حکمرانوں کی اہلیت پر اُٹھتے ہوئے سوالات
خان صاحب کی اب تک کی کارکردگی سے یہ نتیجہ باآسانی اخذکیاجاسکتاہے کہ اُن کانہ کوئی وژن ہے اور نہ کوئی لائحہ عمل۔
یہ بات تو اب طے ہوچکی ہے کہ بائیس سال سے کرپٹ سسٹم کے خلاف جدوجہد کا دعویٰ کرنے والے ہمارے کپتان کا نہ کوئی وژن ہے، نہ کوئی منشور ہے اور نہ کوئی مستقل لائحہ عمل۔وہ صرف حالات اوروقت کے بہاؤ میں بہہ جانے والاایسا سیلابی ریلا ہے جس کی کوئی منزل اور راہ متعین نہیں ہے۔صاف ستھری سیاست اور ملکی سسٹم کو بدلنے کی اُسکی ساری باتیں ایسا لگتا ہے کسی مجذوب کی بڑ تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہواؤں میں تحلیل ہوکر رہ گئیں۔
اقتدار ملتے ہی اُس نے اُن ساری باتوں سے انحراف شروع کردیا جن کو وہ اپنا سرمایہ حیات سمجھ کرخود کو قوم کے سامنے ایک مسیحا اور تبدیلی کا پیکربناکر پیش کیاکرتا تھا۔ 1996ء میںسیاست میں آمد کے بعداُس نے کسی دوسری سیاسی پارٹی کے افراد کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے سے اِس لیے انکارکیا کہ وہ صرف نیک اور صاف ستھرے لوگوں پر مشتمل پارٹی بنانا چاہتا ہے۔ وہ اِس وجہ سے گرچہ انتخابی سیاست میں مسلسل ناکام بھی ہوتا رہا لیکن اُس نے اپنا یہ اُصول نہیں چھوڑا۔
پھرنجانے کیا ہوا کہ2011ء میں اچانک کسی غیبی قوت کے اشارے پر اُس نے اپنا یہ اُصول اور طریقہ کار پس پشت ڈال کر انتخابی سیاست کے مروجہ سسٹم کے سانچے میں خود کو ڈھالنا شروع کردیا اور اُن تمام افراد کو اپنی پارٹی میں بھرناشروع کردیا جو اپنی سابقہ سیاسی پارٹی کی قیادت سے کسی بات پر نالاں تھے یا پارٹی کی قیادت نے انھیں دھتکار دیاتھا۔
رفتہ رفتہ انھوں نے اُن تمام چوہدریوں، وڈیروں، سرداروں اور سرمایہ داروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیا جن کے خلاف جدوجہد کرنے کا علم بلندکرکے وہ میدان سیاست میں کود پڑاتھا۔وہ سارے لوگ اب اُسے اچھے اورپیارے لگنے لگے تھے۔اپنے اِس بدلتے طرزعمل کو یہ کہ کر دلاسہ دینے لگا کہ یہ لوگ الیکشن لڑنے کی سائنس جانتے ہیںقطع نظر اِس کے کہ وہ سیاست کے اُس گندے جوہڑ کی سائنس کاتجربہ رکھتے تھے جنکے خلاف لڑتے ہوئے ہمارے کپتان نے اپنے گزشتہ بیس سال ضایع کرڈالے تھے۔ اقتدار کی سیاست کے لیے اُس نے ہر اُس شخص سے سمجھوتہ کرلیا جن کو وہ خود غرض اور مفاد پرست سیاست کا ماہر تصور کیاکرتا تھا۔
پارٹی کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی اور یہ ضرورت جس نے بھی پوری کی پارٹی میں اُس کو اہم اوربلند مقام ملنے لگا۔ پارٹی کے پرانے مخلص اوروفادار کارکن پیچھے ہوتے گئے ۔نئے مالدار اور مفاد پرست لوگوں کاپارٹی اور خود کپتان پر غلبہ ہونے لگا۔کسی نے درست کہاہے کہ خان صاحب کی اپنی جیب تو خالی کی خالی ہی رہی لیکن اُن کے دونوں ہاتھ دوسروں کی جیب میں ضرور پڑے رہے۔علیم خان اور جہانگیر ترین کو پارٹی میں آج بھی اِسی لیے سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ وہ کپتان کے ایک اشارے پر اپنی تجوریوں کے منہ مبینہ طور پر کھول دیتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ وہ اپنا دیا ہوا پیسہ کسی اور ذرایع سے دوبارہ حاصل بھی کرلیتے ہیں۔خان کو اِس سے کوئی سروکار نہیں کہ انھوں نے یہ پیسہ کہاں سے حاصل کیا۔ وہ تو بس یہ جانتے ہیں کہ یہ دونوں افراد پارٹی کے مالی معاملات بخوبی چلارہے ہیں۔
ڈی چوک کے دھرنے والے دنوں میں اور الیکشن مہم کے دوران کپتان نے جتنی باتیں کی تھیں اقتدار ملتے ہی سب کی نفی کرڈالی۔غیروں سے قرضے نہ لینے اور آئی ایم ایف کے پاؤں نے پڑنے کے جوبلند بالا دعوے کیے تھے سب کے سب رفع دفع ہوگئے۔اب نہ وہ غیرت، خودداری اورانا کی باتیں ہیں اور نہ وہ شرم و حیا کااحساس۔بلکہ قرضہ مل جانے کی صورت میں ٹی وی پر آکر قوم کوانتہائی ڈھٹائی کے ساتھ خوش خبریاں سنائی جاتی ہیں۔اسد عمر صاحب جو خان کی پارٹی میں سب سے قابل اور ذہین آدمی تصور کیے جاتے تھے انھیں جس طرح صرف آٹھ مہینوں میں اپنے سے الگ کردیا وہ بھی خان کی اُس سوچ کی واضح نشاندہی کرتی ہے جس سے باہر نکلنااب خان کے بس کی بات نہیں۔کہاجاتا ہے کہ اسد عمر کو ہٹانے میں درپردہ ہمارے فیوڈلز کا بہت بڑا رول اورکردار شامل رہا ہے۔
اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارٹی اورخود خان کے ذہن اور اعصاب پر کون سا بڑا زمیندار اور سرمایہ دار ہمیشہ سے سواررہا ہے اور جس کے مشورہ کے بغیر خان کوئی بھی بڑا کام نہیں کرتے۔اسد عمر کو اُن کے عہدے سے ہٹانا کوئی چھوٹا اور معمولی قدم نہیں تھا۔خان نے یہ فیصلہ یقینا مجبورا ًاوربادل نخواستہ ہی کیاہوگا۔اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ خان کتنا مضبوط اور ثابت قدم شخص ہے۔اُن کے مضبوط ہونے اور ڈٹ جانے کی ساری باتیں محض خیالی اورطلسماتی ہی ہیں۔ حقیقت سے اُن کاکوئی واسطہ نہیں ہے۔وہ اپنی کہی کسی بات سے کب مکر جائیں یایوٹرن لے لیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ اب انتہائی ناقابل اعتبار شخص بن چکے ہیں۔باعث حیرت ہے کہ اپنی اِس بے اعتباری کو بھی وہ قابلیت اور لیاقت سے تشبیہ دیتے ہیں۔
جوشخص جتنا بڑا یوٹرن لے اُن کے نظر میں وہ اُتنا ہی بڑا قابل اورکامیاب شخص ہے۔ یہ تھیوری اور فلسفہ شاید ہی دنیا میں کسی اور نے دیا ہوگا۔یہ ہمارے کپتان ہی کا خاصہ ہے کہ جن جن لوگوں کو انھوں نے اپنے دوراقتدار کے ابتدائی دنوں میں چن چن کر بڑی بڑی وزارتوں پرلگایاتھا آج انھیں نالائق اور نااہل قراردیکر نکال باہر بھی کررہے ہیں۔ اُن کے بقول جو وزیر کارکردگی نہیں دکھائے گا وزارت سے علیحدہ کردیا جائے گا۔یہ اور بات ہے کہ اقتدار کے سو دن پورے ہونے پراِنہی لوگوں کو انھوں نے امتیازی نمبر دیکر نہ صرف پاس کیاتھا بلکہ شاباشی اورقابل ستائش جیسے جملوں سے نوازا بھی تھا۔ ہماری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ وہ سارے کے سارے آج اگر غلط اور نااہل ہونے لگے ہیں تواُن کا انتخاب کرنے والا کیونکر غلط اور نااہل نہیں قرار نہیںدیاجاسکتا۔
خان صاحب کی اب تک کی کارکردگی سے یہ نتیجہ باآسانی اخذکیاجاسکتاہے کہ اُن کانہ کوئی وژن ہے اور نہ کوئی لائحہ عمل۔ نااہلوں اور نالائقوں کا ایک بہت بڑا گروہ انھوں نے اپنے گرد جمع کرلیا ہے۔جن سے کام لینا تو کجا جان چھڑانا بھی ممکن نہیں۔بیٹنگ آرڈر بدلنے کی باتیں کرکے وہ قوم کو بظاہر دلاسہ دے رہے ہوتے ہیں لیکن دراصل وہ اپنی نااہلی اور نالائقی پر پردہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔شروع شروع میں تو مسائل کے حل نہ ہونے کا الزام وہ سابقہ حکومتوں پرڈالتے رہے لیکن اب چونکہ یہ منجن زیادہ دنوںتک نہیں بک سکتا تھالہٰذا وزیروں کے بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنے کی باتیں کر کے اپنی خفت چھپارہے ہوتے ہیں۔اُن کی مشکل یہ ہے کہ اُن کے پاس کوئی ایک بھی ایسا قابل اور ہنر مند شخص نہیں ہے جس پر اعتبار کرکے وہ بلاخوف و خطروزیربناسکیں۔
اُن کے انمول ہیروں میں سے سب سے اہم اور قابل سمجھاجانے والاشخص اسد عمر ہی جب ناکام ہوگیا تو اب کون سے ہیرا ایسا بچا ہے جسے وہ کسی اہم عہدے پرلگاپائیں۔پارٹی کا اثاثہ سمجھے جانے والے سارے لوگ تو اناڑی اور غیر سنجیدہ قسم کے لوگ ہیں۔
انھیں حکومتی امورسے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ وہ سارے کے سارے کھلنڈر اوربچگانہ سیاست کے امین ہیں۔اُن سے کوئی اہم اورذمے دارانہ کام نہیں ہوپاتا۔ وہ ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے مخالفوں کو تو لتاڑ سکتے ہیں لیکن ملک کو معاشی بحران اوردیگر مشکلات سے باہرنہیں نکال سکتے۔ اُن کے تربیت ہی ایسی ہوئی ہے کہ وہ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگاکرصرف اپوزیشن ہی کو قابومیں کیے رکھیں۔اِس کے علاوہ کوئی اور کام اُن سے نہیں ہوسکتا۔
خود خان الیکشن ہونے تک اِس ذمے داری کے لیے ہرگز تیارنہ تھا۔ اُسے قطعاً پتہ نہیں تھا کہ اقتدار اُس کی جھولی میں اِس طرح اچانک ڈال دیا جائے گا۔لہٰذا جس مشکل سے وہ اوراُن کی پارٹی آج دوچار ہے۔اُس کے ذمے دار وہ خود بھی ہیں اوروہ قوتیں جنہوں نے انھیں اقتدار دلایا ہے۔خان کو یہ منصب دلانے والوں کو شاید یہ زعم ہے کہ جس طرح انھوں نے میاں نواز شریف کو فارغ کردیا تھاکچھ دنوں بعد اِس وزیراعظم کو بھی فارغ کردینگے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ 2017ء سے چلائی جانے والی اِس سیاسی کشمکش اور انتقامی کارروائی کا خمیازہ ہمارایہ ملک اگلی کئی دہائیوں تک بھگتتارہے گا۔