ہر ادارے کے احتساب کا نظام
ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ تمام جماعتوں نے انتخابی مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔
غلام محمد ،اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف صدارتی نظام کے دلدادہ تھے ۔ غلام محمد گورنر جنرل تھے اور محمد علی جناح ان کے پیش رو تھے۔ محمد علی جناح نے پارلیمانی نظام قائم کیا تھا۔ جناح صاحب نے زندگی کا ایک حصہ چھوٹے صوبوں کے حقوق اور پارلیمانی نظام کی خودمختاری کی جدوجہد میں گزارا تھا۔ وہ برطانیہ کے پارلیمانی نظام کو جمہوریت کی ماں سمجھتے تھے اور اس پارلیمانی نظام کے منظور کردہ قوانین کی بالادستی کے لیے وکالت کرتے تھے۔
غلام محمد کو جناح صاحب کا قائم کردہ پارلیمانی نظام ورثہ میں ملا تھا مگر انھوں نے پارلیمانی نظام کی روایات سے انحراف کرتے ہوئے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رہنما خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا، یوں مشرقی پاکستان کے عوام میں احساس محرومی کا آغاز ہوا۔ پھر جنرل ایوب خان کے دباؤ پر سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کو ون یونٹ قرار دے کر نیا صوبہ مغربی پاکستان قائم کیا گیا جس کی بناء پر چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوا۔
اسکندر مرزا غلام محمد کے معاون تھے۔ انھیں مجبوراً 1956کے آئین کے تحت گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر صدر کا عہدہ سنبھالنا پڑا مگر اسکندر مرزا نے 16 اکتوبر 1958کو اس آئین کو منسوخ کیا، ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنادیا۔
جنرل ایوب خان نے 20 دن بعد ہی اسکندر مرزا کو رخصت کردیا۔ ان کے وزیر خزانہ محمد شعیب نے پاکستان کی معیشت کو ورلڈ بینک کے سپرد کردیا، یوں امریکا اور برطانیہ سے قرضوں کی بھرمار ہوئی۔ مگر یہ قرضے صرف کراچی، لاہور اور مغربی پاکستان کے کچھ علاقوں میں صنعتی ڈھانچہ قائم کرنے کے لیے استعمال ہوئے۔ صدارتی نظام کی بدولت ایوب خان نے صدارتی انتخاب میں دھاندلی کر کے محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو شکست دی۔
ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب خان جن کے صاحبزادے عمر ایوب خان وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کا حصہ ہیں نے گذشتہ دنوں ایک انٹرویو میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اگر براہِ راست انتخابات ہوتے تو فاطمہ جناح کامیاب ہوجاتیں۔ 1972پاکستان کی تاریخ کا تاریخی سال ہے۔ اس سال تمام قومی رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پارلیمانی نظام ہی ٹوٹے ہوئے پاکستان کو جوڑ سکتا ہے۔ ان رہنماؤں میں صدر بھٹو کے علاوہ دائیں بازو کے مولانا مودودی، مفتی محمود، نوابزادہ نصر اﷲ خان، شاہ احمد نورانی، میاں ممتاز دولتانہ، شوکت حیات، شیر باز مزاری اور بائیں بازو کے حامی میر غوث بخش بزنجو اور ولی خان شامل تھے۔
میاں ممتاز دولتانہ اور شوکت حیات کی سیاسی تربیت محمد علی جناح کے سائے میں ہوئی تھی۔ اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے ممتاز قانون دان میاں محمود علی قصوری اور پھر حفیظ پیرزادہ کی قانونی مہارت سے 1973 کے آئین کے خدوخال تیار کرائے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ 1973 کے آئین کی اہمیت اجاگر ہوتی گئی۔ دو آمر ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف اس آئین کو منسوخ نہ کرسکے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب میاں نواز شریف گرفتار ہوئے اور اٹک قلعہ میں پہنچادیے گئے تو انھوں نے سیاسی نظام ، آئین کی بالادستی کے تصور کے بارے میں غور و فکر کرنا شروع کیا۔ پھر خوش قسمتی سے میاں برادران کو لانڈھی جیل میں مقید کیا گیا جہاں آصف علی زرداری پہلے سے مقیم تھے۔ ان رہنماؤں نے آئین کی اہمیت، جمہوری عمل کے تسلسل اور صوبوں کے حقوق کے بارے میں بحث و مباحثہ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب میاں نواز شریف جلاوطنی کی زندگی گزارنے سعودی عرب سے لندن گئے تو پھر محترمہ بے نظیر بھٹو سے مذاکرات ہوئے۔
یوں 2005 میں تاریخی میثاق جمہوریت ہوا۔ اس میثاق میں دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق رائے کیا کہ پارلیمانی نظام کو مستحکم کرنے اور پارلیمنٹ کی تمام اداروں پر بالادستی کے لیے صدر کا منتخب اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ختم کردیا جائے گا اور صوبوں کو خودمختاری دی جائے گی اور منتخب حکومتوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا حق ہوگا۔ عدلیہ کا آزاد ادارہ بنایا جائے گا اور دنیا کے دیگر جمہوری ممالک کی طرح الیکشن کمیشن عملی طور پر خودمختار ادارہ ہوگا۔ عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کرانے کے لیے آئین میں شق شامل کی جائے گی۔ اس معاہدے پر 2008 سے عملدرآمد شروع ہوا۔
ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ تمام جماعتوں نے انتخابی مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔ پہلے پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور پھر آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو حقوق ملے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس میثاق پر 1970 میں اتفاق ہوجاتا تو ملک نہیں توٹتا۔ یوں تاریخ میں پہلی دفعہ دنیا نے محسوس کیا کہ پاکستان میں جمہوری نظام مستحکم ہورہا ہے۔ مگر یہ صورتحال مقتدرہ کے لیے قابل قبول نہیں تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کررہی تھی تو مولانا طاہر القادری اچانک کینیڈا سے لاہور آئے اور الیکشن کمیشن کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنے کا الٹی میٹم دیا۔ پھر سخت سردی میں تحریک کے کارکن اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیتے رہے۔ مولانا طاہر القادری خود دنیا بھر کے جدید نظاموں کے مطالعہ کا دعوی کرتے ہیں لیکن اس دھرنے کو منظم کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل پارلیمنٹ کی منظور کردہ ترمیم سے ہوئی اور کسی غیر مرئی قوت کی مداخلت سے پورا نظام سبوتاژ ہوجائے گا۔
پھر 2013 کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو نامعلوم قوتوں نے مفلوج کردیا، یوں عمران خان کو موقع ملا کہ ڈی چوک پر دھرنا دیں اور دھاندلی کے ایسے الزامات لگائے گئے کہ جو کبھی ثابت نہ ہوسکے۔ 2018 کے انتخابات سے پہلے پنجاب میں سرکاری اہلکار متحرک ہوئے۔ ان کی کوششوں سے مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے لگے مگر انتخاب والے دن آر ٹی ایس کا نظام ناکارہ ہوگیا۔ تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کرلی۔
جن قوتوں نے تحریک انصاف کے اسلام آباد میں اقتدار سنبھالنے کے لیے راستے میں رکاوٹیں دور کی تھیں ان کے دباؤ پر اب صدارتی نظام کے فائدے گنوائے جانے لگے اور اٹھارہویں ترمیم کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کسی نامعلوم ذہین شخص نے انھیں جناح صاحب کی ایک ڈائری کا پتہ دیا تھا جس میں ملک کے بانی نے صدارتی نظام کی حمایت کی تھی۔ کیمیاء کے استاد عزت مآب ڈاکٹر عطاء الرحمن جب سے سابق صدر پرویز مشرف کے معاونین میں شامل ہوئے وہ صدارتی نظام کے حامیوں میں شامل ہوگئے۔
پھر صوبہ پختون خوا کے گورنر شاہ فرمان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس معاملے پر ریفرنڈم کی تجویز پیش کردی۔ ان کے قانونی مشیر نے انھیں 1973 کی ریفرنڈم کی شق کے بارے میں سمجھایا تھا کہ کسی اہم قومی مسئلے پر پارلیمنٹ ریفرنڈم کرانے کی منظوری دے سکتی ہے لیکن انھیں یہ نہیں سمجھایا گیا کہ ریفرنڈم آئین کے بنیادی ڈھانچہ کی تبدیلی کے بارے میں نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کی بقاء ،صوبوں کے حقوق کا تحفظ اور تمام علاقوں کی ترقی پارلیمانی نظام میں مضمر ہے، جوں جوں ادارے مزید مستحکم ہونگے ہر ادارہ کے احتساب کا نظام بھی بہتر ہوگا۔ شاید اسی وقت کو روکنے کے لیے صدارتی نظام کے نفاذ کا شوشا چھوڑا گیا ہے۔