کالی بلّی سے دیوار پر بیٹھے کوے تک

آپ کا وہم اور ضعیف الاعتقادی دوسروں کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے


آپ کا وہم اور ضعیف الاعتقادی دوسروں کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: ''علی، اب ہم نہیں جائیں گے ڈنر پر، کالی بلی راستہ کاٹ گئی ہے، گھر واپس چلو۔ ورنہ کوئی بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔''
''ہادیہ، تم نے کالے رنگ کا لباس پہن لیا۔ پاگل تو نہیں ہوگئیں۔ یہ تو خوشی کا موقع ہے۔''

''سلمیٰ تم کو تو ذرا عقل نہیں۔ بھائی ابھی گھر سے نکلا ہے اور تم جھاڑو پھیرنے لگیں، کسی کے گھر سے نکلتے ہی جھاڑو نہیں دیتے، اس طرح جانے والے کی جان کو خطرہ ہو جاتا ہے۔''

''امی میری دائیں آنکھ کل سے پھڑک رہی ہے۔ پتا نہیں کیا مصیبت آنے والی ہے، خدا خیر کرے۔''

یہ چند جملے ہمارے معاشرے میں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کی عام مثال ہیں۔ خصوصاً عورتوں میں توہم پرستی اور بدشگونی عام ہے بلکہ یہ ایک قسم کی ذہنی بیماری سے کم نہیں۔ جاہل یا بے شعور ہی نہیں پڑھی لکھی عورتیں بھی ایسی باتیں کرتی ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت سے دور اور محض ذہنی اختراع ہوسکتی ہے جسے مسترد کرنے اور ایسے ہر عمل کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ ایسی غیرمنطقی اور بے سر و پا باتیں بعض اوقات نہایت تکلیف دہ اور سنگین صورتِ حال بھی پیدا کر دیتی ہیں اور ایسے واقعات قارئین کے بھی علم میں ہوں گے۔

کالی بلی کا سامنے سے گزر جانا، کوے کا منڈیر پر آنا، گھر کے کسی فرد کے سفر پر جانے کے بعد جھاڑو نکالنا، مخصوص دن کپڑا کاٹنے کی ممانعت اور اس طرح کی بہت سی باتیں بدشگونی تصور کی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ ہتھیلی یا تلوے میں خارش، آنکھ کا پھڑکنا، مخصوص مہینوں اور دنوں کے بارے میں نحوست کا تصور، مخصوص رنگ کا لباس خوشی کے کسی موقع پر پہننا بھی مسئلہ بن جاتا ہے۔

عموماً کالی بلی کا راستے میں آجانا یا کسی کو سفر پر نکلنے کے بعد پیچھے سے پکارنا بہت زیادہ بدشگونی کی علامت سمجھا جاتا ہے، اور اس کو کام کے بگڑنے کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ دور جہالت میں پرندوں پر بہت زیادہ اعتماد کیا جاتا تھا اور اسی طرح کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر فال نکالنا، قرعہ ڈالنا اور تیر پھینکنے کے رواج عام تھے۔ آج کے دور میں بھی چیزوں کے الٹ پھیر بدل گئے ہیں، لیکن اب بھی لو گ بہت ساری چیزوں میں توہمات کا شکار ہیں اور بد شگونی کے قائل ہیں۔

ہتھیلی میں خارش ہونا دولت آنے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح تلوے میں خارش ہونا سفر درپیش ہونے کی علامت گردانا جاتا ہے۔ کسی مخصوص چیز کا نام لینا جیسے الو،کھاٹ وغیرہ کے الفاظ کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ دائیں آنکھ کا پھڑکنا مصیبت اور بائیں آنکھ کا پھڑکنا خوشی کی علامت تصور کرتے ہیں۔

مخصوص مہینوں اور دنوں کو بہت اس حوالے سے بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگ مخصوص دن یا مہینے کو مبارک اور منحوس سمجھ کر اپنی کوئی بھی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض مخصوص دنوں یا مہینے میں خصوصاً شادی کرنے پر کہا جاتا ہے کہ وہ کام یاب نہیں ہوگی۔ اسی طرح مخصوص اعداد سے بھی قسمت کو جوڑا جاتا ہے اور اسی کے مطابق مختلف کام انجام دیے جاتے ہیں۔ کسی خوشی کی تقریب کے لیے تاریخ کے چناؤ میں احتیاط کی جاتی ہے۔

مکمل کالے اور سفید رنگ کے ملبوسات زیب تن کرنے کے حوالے سے بھی ہم توہم پرست واقع ہوئے ہیں۔ رنگوں کو بھی غم، پریشانی اور فقر کی علامت اور خوش بختی یا نحوست کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اسی طرح بعض گھرانوں میں کسی کے اچانک آنے سے ذہنوں میں نقصان اور پریشانی کے خدشات ابھر آتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ نئی نویلی دلہن کے آنے کے فورا بعد کوئی نقصان یا پریشانی گھر میں ہوجائے تو اس بیچاری کو ''زرد قدم'' کہہ دیا جاتا ہے اور پھر ساری عمر وہ اسے بھگتتی رہتی ہے۔ اسی طرح بعض گھرانوں میں پرندے اور جانور پالنے سے متعلق بھی عجیب و غریب باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ یہ جانور اور پرندے کسی کو منحوس تو کسی کی نظر میں کوئی خوش بختی کی علامت ہوتے ہیں۔ نئی جگہ رہائش کے سلسلے میں بھی لوگ خصوصاً عورتیں وہم کا شکار نظر آتی ہیں۔ اگر نئے گھر میں کسی نوعیت کا کوئی مسئلہ، حادثہ پیش آ گیا تو گھر بدلنے میں دیر نہیں کی جاتی۔

کوئی چیز، شخص اور جگہ وغیرہ بخت آور یا منحوس ہوسکتی ہے یا نہیں، لیکن یہ ضرور طے ہے کہ اگر ہمارا ایمان اور اپنی ذات پر بھروسا کم ہو تو ایسی ہی باتیں سوجھتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب انسان کے لیے جدید ذرایع اور وسائل نہ تھے، عقل کے بجائے وہ کہانیوں، من گھڑت باتوں اور ماورائی یا اساطیر سے بہت متاثر ہوتا تھا، لیکن آج سائنس کے میدان میں ترقی کے بعد ہر ذی شعور اپنی عقل اور شعور سے کام لے تو ایسی بہت سی خرافات اور فضولیات سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے جس سے نہ صرف ہم بلکہ ہمارے وہمی ہونے کی وجہ سے دوسرے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔