیں جہاں کافی زبانیں سوالی ، سواحلی اور عربی ہے جناب ام ایمن حبشیہ ، حضرت بلال بن رباح ،حضرت فتحہ نوبی المعروف جناب قمبر ، حضرت میمونہ نوبیہ المعروف جناب فضہ ، حضرت بی بی ہاجرہ علیہا السلام زوجہ ابراہیم خلیل اللہ کا تعلق بھی سیاہ فام نسل سے ہے ۔

مصنف شیدی محمد یعقوب قمبرانی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ اس خطے میں موجود ہماری سیاہ فام نسل کے لوگوں کو یہاں شیدی ، ڈاڈا بھی کہتے ہیں ۔اس بارے میں مختلف لوگوں کے مختلف خیالات پائے جاتے ہیں ، جو زیادہ تر مفروضے پر قائم ہیں ، جن کے بارے میں عام آدمی تو کیا ، بہت سے مشہور تاریخ داں بھی کچھ نہیں جانتے ۔ بہت ہی کم افراد یہ جانتے ہیں کہ ان کے درمیان منفرد نظر آنے والے یہ لوگ (شیدی ) اپنی تہذیب ، اپنی ثقافت اور اپنی ایک مضبوط پہچان رکھتے ہیں ۔

ہم یہ مانتے ہیں کہ غلامی کا دور اوائلی دنوں میں بلا تفریق اپنے عروج پہ تھا ، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ انفرادی طور اس کا شکار رہے ۔ ان میں شیدی ہی فقط نہیں اور بھی قبائل وافراد لپیٹے میں آئے ہیں ۔اگر شیدی قبائلی اختلافات نہ رکھتا تو دنیا کی کوئی بھی طاقت افریقہ کی سر زمین پر قدم تک نہیں رکھ سکتی تھی ۔ہم (شیدی ) اپنوں کے ستم کے مارے ہیں ، لیکن ہم نے کسی سے اس کا تذکرہ نہیں کیا تھا جو اب کرنا ضرورت ہے۔ بد حالی اور معاشی تنگ دستی نے شیدی کے ارد گرد ڈیرے ڈالے ہوئے تھے ، اس پر متعصبانہ رویے جاری تھے ہمارے بزرگوں کی قوی امید اپنے باصلاحیت نوجوانوں سے وابستہ تھی کہ جو اورکچھ نہیں کم از کم اس تذلیلانہ رویے سے نجات کا ذریعہ بنیں گے ۔

ہم نے ان کی آنکھوں میں جو کرب و اضطراب اور بے چینی دیکھی ، یعنی جو متلاشی تھے کسی ایسے رہبر اور سچے ہمدرد کے جو آنے والی نسل کی بقاء اور بہتر مستقبل کی نوید ہو ، جو روح کے زخموں پہ محبت کا مرہم لگا سکے ، جو معاشی ، سماجی ، سیاسی اور فکری درجہ بندی اور وقتی ماحول کا غلام نہ ہو ، جسے اپنی نسل سے دیوانہ وار محبت ہو ۔ وہ بزرگان اپنے بڑوں سے سنے ہوئے حالات و واقعات کا تذکرہ اپنے نونہال سے فکر وعمل سے بچوں سے بڑے چاہ سے کرتے تھے ۔ہر صنف میں وہ ماہر اور ہر فن مولا تھے ۔ یہ وہ تاریخ ساز لوگ تھے جو اپنے سینوں میں کئی راز سمیٹے ہوئے دنیا کو خیر باد کہہ گئے ۔ ہم نے جو ان سے سبق لیا ، اسے اس کتاب کے ذریعے اپنے نوجوانوں اور دنیا کے آگے بغیرکسی خوف کے پیش کررہے ہیں ۔

مصنّفین شیدی ایک حقیقت میں لکھتے ہیں ہیں کہ شیدیوں کے بارے میں تاریخ دانوں کا نقطہ نظرکئی تضادوں کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے ۔ اکثر محققوں نے اس خطہ کی تاریخ سے روایتی استفادہ حاصل کیا ، جو تاریخ سے سراسر ناانصافی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس دور کا پڑھنے والا انسانی ارتقاء کی تاریخ میں دلچپسی رکھنے کے باجود بھی اپنے تجسس کی پیاس پوری طرح سے نہیں بجھا سکا ہے ۔ شیدی وسیاہ فام نسل نے دنیا کے اندر نہایت تعصب و استحصال کے کربناک لمحے اپنی روح میں سمائے ۔ تاریخ کا یہ انتہائی مشکل سفر بڑے صبر و استقلال سے طے کیا ہے ۔ شیدی کی ارتقاء حام بن نوح علیہاالسلام سے منسوب ہے ۔ جبکہ حام بن نوح کی مزار گجرات قدیم قبرستان ( پنڈدادن خان ) پاکستان میں آج بھی موجود ہے اور دنیا میں کالی نسل کا تعلق حام نسل سے ہی ہے ، جن میں سیاہ فام شیدی ، حبشی ، سوڈانی اور مشترکہ کالے رنگت والا انسانی حلقہ مرکب یا اصل سر فہرست ہیں ، حضرت نوح کا ابو البشر ثانی کی فضیلت کا اولاد نسل انسانی رنگتوں میں تبدیل ہونا ایک امتیاز ہے ۔

کتاب میں شیدی میلہ کے عنوان سے لکھا ہے کہ کراچی میں شیدی برادری کی پانچ برادریوں کی پانچ جماعتیں ہیں اور برادری ایک ہی ہے اور یہ پانچوں ہی جماعتیں سلسلہ غوریہ سے وابستہ ہیں جن کے پانچ مکان ہیں ۔ مکان اصل میں صوفیائے کرام کے آستان ہیں ،جنھیں ہم مکان کہتے ہیں ، جہاں ہم مخصوص دنوں میں بابا غورکے عرس کی تقریبات مناتے ہیں اور منگھو پیر کا سالانہ شیدی میلہ بھی یہی پانچ جماعتیں مل کر مناتی ہیں ۔ جس میں سندھ اور بلوچستان سے شیدی افراد بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں ۔ اس عرس کی تقریبات سات دن تک ہوتی ہیں جس میں شیدی دھمال کا اہتمام بھرپور انداز میں کیا جاتا ہے ۔ دیکھا جائے تو یہ میلہ شیدی رسومات کا مجموعہ ہے ۔

اس میں تمام رسوم غور یہ سلسلے کی ہوتی ہیں جبکہ اسے موسمی میلہ بھی کہتے ہیں ، وہ یوں کہ قدیم دور میں جب کھجورکی فصل پک جاتی تھی توہمارے ( شیدی ) لوگ اس میلے کا اہتمام کرتے تھے ۔ موجودہ دور میں شیدی برادری کی چار بڑی جماعتیں اس میلے کا اہتمام کرتی ہیںجن میں کھارادر شیدی جماعت ، لاسی شیدی جماعت ، حیدرآباد شیدی جماعت اور بیلارا شیدی جماعت شامل ہیں ۔ ان تمام جماعتوں کو متحد کرکے ایک پنچ شیدی جماعت بنائی گئی ہے جسے کمبائن شیدی جماعت کا نام دیا گیا ہے اور اس کی ذمے داری میں منگھوپیرکا سالانہ عرس بھی شامل کیا گیا ہے ۔ الغرض یہ کہ شیدی بادشاہ ایک معلوماتی کتاب ہے جس میں شیدی برادری کے متعلق بیش بہا معلومات ہیںاو ر شیدی قبیلے کے حوالے سے بعض مشہور مفرضوں کو رد بھی کرتی ہے جو کتاب کی انفرادیت کو اجاگر کرتی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔