ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کراچی آمد اور رائٹرز گلڈ
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے کارناموں کے باعث پوری دنیا میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔
محسن پاکستان فخر پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان 22 اپریل 2019 کو کراچی پہنچے ۔ وجہ قائد اعظم رائٹرز گلڈ پاکستان کی جانب سے قلم کاروں کو ایوارڈز کی تقسیم تھی، وہ اپنے وعدے کے مطابق وقت مقررہ پر ٹھیک ساڑھے چار بجے آڈیٹوریم ڈاکٹر اے کیو خان انسٹیٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی تشریف لے آئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ڈاکٹر عابد اظہر، ڈاکٹر مبین عزیز، صدر خلیل احمد ایڈووکیٹ اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ ان کی آمد سے پورا ہال تالیوں سے گونج گیا اور تقریب کے شرکا نے پاکستان کی عظیم شخصیت کا کھڑے ہوکر استقبال کیا۔ ہر چہرہ خوشی اور عقیدت کے جذبات سے سرشار تھا، مسرت کی قوس قزح ہر سو رقصاں تھی کہ آج اس ہستی کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ میسر آیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے کارناموں کے باعث پوری دنیا میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ڈیفنڈر آف پاکستان ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانا آپ کا وہ کام ہے جسے تاریخ میں سنہرے لفظوں سے لکھا گیا ہے۔ اور اللہ نے آپ کو دنیا کی نظروں میں باوقار اور معتبر بنادیا، دشمنوں کی لاکھ سازشوں کے باوجود کامیابی کی روشنی نے آپ کے مقام، عزت و توقیر میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، بے شک کردار سازی میں گھر کا ماحول اور والدین کی تربیت اہم ہوتی ہے۔
ایک واقعہ مجھے یاد آرہا ہے جسے زاہد ملک مرحوم نے اپنی کتاب ''ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اسلامی بم'' میں درج کیا ہے۔ وہ اس طرح رقم طراز ہیں کہ ''مجھے وہ منظر زندگی بھر نہیں بھولے گا جب میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ان کی والدہ محترمہ سے ملاقات کے لیے کراچی گیا، جب ہم ناظم آباد اس مکان میں پہنچے جہاں ڈاکٹر صاحب کی والدہ محترمہ قیام فرماتی ہیں ڈاکٹر صاحب جس والہانہ اور بے ساختگی کے انداز میں بستر پر دراز اپنی علیل و نحیف والدہ کے قدموں سے لپٹ گئے، مجھے یقین ہے کہ آج پاکستان میں اور عالمی سطح پر اس ممتاز ایٹمی سائنسدان کو جو عظیم مقام حاصل ہے اس میں ان کی والدہ محترمہ کی دعاؤں کا ضرور اثر ہوگا۔''
بے شک ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وطن سے اور اسلام سے محبت نے انھیں نیلے امبر پر چاند کی طرح روشن کردیا ہے اور اس وقت بھی عزت و وقار کی چمک ان کے چہرے پر عیاں ہے۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام ربانی سے کیا گیا، نعت رسول مقبولؐ پڑھنے کی سعادت سید نورالاحد سہروردی نے حاصل کی، نظامت کے فرائض پروفیسر شازیہ ناز عروج نے احسن طریقے سے ادا کیے، منتظم کے طور پر جناب حلیم انصاری نے اپنا کردار نہایت ذمے دار اور خوش اخلاقی کے ساتھ نبھایا اور تقسیم ایوارڈ میں بھی کوئی بدنظمی نہیں ہوئی۔ مہمانان گرامی نے نظم و ضبط کا بھرپور طریقے سے مظاہرہ کیا اور کرنا بھی چاہے تھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات تشریف فرما تھے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آمد کو ممکن بنانے میں قائداعظم رائٹرز گلڈ پاکستان کے بانی اور سابق صدر گلڈ جناب جلیس سلاسل کی انتھک محنت، خلوص اور محبت کو دخل تھا وہ ڈاکٹر صاحب کے مداح اور قدردان کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ انھوں نے فخر پاکستان کا پہلا انٹرویو 1984 میں لیا تھا، عالمی اسلامی ڈائجسٹ کے لیے اور جو پاکستان کے تقریباً تمام اخبارات کی زینت بنا یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا ان دنوں عالمی اسلامی ڈائجسٹ کے ایڈیٹر انچیف جناب جلیس سلاسل تھے اس انٹرویو سے بے شمار قلم کاروں نے استفادہ کیا اور جلیس سلاسل کے اصرار پر ڈاکٹر صاحب اس شہر تشریف لائے جو انھیں بے حد عزیز ہے جہاں جلیس سلاسل نے اس اہم کام کے لیے باقاعدہ اسلام آباد کا سفر کیا اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی۔
ڈاکٹر صاحب کو یہ شہر اس لیے پیارا ہے کہ عمر عزیز کا قیمتی حصہ انھوں نے اسی شہر میں گزارا۔ شہر کراچی اس حوالے سے معتبر اور قابل احترام ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی یہ جنم بھومی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھوپال سے ہجرت اس وقت کی جب بھوپال کے حالات بہت خراب ہوگئے تھے ان کے زاد راہ میں ایک بکس تھا، جس میں چند کپڑے اور کچھ کتابیں تھیں دوران سفر انھوں نے ہندو بلوائیوں کے مظالم دیکھے جو وہ مسلمان خاندانوں پر ڈھا رہے تھے، سفر کی اذیتیں سہیں، ذہنی کرب برداشت کیا اور آخرکار قیام پاکستان کے پانچ سال بعد 15 اگست 1952 کو کھوکھرا پار کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے اور وہاں سے بذریعہ ریل کراچی پہنچے اور اسی شہر کراچی میں اپنی تعلیم ڈی جے سائنس کالج میں 1954 سے 1957 تک حاصل کی ۔
ذکر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا چل رہا ہے جو کراچی کے قلم کاروں کو ایوارڈ تقسیم کرنے کراچی تشریف لائے ہیں اور آج سب خوش تھے کہ ان کی خون جگر سے لکھی ہوئی شاہکار تحریروں کا اعتراف بذریعہ ایوارڈ کیا جا رہا ہے، خطبہ استقبالیہ ڈاکٹر شکیل الرحمن فاروقی نے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا، انھوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آمد اور ان کی ملک و قوم سے محبت اور وطن کے استحکام کے لیے قربانیاں دیں ان کی خدمت کو سراہا۔
جوں جوں پروگرام آگے بڑھتا گیا خوش قسمت لمحات قریب تر ہوتے گئے نیز یہ کہ ایوارڈز اور سرٹیفکیٹس ان کتابوں پر دیے گئے جو 1993 سے 2005 اور 2006 سے 2018 کے دوران شایع ہوئی تھیں، پہلا ایوارڈ ''جاگتے لمحے'' پر جناب جسٹس حاذق الخیری کو تفویض کیا گیا اس کے بعد سلسلہ چل نکلا، ایوارڈز یافتگان میں جناب آزاد بن حیدر اسپتال سے اپنا ایوارڈ وصول کرنے محض محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے محبت اور عقیدت کے نتیجے میں کھنچے چلے آئے تھے۔
ان کی کتاب کا نام تھا ''تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ سرسید سے قائد اعظم تک'' پروفیسر خیال آفاقی کی دو کتابیں بعنوان رسول اعظمؐ '' اور دوسری ''عورت، مرد کہانی'' اور اسی طرح عارف شفیق کی بھی دو کتابوں پر ایوارڈز دیے گئے۔ ''کراچی کی کہانی'' اور ''یقین (شعری مجموعہ) ڈاکٹر عزیر احسن کی کتاب ''اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تخیلی مطالعہ، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی کتاب ''اردو زبان ادب''، ''قرآن و ماحولیات''، ''بنگلہ دیش کی تخلیق فسانے اور حقائق'' اس کتاب کے مصنف جناب ڈاکٹر جنید احمد ہیں ان کی تحقیقی کاوشوں کی بدولت وہ اس ایوارڈ کے حق دار تھے۔
ڈاکٹر معین الدین کو ''سایہ ذوالجلال'' جو ان کی سائنس کے حوالے سے کتاب ہے اس پر انھیں ایوارڈ دیا گیا۔ جناب پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد زبیری کے نام کی بازگشت سنائی دی۔ انھوں نے اپنی کتاب ''تحقیق کے طریقے'' پر اپنا ایوارڈ وصول کیا۔
پروفیسر شاہین حبیب کی مرتب کردہ کتاب ''ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کا تحریک پاکستان میں کردار (سوانح حیات) پر ایوارڈ دیا گیا۔ ''خطبہ حجۃ الوداع'' کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد ثالثی اور جب کہ ''اسلام کا نظام صرف دولت اور انفاق'' پروفیسر فائزہ احسان صدیقی کی تصنیف و تالیف ہے، ان دونوں کتابوں پر ''وجہ تخلیق کائنات'' آسیہ سحر اور راقم الحروف کا ناول ''سر بازار رقصاں''، حلیم انصاری کا قطعات کا مجموعہ ''سیاست دوراں، افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجے، پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی، ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی کی کتاب فکاہی کالم نگار اور نصر اللہ خان ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' ، عثمان دموہی کڑی دوپہروں کی سرزمین، ریحانہ احسان اور ملکہ افروز روہیلہ کی کتاب اور دیگر اہل قلم کو ایوارڈ مرحمت فرمایا گیا۔
سرٹیفکیٹس جناب جلیس سلاسل نے بے حد خلوص کے ساتھ رائٹرز کو پیش کیے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی تقریر کے دوران نوجوانوں کو نصیحت کی کہ وہ صبح و شام ترجمے کے ساتھ صرف ایک صفحہ قرآن پڑھ لیا کریں یا پھر سن لیا کریں انھوں نے ماضی کے حکمرانوں کی جہالت پر بھی اظہار افسوس کیا کہ جنھیں قرآن پاک کا ترجمہ تو دور کی بات تلاوت تک نہیں آتی انھیں قل ہو اللہ تک یاد نہیں، یہ لوگ اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے پڑھتے ہوں گے۔
انھوں نے جلیس بھائی کے لیے کہا کہ جلیس بھائی اسلام آباد آئے تھے، مجھے مدعو کرنے کے لیے، مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ اہم لکھاری ایک جگہ جمع ہیں اور انھیں ان کی کاوشوں اور تخلیقی صلاحیتوں پر جو کتابوں کی شکل میں موجود ہیں ایوارڈز دیے گئے، یہ میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے۔ جناب جلیس سلاسل کی محنت، ادب سے محبت اور قلم کاروں کی قدر دانی کے نتیجے میں اس شاندار ترین تقریب کا انعقاد ہوا اختتام سے قبل جلیس بھائی نے فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمت میں ماڈل ایوارڈ پیش کیا اس طرح ایک بار پھر سب نے کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔ اس طرح یہ یادگار ادبی پروگرام انجام کو پہنچا۔