اصلاحِ معاشرہ

حکمت اور حُسنِ نصیحت کو اختیار کرتے ہوئے معاشرتی اصلاح کی کوشش کیجیے


حکمت اور حُسنِ نصیحت کو اختیار کرتے ہوئے معاشرتی اصلاح کی کوشش کیجیے۔

ہر مسلمان پر دو حیثیتوں سے اصلاحِ معاشرہ کی ذمے داری عاید ہوتی ہے، پہلی بہ جائے خود مسلمان ہونے کے، کیوں کہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی انفرادی و اجتماعی ذمے داری کی طرف متوجہ کیا گیا، اور دوسرا فطری طور پر، کیوں کہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور فطرت کا تقاضا ہے کہ معاشرے کو امن و آشتی کا گہوارہ بنایا جائے۔

بہ حیثیتِ مسلمان معاشرے کی اصلاح کرنا ہر مسلمان کی ذمے داری ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا، تو فکر کی اس منزل پر ایک مسلمان جیسا کہ اپنے لیے پسند کرتا ہے کہ اس کی دنیا و آخرت دونوں مثالی ہوں، اس کے لیے ضروری ہے کہ بالخصوص دوسرے مسلمانوں اور بالعموم دوسرے انسانوں کے لیے بھی یہی سوچ رکھے، اور اس کی عملی صورتوں کے لیے کوشش کرے، اسی بنیاد پر وہ اسلام کی نظر میں معاشرے کا ایک مفید فرد کہلا سکتا ہے، وہ زندگی کے کسی بھی مفید اور جائز شعبے سے تعلق رکھتا ہو، اس میں رہتے ہوئے اپنی اور معاشرے کی اصلاح کے لیے بہتر سے بہترین سعی عمل میں لا سکتا ہے۔ یہاں معاشرے سے مراد محض مسلم معاشرہ ہی نہیں بل کہ دینی نقطۂ نگاہ سے اصلاح کا یہ عمل درجہ بہ درجہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور پھر عالمی معاشرہ مراد لیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک افراد جہاں اپنی روزی کا بہترین سامان کر تے ہیں، وہاں معاشرے کی اصلاح کے لیے مثبت اور تعمیری تحریر و تقریری لحاظ سے قابلِ قدر خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ میڈیا کی کئی اقسام ہیں، ان کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کی ذمے داری نہایت احسن انداز سے نبھائی جاسکتی ہے۔ ال غرض سائنس کے اس ترقی یافتہ دور میں پیغام رسانی کے جتنے طریقے رائج ہیں، سب سے معاشرے کی اصلاح کا کام لیا جا سکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر مسلمان اپنی ذمے داری کا احساس کرے۔ ہم سب کے آقا و مولیٰ ﷺ نے قیامت تک کے لیے ہر دور کے تقاضوں کو نگاہِ نبوت سے دیکھ کر ہی ارشاد فرمایا تھا : '' تم میں سے جو بھی معاشرے کو فساد کی طرف دھکیلنے والی کوئی بات دیکھے اس کی ذمے داری ہے کہ وہ اسے ہاتھ سے روکے، نہیں تو زبان سے روکے، پھر بھی نہیں تو کم از کم اسے اپنے دل میں بُرا ضرور جانے، اور ایسا کرنا ایمان کا کم زور ترین درجہ ہے۔''

غور کیا جائے تو اصلاحِ معاشرہ کے یہ تین طریقے دراصل قیامت تک کے ہر دور کے تقاضوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ پہلا طریقہ برائی کو ہاتھ سے روکنے کا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قوت و اختیار کے بل بوتے پر برائی کے خلاف جہاد کیا جائے، قوت کے ضمن میں ایمانی قوت کے علاوہ جدید دور کی سائنسی ایجادات بھی آجاتی ہیں، اور اختیارات میں اپنی معاشرتی حیثیت کے ساتھ آئینی، سماجی، اقتصادی، سیاسی اور جغرافیائی جہات کے ساتھ ساتھ قومی و بین الاقوامی قوانین بھی شامل ہیں۔

دوسرا طریقہ زبان سے برائی کو روکنا ہے، یہاں ایک اہم نکتہ ذہن میں رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے '' فَلیُغَیِّرہُ'' کا جامع ترین لفط استعمال فرمایا، جس سے زیادہ موزوں اور جامع لفظ اس مفہوم کے لیے ممکن ہی نہیں، اس کا معنٰی یہ ہے کہ '' وہ برائی کو زبان کی مدد سے اچھائی میں بدل دے'' جس سے واضح ہے کہ برائی کا وجود دنیا سے ختم نہیں کیا جاسکتا، بل کہ خیر و شر کی یہ کش مکش قیامت تک جاری رہے گی، اور ہر دور میں بندگانِ خدا برائی کے خلاف حکمت سے جہاد کرتے رہیں گے کہ یہی منشائے ایزدی ہے۔ زبان سے برائی کو روکنے کی بھی ہر دور میں کئی صورتیں رہیں، وعظ و نصیحت اور تقریر و بیان کے علاوہ قلم کی زبان بھی اس میں شامل ہے، جس کی کئی ایک صورتیں ہیں۔

پھر آخر میں ایمان کا کم زور ترین درجہ ہے یعنی دل میں برائی کو بُرا سمجھنا، یہاں برائی سے مراد صرف دوسروں کی برائیوں کو بُرا سمجھنا مراد نہیں بل کہ ان کے ساتھ اپنی برائیوں کو بھی بُرا سمجھنا مراد لیا گیا ہے، تاکہ جب ہر شخص انفرادی طور پہ اپنی برائی کو بُرا جانتے ہوئے اس سے پرہیز کرے گا تو معاشرہ خود بہ خود برائیوں سے پاک ہو جائے گا۔ رسول اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے ان تین طریقوں میں جتنا غور و فکر کیا جائے نتیجہ ہر صورت میں معاشرے کی اصلاح ہی برآمد ہوتا ہے، بس شرط اتنی سی ہے کہ حکمت اور حُسنِ نصیحت کا کوئی نہ کوئی پہلو اصلاحِ معاشرہ میں کار فرما ہو۔

اللہ کریم ہمیں اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔