بھارت کے بہیمانہ خواب
پاکستان کی بہادر افواج کی موجودگی میں بھارتی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے۔
جنوبی ایشیا کی بدقسمتی ہے کہ خطے کے دو اہم ممالک پاکستان اور بھارت پڑوسی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے قابل اعتماد دوست نہ بن سکے۔ انگریزوں سے آزادی حاصل کیے 6 دہائیاں گزر گئیں اس دوران دونوں ممالک ایک سے زائد بار جنگی میدان میں بھی اپنی طاقت آزما چکے ہیں پاکستان کو اپنے ایک بازو کے کٹ جانے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا جب کہ بھارت اپنی فوجی قوت میں مسلسل اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ اپنی حربی طاقت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی دھمکیاں دینا بھارت کی عسکری و سول قیادت کا معمول رہا ہے۔ 13 دسمبر 2001 کو جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کیے گئے تو بھارتی حکمرانوں نے اپنے روایتی انداز میں اس کا سارا الزام نہ صرف پاکستان کے سر تھوپ دیا بلکہ اپنی فوج کی بھاری تعداد کو سرحدوں پر لا کر جنگ کی سی کیفیت بھی پیدا کر دی۔ پھر عالمی برادری کے دباؤ پر بھارت اپنی فوجوں کو زمانہ امن کی پوزیشن پر لے جانے پر مجبور ہو گیا۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے خاتمے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے 25 نومبر 2003 کو ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ فریقین ایک دوسرے کی چوکیوں اور فوجیوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ لائن آف کنٹرول پر امن کو برقرار رکھا جائے گا۔ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس سمجھوتے کی مکمل پاسداری کی جاتی رہی لیکن بھارت کی جانب سے گزشتہ دو تین ہفتوں سے لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی کے واقعات کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تناؤ میں ایک مرتبہ پھر خطرناک حد تک اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ نہ صرف بھارت کی سیاسی قیادت بلکہ عسکری حکام بھی بڑھ چڑھ کر اشتعال انگیز بیانات دے کر ماحول کو دو آتشہ کر رہے ہیں جیسا کہ بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے کہا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر اپنی فوج کو فری ہینڈ دے دیا ہے وہ کوئی بھی قدم اٹھانے کے لیے کلی طور پر آزاد اور پوری طرح ہائی الرٹ ہے۔
چند روز پیشتر بھارتی آرمی چیف نے بھی دھمکی آمیز بیان دیا تھا جب کہ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت مسلسل تحمل، برداشت اور امن کی زبان میں بات کر رہی ہے وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم بھارت سے جنگ نہیں چاہتے لیکن جارحیت کی کوشش کی گئی تو پاک فوج منہ توڑ جواب دے گی۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی بھارت سے کہا ہے کہ آئیں! تلخیاں بھلا کر نئی شروعات کریں، مل بیٹھ کر پُر امن ماحول میں دوستانہ طریقے سے تمام اہم معاملات حل کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اچھا دوست بننا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ کھلے اور صاف دل سے مل بیٹھنا چاہیے دونوں ممالک کو اپنی بہتری و خوشحالی کے لیے تلخیاں بھلانے اور تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
تاہم بھارت نے ان کی مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے پاک بھارت حالیہ کشیدگی کا آغاز بھارت کے اس الزام سے ہوا کہ پاک فوج کے جوانوں نے لائن آف کنٹرول عبور کر کے پانچ بھارتی فوجیوں کے گلے کاٹے۔ پاکستان کی جانب سے فوری طور پر ایسے کسی بھی واقعے میں پاکستانی فوج کے ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی گئی ابتداء میں بھارتی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے بھی اعلانیہ یہ کہا کہ اس طرح کے واقعے میں پاکستان ملوث نہیں تاہم بعد میں وہ اپنے بیان سے منحرف ہو گئے بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنی ازلی پاکستان دشمنی میں الزامات اور ہنگامہ آرائی کا ایک طوفان برپا کر دیا اور بات سرحدی خلاف ورزیوں تک محدود نہ رہی بلکہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمیشن آفس پر احتجاج اور حملہ کیا گیا۔ انتہا پسند ہندوؤں نے پاک بھارت دوستی بس کو روکا اور مسافروں کو ہراساں کیا پاکستان مخالف نعرے لگائے گئے جس کے باعث پاک بھارت امن کی فضا نہ صرف کشیدہ بلکہ سنگین حد تک خطرناک ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت کانگریس اور وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ انتہا پسند اپوزیشن پارٹی بی جے پی اور بھارت کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آتے جا رہے ہیں اور دو ماہ قبل پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد امن مذاکرات کی بحالی کی بھارت کی جانب سے جو مثبت پیش رفت نظر آ رہی تھی وہ حالیہ سرحدی کشیدگی کے ماحول میں گم ہو گئی ہے اور دو طرفہ تعلقات میں سرد مہری و تناؤ کی کیفیت کا گراف اونچا ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے اقتدار میں آنے سے قبل اور وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد بھی پاک بھارت تعلقات کی بحالی کے حوالے سے بیک ڈور ڈپلومیسی، تجارتی روابط قائم کرنے اور تمام تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے دعوے کیے گئے یہاں تک کہ میاں صاحب نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اپنی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دینے کا بھی عندیا دیا۔ میاں صاحب کے جذبہ خیر سگالی کا جواب بھارت نے سرحدوں کی خلاف ورزیوں کی صورت میں دے کر واضح کر دیا کہ وہ پاک بھارت تعلقات کی بحالی، کشمیر و دیگر تنازعات کے پر امن حل اور خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔
اگرچہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ اگر پاکستان و بھارت متفق ہوں تو وہ کشمیر پر ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ لیکن بھارتی قیادت کشمیر پر اپنے کمزور موقف کے باعث امن کے پر امن و قابل قبول حل کے لیے کی جانے والی کوششوں سے فرار کی راہ اختیار کرتی چلی آ رہی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر ہی وہ بنیادی تنازعہ ہے جس کے حل نہ ہونے کے باعث فریقین کے درمیان روایتی ہمسائیوں جیسے خوشگوار تعلقات کبھی قائم نہ ہو سکے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تنازعہ کشمیر کے پر امن اور کشمیریوں کی خواہش کے مطابق قابل قبول حل تلاش کیے جانے تک پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی، تناؤ اور نت نئے تنازعات جنم لیتے رہیں گے اور دونوں ملکوں کے عوام کی امن کی خواہش کے باوجود بھارت بان کی مون کی پیشکش کو بھی ہوا میں اڑا دے گا۔
بعض مبصرین و تجزیہ نگاروں کی رائے میں بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں اور کشیدگی میں اضافے کا سبب اندرون وطن سیاسی درجہ حرارت کو پاکستان دشمنی کی بنیاد پر بڑھانا ہے تا کہ آیندہ سال بھارت میں ہونے والے انتخابات میں فتح حاصل کی جا سکے حکمران جماعت کانگریس اور اپوزیشن جماعت بی جے پی دونوں بھارت میں انتہا پسندی بالخصوص پاکستان مخالف حلقوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ان کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ تجزیہ بھی اپنی جگہ درست ہے لیکن یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ امریکی آشیر باد سے بھارت خطے میں اپنی بالادستی اور حاکمیت قائم کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اہل وطن کو یقین ہے کہ ان کے اتحاد اور پاکستان کی بہادر افواج کی موجودگی میں بھارتی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا انشاء اللہ۔