تبدیلی شاید عید کے بعد

خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ گھنٹیاں بج رہی ہیں، حکومت تیزی سے اپنی کریڈیبلٹی کھوتی جارہی ہے


کیا اس حکومت کے بچنے کے کوئی امکانات بھی ہیں؟(فوٹو: انٹرنیٹ)

خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ حکومت تیزی سے اپنی کریڈیبلٹی کھوتی چلی جارہی ہے۔ دوسری جانب اِن کے وزرا کو دیکھئے تو ان کا تکبر ہی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ہے۔ آپ وزرا کے بیانات اُٹھا کر دیکھیں تو دو چیزیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک، یا تو یہ وزرا ہوش میں نہیں ہوتے ہیں اس لیے ایسے بیانات داغتے ہیں، یا یہ مکمل ہوش و حواس میں ایسے بیانات دیتے ہیں۔ اگر دوسری بات درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وزرا ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔

آپ فیصل واوڈا کا بیان سنیں جو انہوں نے پاکستان کے نامور صحافی کے نجی ٹی وی پروگرام میں دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ چند ہفتوں میں نوکریوں کی لائن لگ جائے گی؟ او بھائی! کیسے؟ مراد سعید، حماد اظہر، فواد چوہدری وغیرہ کو جانے دیں اور فیصل واوڈا سے ہی پوچھیں کہ آپ نے کس بنیاد اور ریسرچ پر ایسا بیان دیا ہے؟ آپ کا سابق فائنانس منسٹر چیخ رہا تھا کہ 'جاگتے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا' اور آپ کہہ رہے ہیں کہ 'بھیا، آل اِز ویل'' ۔ اب آپ نے اپنی ہی ٹیم کے اسٹار پلیئر اسد عمر کو ریٹائرڈ ہرٹ کردیا ہے اور اس کی جگہ بیٹنگ کرنے کے لیے مخالف ٹیم کا بلے باز مستعار لے لیا ہے۔ یہ کیا مذاق ہے حضور والا؟ اب بتائیں، کہاں ہیں نوکریاں؟

چلیں، اس حکومت کو آئینہ دِکھاتے ہیں۔ یہ حکومت جس طرح اپوزیشن میں دعوے کرتی تھی، وہ سب کے سامنے ہیں، ریکارڈ کا حصہ ہیں اور یوٹیوب پر آسانی سے سنے جاسکتے ہیں۔ لیکن، جیسے ہی یہ حکومت میں آئے تو انہوں نے مختلف بہانوں کے پیچھے پناہ لینا شروع کردی۔ تیاری اِن کی صفر تھی، کام ان کو ٹکے کا نہیں آتا تھا اور شروع کردیا احتساب۔ کوئی پوچھے اس حکومت سے کہ اب تک اس احتساب پر کتنا پیسا خرچ ہوا ہے اور اس پر کیا ریکوری ہوئی ہے؟ یہ جواب بھی نہیں دے سکیں گے۔

پہلے کہتے تھے کہ جناب ابھی تو ہمارا آغاز ہے، ہمیں سو دن دیں۔ سو دن میں ہی انہوں نے واضح کردیا کہ ان کو آتا جاتا ککھ بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد دیگر بہانے اور وضاحتیں شروع ہوگئیں، حتیٰ کہ عارف بھٹی اور حسن نثار نے تو سرے عام قوم سے معافی مانگی اور ندیم ملک جیسا ٹھنڈا بندہ بھی چیخ اُٹھا کہ معافی دو۔ لیکن کیا حکومت کے وزرا کا تکبر اور کروفر ختم ہوا؟ نہیں۔ الٹا انہوں نے آوازوں کو دبانے کا سلسلہ شروع کردیا جو کہ تاحال جاری ہے۔

آپ نے اپنی ٹیم کے اسٹار پلیئر کو ہی برطرف کردیا ہے۔ یہ وہی اسد عمر ہے جس کو آپ اپنی ہر تقریر میں آئن اسٹائن ثانی کہا کرتے تھے۔ یہ وہی اسد عمر ہے جس کو آپ اپنی پلکوں پر بٹھایا کرتے تھے۔ اب آپ نے کیا کیا؟ آپ اسد عمر کی گزشتہ قومی اسمبلی کی تقریر سن لیں۔ صاف معلوم ہورہا ہے کہ کندھا استعمال کرتے ہوئے نشانہ اپنی ہی حکومت ہے ۔ پھر، آپ کی اپنی ہی پارٹی میں گروپ بندیاں واضح ہیں۔ یہ آپ سے کسی بھی طرح سے کنٹرول نہیں ہورہی ہے۔ حتیٰ کہ 'وہاں' سے واضح پیغام آچکا ہے کہ اِن گروپ بندیوں کو کنٹرول کیجیے۔

آپ نے بھرے جلسے میں بلاول بھٹو کی تضحیک کے لیے ''صاحبہ'' کا لفظ استعمال کیا۔ یہ کیا ہے؟ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ آپ انتہائی فرسٹریٹڈ ہیں کہ بلاول آپ کے حواس پر چھایا ہوا ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ بلاول بہت اچھی اپوزیشن کررہا ہے اور یہ اس بات کا بھی اعلان ہے کہ بلاول کے سامنے آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں اور آپ اُس کی تضحیک کرکے اپنا قد اونچا کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ انسان کے پاس جب دلیل کی طاقت ختم ہوجاتی ہے تو وہ ایسی حرکتیں کرتا ہے جیسی آپ آج کل کررہے ہیں۔ میں ابھی اس بات پر نہیں آتا کہ کیسے ایک وزیراعظم دوسروں کی سرزمین پر اپنے ہی وطن کی سبکی کروا رہا ہے؟ وہ کیسے مان رہا ہے کہ پاکستان کی سرزمین ہمسایہ ممالک میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔

حقیقت کا سامنا کیجیے۔ قومی اسمبلی میں صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی کل نشستیں 157 ہیں، حکومت بنانے کے لیے انہوں نے ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں سے ہاتھ ملایا۔ ایم کیو ایم 7، مسلم لیگ ق 5، بی اے پی 5، جی ڈی اے 3 اور شیخ رشید کی ایک ملا کر حکومت ہے 178 کی۔ دوسری جانب اپوزیشن میں دو بڑی جماعتیں ہیں، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی۔ مولانا فضل الرحمان نے یہی صورتحال دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ ہم مل کر حکومت بناسکتے ہیں۔ ن لیگ 84، پی پی 54، ایم ایم اے 16، اے این پی 1 اور آزاد امیدوار ملا کر 158 کی اپوزیشن ہے۔ یہ قومی اسمبلی کی صورتحال حکومت کی انتہائی کمزور پوزیشن دکھاتی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے مولانا کی باتوں میں دم محسوس ہوتا ہے۔ جہاں تک بات ہے سینیٹ کی، تو جناب سینیٹ تو ماضی میں بھی 'مینیج' ہوا ہے اور یہ اب بھی مینیج ہوجائے گا۔

حالیہ صورتحال کو دیکھیے۔ ن لیگ کو ریلیف ملنا شروع ہوگیا ہے۔ زرداری صاحب جیل جانے کی تیاری کررہے تھے، اب نہیں کر رہے ہیں۔ ن لیگ اور ق لیگ کے اتحاد کی خبریں بھی گرم ہیں اور اگر ایسا کوئی اتحاد ہوتا ہے تو نہ صرف پنجاب میں پوزیشن چینج ہوجائے گی، بلکہ قومی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی اپوزیشن میں چلی جائے گی۔ 158 اور 178 میں صرف 20 کا فرق ہے اور یادش بخیر، زرداری صاحب نے ماضی میں بلوچستان کی حکومت تبدیل کرکے اپنی مہارت دکھا دی تھی۔ آج زرداری صاحب مزید تیز ہو چکے ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ اس حکومت کو ہم مزید نہیں چلنے دیں گے۔


جب مولانا نے زرداری صاحب کے سامنے حکومت سازی کا پلان رکھا تھا تو میرے فارغ اور بے وثوق سے ذرائع نے بتایا تھا کہ زرداری صاحب نے ہنستے ہوئے مولانا سے کہا تھا کہ نہیں، عمران کو حکومت سازی کرنے دیں، اس کے لیے اس سے بڑی سزا کوئی اور نہیں ہوسکتی ہے۔ ن لیگ اس سارے عمل میں زرداری صاحب کی پیروی کرے گی اور شاید عوام بھی پی ٹی آئی کے پیچھے نہ کھڑے ہوں۔ کیوں؟ کیونکہ سب کو سمجھ میں آرہی ہے کہ باتوں اورعمل میں کیا فرق ہوتا ہے۔ کرپٹ لوگوں کی حکومت تھی تو سانسیں چل رہی تھیں، اب گھٹن اتنی ہے کہ سانس لینا مشکل ہورہا ہے۔ کیا اس حکومت کے بچنے کے کوئی امکانات بھی ہیں؟ ہاں، سب سے پہلے مفت خورے وزرا کے منہ پر ٹیپ لگائیں اور دوسرا یہ اپنی توجہ احتساب سے ہٹا کر معیشت پر دیں۔ کسی بھی طرح سے مہنگائی کو کنٹرول کریں۔ رمضان سر پر ہے، بجٹ بھی آنے والا ہے۔ اگر یہ کچھ نہ کرسکے تو عید کے بعد کا منظرنامہ وہی ہے جو خاکسار اوپر لکھ چکا ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں