اسنیک ہاؤس
ویسے سانپ توکچھ بھی نہیں بولتے۔ مگر تمہارے ملکی وسائل پرقابض لوگ صرف جھوٹ بولتے ہیں۔ سچ سے انکاکوئی واسطہ نہیں۔
لندن سے صاحب کا فون تھا۔ملاقات ہونی چاہیے۔ مگر میں تولاہورمیں ہوں اورابھی لندن آنے کاکوئی پروگرام نہیں۔صاحب کہنے لگے،اسی لیے تو فون کیاہے کہ لاہور آرہا ہوں۔تین دن بعد۔ گفتگو کے بعدوقت اوردن مقرر ہوگیا۔ حسب وعدہ،جب صاحب کے فارم ہاؤس پہنچا تو ملازمین نے بتایاکہ چڑیاگھرکی طرف گئے ہیں۔صاحب نے لاہورمیں فارم ہاؤس کوئی چارسال پہلے بنایاہے۔ شہرکا سب سے بڑافارم ہاؤس۔ تقریباًبیس سے پچیس ایکڑپر محیط۔ جانوروں اورپرندوں کاشوق بھی کافی پرانا ہے۔ گھر کے تمام نوکرفلپائنی تھے۔
ان میں سے ہیڈنظرآنے والاملازم مجھے چڑیاگھرکی طرف لے گیا۔نایاب پرندے۔ خوبصورت جانور۔صاحب ایک بڑے سے پنجرے کے باہرکرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔پنجرے کی طرف دیکھا تو بہت بڑااژدہا ایک شاخ پرلیٹاآرام کررہاتھا۔پنجرے کے اندردس بارہ بڑے حصے تھے۔ہرایک میں مقامی اور غیر ملکی انتہائی خطرناک سانپ موجود تھے۔ پنجرے کے باہر' 'اسنیک ہاؤس'' لکھا ہواتھا۔صاحب بڑے غور سے اژدہے اور دوسرے سانپوں کودیکھ رہے تھے۔ میری خالی کرسی ساتھ لگی ہوئی تھی۔ سانپ پالنے کانیاشوق پہلی بار دیکھا تھا۔ صاحب ایک دم کہنے لگے،اتنے زیادہ اور خطرناک سانپ دیکھ کرکیا محسوس کررہے ہو۔میراجواب سادہ ساتھا۔
مجھے تو بالکل پسند نہیں آئے۔ان کا توکوئی فائدہ نہیں۔ صاحب انتہائی سنجیدگی سے میری طرف چہرہ کرکے کہنے لگے،برخوردار،پاکستان کی سیاست کوسمجھنے کے لیے سانپوں کوپالنااوران پرغورکرنابے حد ضروری ہے۔یہ پوراملک ایک''اسنیک ہاؤس'' بنادیا گیا ہے۔فرق صرف اتناہے کہ تمہارے ملک میں اکثر لوگ لگتے انسان ہیں مگرخصلت کے حساب سے زہریلے ناگ ہوتے ہیں۔ مگر اس سچ کویہاں تسلیم کوئی نہیں کرتا۔ اور ہاں،یہ سانپ انتہائی قیمتی ہیں۔ تین سے چھ کروڑ روپے خرچ کرکے اکٹھے کیے ہیں۔
تھوڑی دیربعدہم دونوں مین ڈرائنگ روم میں آگئے۔صاحب نے بلیک کافی منگوائی اورآرام سے چسکیاں لینی شروع کردیں۔پوچھنے لگے۔تمہارے ملک کے حالات کیسے ہیں۔یہ سب کچھ کیاہورہاہے۔میں نے بظاہر سوچ کر جواب دیا۔ جمہوریت ہے۔معمولی نوک جھوک چلتی رہتی ہے۔آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ جمہوری نظام میںتلخی اورترشی اپنی اپنی جگہ موجودرہتی ہے۔ صاحب نے قہقہہ لگایا۔تمہاری کافی ٹھنڈی ہورہی ہے۔ نوکرکوزورسے آواز دی۔چرچل کاسگارلے کرآؤ۔مجھے اندازہ ہے کہ صاحب کے پاس دنیاکے بیش قیمت سگار موجودہوتے ہیں۔
چرچل اس وقت سلگاتے ہیں جب سوچ کرجواب دیناہو۔نوکردس منٹ میں خوبصورت طشتری میں موٹاسا سگارلے کر آیا۔ صاحب نے سگارکاٹ کر پینا شروع کردیا۔ جمہوریت۔ کونسی جمہوریت۔مجھ سے طنزیہ سوال کیا۔میں تمہارے ملک کی بات کررہاہوں۔یوکے کی نہیں۔ویسے جمہوریت تو خیرمجموعی طورپرکہیں بھی موجود نہیں۔پرتمہیں اپنے ملک میں جمہوری نظام کے موجود ہونے کاکیسے شبہ ہوا۔انتہائی تہذیب سے جواب دیا۔ گزشتہ پندرہ سال سے پاکستان میں الیکشن ہورہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے لیڈران کو ایوان میں لے کرآتی ہیں۔ انھی میں سے کوئی وزیراعظم بنتا ہے،کوئی وزیراعلیٰ،کوئی وزیر،کوئی گورنر۔ صاحب نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔شیشے میں سے دور درجنوں ہرن کھیلتے ہوئے نظرآرہے تھے۔ برخوردار، میرا تمہارا مذاق تونہیں ہے۔
میں نے بھی نفی میں سرہلایا۔مگریہ کہناکہ پاکستان میں کبھی جمہوریت تھی یا اب ہے۔یہ سب بے معنی سے سفاک الفاظ ہیں۔ جمہوریت نام کی چڑیاکاکم ازکم، تمہارے ملک سے کوئی تعلق نہیں۔صاحب،خاموشی سے کمرے کے ایک کونے کی طرف دیکھ رہے تھے۔میں نے بھی پلٹ کر دیکھا توپریشان ہوگیا۔ایک انتہائی خوبصورت چھوٹا سا سانپ، ایرانی قالین کے کونے پربیٹھاہواتھا۔پیلے رنگ کا۔ جسم پر سفیددھاریاں بنی ہوئی تھیں۔صاحب بولنے لگے۔ ڈرومت۔یہ دنیا کا سب سے زہریلاسانپ ہے۔ اسے اور اس طرح کے درجنوں سانپ جنوبی امریکا کے جنگل ایما زون سے منگوائے ہیں۔اپنے ہوائی جہازمیں رکھ کر لایا تھا۔ اسکا زہرنکال دیا گیاہے۔اب یہ میرا پالتو جانور ہے۔ ہرجگہ میرے ساتھ جاتا ہے۔اس کا نام ''ہنری'' ہے۔ہنری آہستہ آہستہ رینگتا صاحب کی کرسی کے نزدیک آگیا۔
صاحب نے بڑے پیار سے ہنری کواُٹھایااور سامنے رکھی ہوئی قیمتی لکڑی کی میزپررکھ لیا۔ہنری کے لیے ایک چھوٹا سااُبلے ہوئے گوشت کا ٹکڑا پلیٹ پررکھاہواتھا۔ہنری نے گوشت پراس تیزی سے حملہ کیایعنی کھاناشروع کیاکہ میں حیران رہ گیا۔ صاحب نے گفتگوجاری رکھی۔یہ تین دن بھوکا رہتا ہے۔ اس کے بعدکھاناکھاتاہے۔پھراسے کچھ ہوش نہیں رہتا۔نہ اپنا اورنہ کسی اورکا۔یہ آرام سے سوجاتاہے۔ میراسوال تھا،آپ یہ سب کچھ مجھے کیوں بتارہے ہیں۔ہم تو ملکی حالات پربات کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔تم کچھ نہیں سمجھو گے۔ موجودہ حالات کوبھی نہیں۔اس کے بعد آنے والے واقعات کوبھی نہیں۔دراصل ہنری اورتمہاری ملکی قیادت میں کوئی فرق نہیں۔دونوں کچھ عرصے کے لیے نمائشی طورپربھوکے رہتے ہیں۔زہربھری اورلچھے دار باتیں کرتے ہیں۔
مطلب صرف ایک ہوتاہے کہ انھیں معقول کھانا نہیں مل رہا۔چنانچہ فوری طورپران کے کھانے کا انتظام کیاجاتا ہے۔ ہنری سانپ ہے۔لہٰذاگوشت کھا کر سو جاتا ہے۔ تمہارے سیاسی رہنما اور سماجی پہلوان،ڈالرمانگتے ہیں۔ انھیں دولت کااس قدر چسکا ہے کہ ان کی بھوک ہی ختم نہیں ہوتی۔یہ پاگلوں کی طرح دولت کمانے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اپنے آپکوبھی بیچ سکتے ہیں۔ہاں،دام درست ملنے چاہییں۔ صاحب کی آواز میں کمال کاسکون تھا۔ہنری کے اندرتو قدرتی شائستگی ہے۔ تمہارے سیاستدان توہرمنفی کام کرسکتے ہیں۔ہراَبتربات کہہ سکتے ہیں۔کچھ بھی ان سے بعید نہیں۔ ہنری،سانپ ہے۔ مگر جھوٹ نہیں بولتا۔
ویسے سانپ توکچھ بھی نہیں بولتے۔ مگر تمہارے ملکی وسائل پرقابض لوگ صرف جھوٹ بولتے ہیں۔ سچ سے انکاکوئی واسطہ نہیں۔یہ ہنری جیسے سانپ سے بھی حددرجہ خطرناک ہیں۔ سانپ توایک بار کاٹ لے، تو اس کازہرختم ہو جاتا ہے۔ زہردوبارہ بننے میں ایک ہفتہ لگتا ہے۔ تمہارے لیڈرتودن میں عام لوگوں کواَن گنت بار کاٹتے ہیں اوران کا زہرختم ہونے کانام ہی نہیں لیتا۔لوگ زہرسے مرتے جاتے ہیں۔مرتے دم تک قومی لیڈران انھیں مختلف جعلی نعروں سے بہلاتے ہیں۔ کوئی روٹی،کپڑا اور مکان کی دھن پرلوگوں کوبیوقوف بناتا ہے۔
کوئی ''میڈاِن پاکستان'' بن جاتا ہے۔مگرکاٹتے سارے ہی ہیں۔جس کرسی پرتم بیٹھے ہو،اسی کرسی پروہ تمام لوگ بیٹھتے ہیںجوتمہارے ملک کی قسمت کے مالک بنتے ہیں۔کبھی میرے لندن والے گھر میں آجاتے ہیں اورکبھی میری اسپین والی تفریح گاہ پر۔ تمہارا ہربڑاآدمی ایمانداری کی باتیں کرتا ہے۔ملک کی بدحالی کا رونا روتاہے۔مجھ سے اقتدارمیں آنے کے لیے مدد مانگتا ہے۔ مگر تمام باتوں کے باوجود، جاتے ہوئے،ایک ملین ڈالر سے بھرا بیگ لیجانا نہیں بھولتا۔
تمہارے کسی لیڈرنے آج تک بیگ واپس نہیں کیا۔بلکہ واپس پہنچ کرشکریہ اداکرکرکے زبان تھک جاتی ہے۔اس کے علاوہ بھی پوری دنیامیں جہاں بھی چاہیں، انھیں پیسے مل جاتے ہیں۔مگرآپکواسکاکیافائدہ ہے۔یہ تو دولت کازیاں ہے۔صاحب نے مسکراکرمجھے دیکھا۔ہنری کو جیب سے نکالااورپیارسے ساتھ والے صوفے پرلٹادیا۔ ہنری،گہری نیندسویاہواتھا۔صاحب نے جواب دیا۔میں نے اپنا حساب رکھاہواہے۔اگرمیں کسی لیڈرکوایک ملین ڈالرتحفہ میں دیتاہوں توبیس ملین ڈالرواپس وصول کرتا ہوں۔میرے ذہن میں ایک کیلکولیٹر ہے۔اس میں ایک معاشی فارمولا ہے۔یہ ایک ڈالرسے بیس اورکئی بارایک سوڈالر بنا دیتا ہے۔ مگر کیسے۔یہ کیسے ممکن ہے۔
صاحب نے غصہ سے کہا۔تمہیں طاقت کے کھیل کا کچھ نہیں پتہ۔جب ہمارے پیسے کی قوت سے کوئی بھی شخص،اقتدارمیں آتاہے تومیں اس سے تمام جائزاورناجائز کام کرواتاہوں۔اربوں روپے کے ٹھیکے،بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض دلوانا،ہرطرح کے رابطے۔ان تمام کاموں کے دام ہوتے ہیں۔یہ پیسے بڑی تسلی سے میرے اوران کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتے رہتے ہیں۔تمہارے اہم ترین لوگوں کے مالی مفادات کی حفاظت کرتاہوں۔ان کی مددکرتا ہوں۔وہ میرے سے خوش رہتے ہیں۔ایک دلچسپ بات اور بھی،سب،دوسرے فریق کوبے ایمان،کرپٹ اورجاہل کہتے ہیں۔سیاسی مخالف کوملک دشمن گردانتے ہیں۔اپنی ایمانداری اورقابلیت کوبڑھ چڑھ کربیان کرتے ہیں۔مجھ سے اقتدارکوطویل کرنے کے گُراورعملی اقدامات پوچھتے ہیں۔
واپسی پران کی گاڑی میں ڈالروں والاایک بیگ ضرور رکھ دیاجاتاہے۔آج تک کسی نے پیسے قبول کرنے سے انکارنہیں کیا۔جیسے ہی جاتے ہیں۔شکریہ کافون ہمیشہ آتا ہے۔ہاں،اکثراوقات اپوزیشن والے بھی اسی کمرے میں آکرمنتیں کرتے ہیں،کہ زیادہ انتظارنہیں کرسکتے۔انھیں فوری طورپراقتدارمیں لایا جائے۔ان کے قومی اوربین الاقوامی رابطے کرواتاہوں۔ان سے شرائط طے کرتا ہوں۔ اکثر اوقات یہ مانگے بغیرنذرانہ بھی اداکرتے ہیں۔ جزئیات طے ہوجاتی ہیں،تو تمہارے ملک کے حالات اتنے اَبتر کر دیے جاتے ہیں،کہ لوگ ہنگامے کھڑے کر دیتے ہیں۔ حکومت تبدیل ہوجاتی ہے۔ ہمارا کام چلتارہتا ہے۔ یہ کھیل ملکی مفادات کے نام پر کھیلا جاتاہے۔
آخری سوال تھا،کہ اگرکوئی لیڈرطے کردہ شرائط کو پورا نہیں کرتا۔توپھرکیاہوتاہے۔صاحب نے سنجیدگی سے میری طرف دیکھا۔ہنری کوجیب میں ڈالااوراپنے چڑیا گھر کی طرف لے گئے۔اژدہے والے کمرے کادروازہ کھولا۔ ہنری کوجیب سے نکالا۔اوراندرپھینک دیا۔سوئے ہوئے اژدہے نے پھرتی سے چھوٹے سے سانپ کونگل لیا۔ایک آنکھ کھول کرصاحب کی طرف دیکھاجیسے شکریہ اداکررہا ہو۔ صاحب نے کہا،وعدہ خلافی کی صورت میں اس شخص کوکسی بڑے اژدہے سے مروادیاجاتاہے۔دراصل جسے تم اپناملک کہتے ہو،یہ ایک اسنیک ہاؤس ہے۔بڑاسانپ چھوٹے سانپ کوکھانے کے لیے ہردم تیارہوتاہے۔پرتسلیم کوئی نہیں کرتا۔واپسی پرمیرے ذہن میں صرف دولفظ گردش کررہے تھے۔اسنیک ہاؤس۔اسنیک ہاؤس!