ٹرمپ نیتن یاہو اور مودی نفرت کے سوداگر
بھارت تامل ٹائیگرز کے ذریعے پہلے بھی سری لنکا کو ناقابل فراموش تباہی سے ہمکنار کرچکا ہے۔
الہان عمر کا آبائی وطن صومالیہ ہے۔ ان کا خاندان صومالیہ کی خانہ جنگی کے ماحول سے نکل کر 1991 میں امریکا میں آباد ہوگیا تھا۔ ان کے خاندان کے اکثر لوگ تعلیمی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد اور دادا بھی استاد رہ چکے ہیں۔ الہان غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل خاتون ہیں۔ انھوں نے امریکا میں ہی اپنی تعلیم مکمل کی اور سماجی کاموں میں حصہ لینے لگیں۔
افریقی خواتین کے خلاف امریکا میں ہونے والی صنفی حق تلفی پر ان کی خاص نظر ہے۔ وہ اس مہم کو اپنی ریاست مینی سوٹا میں مقبول بنانے میں بہت کامیاب رہیں۔ خواتین کے حقوق کے سلسلے میں ان کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے سفید فام خواتین میں بھی انھیں مقبولیت حاصل ہوئی۔ امریکی سیاست میں مسلم خواتین کی کمی کے پیش نظر انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی سے اپنا ناطہ جوڑ لیا۔ پارٹی نے ان کی سماجی اور سیاسی صلاحیتوں کو بھانپ کر انھیں اپنے ریاستی ڈھانچے میں ضم کرلیا۔
الہان وہ خوش قسمت مسلم خاتون ہیں جو اپنی نو عمری میں ہی گزشتہ سال منعقد ہونے والے وسط مدتی الیکشن میں اپنی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں ہی کامیاب نہیں رہیں بلکہ امریکی کانگریس کی رکن کی حیثیت سے منتخب ہوگئیں۔ آپ کانگریس میں ایک متحرک مسلم خاتون ہیں۔ آپ ابتدا سے ہی ٹرمپ کی مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کی پالیسی کے خلاف رہی ہیں۔ آپ اسرائیل کی فلسطینی مسلمانوں پر بربریت کی بھی کھل کر مخالفت کرتی ہیں۔
صدر ٹرمپ الہان کے سخت خلاف ہیں کیونکہ انھیں نہ تو مسلمانوں کے امریکا میں داخلے کے لیے کسی کی حمایت پسند ہے اور نہ ہی اسرائیل کے خلاف انھیں کسی کی تنقید قابل قبول ہے۔ٹرمپ الہان کے الیکشن جیت کر کانگریس میں جگہ بنانے پر بھی سخت غصے میں ہیں کیونکہ وہ کسی بھی مسلمان کو امریکا کی پارلیمنٹ میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ گزشتہ دنوں انھوں نے اپنے منصب سے گری حرکت کرتے ہوئے الہان کو ٹیوٹر پر ہراساں کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے الہان کی امریکن اسلامک کونسل میں گیارہ ستمبر کے حملوں سے متعلق کی گئی ایک پرانی تقریر کا وہ حصہ شیئر کیا جس میں الہان نے اس حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے امریکا پر ہونے والا ایک حملہ ہی قرار دیا تھا۔ ٹرمپ نے ان کے اس جملے کو گیارہ ستمبر کے حملے کے لیے بہت چھوٹا جملہ قرار دیا ہے اور اس حملے سے ہونے والی تباہی کا بڑھا چڑھا کر تذکرہ نہ کرنے پر ان پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئیٹ کو انتہائی سنسنی خیز بنانے کے لیے اس پر ''ہم کبھی نہیں بھولیں گے'' کا کیپشن لگایا ہے۔
ان کے اس نفرت انگیز کیپشن نے الہان کے بیان کو کافی حساسیت سے دوچار کردیا ہے جیسے کہ انھوں نے کوئی بہت بڑا جرم کردیا ہے۔ نفرت سے بھرے اس ٹوئیٹ نے انتہا پسند امریکیوں کے جذبات کو بھڑکا دیا ہے اور وہ الہان کو کھلے عام قتل کی دھمکیاں دینے لگے ہیں۔ ٹرمپ کی اس نازیبا ٹوئیٹ کی کئی ڈیموکریٹک ممبران کے علاوہ امن پسند امریکیوں نے بھی سخت مذمت کی ہے۔ کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی سمیت متعدد کانگریس اراکین نے بھی ٹرمپ کی ٹوئیٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے مسلمان رکن کانگریس کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
ادھر ٹرمپ کی ٹوئیٹ سے تقویت پاکر کئی انتہا پسند امریکیوں نے الہان کو دھمکی آمیز فونز کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ پولیس نے الہان پر ممکنہ حملے کے الزام میں ایک شخص کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔ امریکیوں کی اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ ان کا ٹرمپ جیسے عاقبت نااندیش، انتہا پسند اور انسانیت کے دشمن صدر سے پالا پڑ گیا ہے تاہم اس غلطی کے لیے انھیں منتخب کرانے والے امریکی ہی اصل قصوروار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے امریکا کا ماحول بالکل بدل چکا ہے۔ اب وہاں نفرت، تعصب اور مذہبی جنونیت کا دور دورہ ہے۔
ذی شعور امریکی آج بھی ریگن اور اس سے پہلے منتخب ہونے والے امن پسند اور انسان دوست صدور کے زریں ادوار کو نہیں بھولیں۔ اب یہ بات بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ ٹرمپ کو جتانے والے رجعت پسند امریکی تھے جنھوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور انھیں بالآخر جتا کر دم لیا تھا۔ ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن تھیں جو بہرحال ٹرمپ جیسی متشدد نہیں ہیں۔ انھوں نے انتخابی مہم کی کسی بھی ڈبیٹ میں مسلمانوں کے خلاف کوئی بات نہیں کہی تھی جب کہ ٹرمپ مسلسل اپنے ہر مباحثے میں مذہبی جنونیت کو ہوا دیتے رہے۔
ٹرمپ گوکہ ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں کامیاب ضرور ہوگئے تھے مگر ان کی جیت اب بھی متنازعہ بنی ہوئی ہے کیونکہ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے روس جیسے امریکا کے دشمن نمبر ایک سے مدد حاصل کی تھی۔ ٹرمپ سے پہلے صدر بش بھی ایک مذہبی جنونی شخص تھے اور دراصل ان سے ہی امریکا میں عصبیت اور مذہبی جنونیت کی ابتدا ہوئی تھی مگر وہ کم سے کم ٹرمپ کی طرح کھل کر مسلمانوں کے خلاف بیانات نہیں دیتے تھے۔ ٹرمپ نے تو اپنی مذہبی جنونیت سے پوری دنیا میں عیسائی انتہا پسندوں کو مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کا حوصلہ فراہم کردیا ہے۔
ٹرمپ کے نفرت انگیز بیانات کی وجہ سے امریکا میں مسلمانوں کے خلاف کھلے عام دہشت گردی ہو رہی ہے خاص طور پر ان کی عبادت گاہیں اب بالکل محفوظ نہیں رہی ہیں۔ ٹرمپ کے اسلام دشمن فلسفے سے متاثر ہوکر کئی ممالک میں عیسائی انتہا پسندوں نے مسلمانوں کا خون بہانہ شروع کردیا ہے۔ اس وقت دنیا میں نفرت کا پیغام عام کرنے میں ٹرمپ کے ساتھ مودی اور نیتن یاہو بھی پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔ ان تینوں لیڈروں کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ان کا عرصہ دراز تنگ کردیا جائے، مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں پر ناجائز قبضے برقرار رکھے جائیں اور وہاں کے عوام کو حق خود اختیاریت دینے کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پیروں تلے روند دیا جائے۔
کشمیریوں اور فلسطینیوں کے 70 برس بعد بھی مسائل حل نہیں ہوئے جب کہ تیمور اور جنوبی سوڈان کے عیسائیوں کو چند سال کی جدوجہد کے بعد ہی آزادی سے نواز دیا گیا ہے۔ اس وقت کشمیریوں اور فلسطینیوں کا آزادی مانگنے کی پاداش میں قتل عام جاری ہے جس پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مودی اور نیتن یاہو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کے خلاف بھی نفرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ جس طرح مودی ہندوتوا کی برتری چاہتا ہے نیتن یاہو یہودیت کا پوری دنیا میں بول بالا چاہتا ہے۔ سری لنکا میں حالیہ دہشت گردی اور تباہی میں بھی ٹرمپ نیتن یاہو اور مودی کے نفرت اور تعصب سے لبریز پرچار کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے۔
بھارت تامل ٹائیگرز کے ذریعے پہلے بھی سری لنکا کو ناقابل فراموش تباہی سے ہمکنار کرچکا ہے۔ اب لگتا ہے اس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر وہاں موجودہ خوفناک تباہی مچائی ہے جس کی وجہ سری لنکا کا پاکستان اور چین کی جانب جھکاؤ بھی قرار دیا جاسکتا ہے بہرحال اب دنیا کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے ٹرمپ نیتن یاہو اور مودی کے نفرت انگیز فلسفے سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے جس کے لیے وہاں کے عوام کو رضاکارانہ طور پر آگے آنا ہوگا۔