ہمیں زہرکھلایاجا رہاہے

کارسن نے تحقیقی بنیادپرمقالے اورکتابیں لکھنی شروع کردیں۔اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی


راؤ منظر حیات April 29, 2019
[email protected]

ریچل کارسن(Rechel Carson) سمندرکے رازسمجھناچاہتی تھی۔امریکا کی ایک غریب خاندان کی لڑکی، تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ہرطرح کا ادنیٰ کام کرنے پرمجبورتھی۔ذہن تحقیقی نوعیت کا تھا۔ یونیورسٹی کی فیس اکٹھی کرنے کے لیے رامنڈپرل لیب میں چوہوں پرتحقیق کرنے کاکام ملا۔کوئی بھی نوجوان لڑکی،سارادن چوہوں کے ساتھ گزارنا نہیں چاہتی تھی۔ مگرکارسن کو تو اپنی ٹیوشن فیس اکٹھی کرنی تھی۔ ماں باپ اوربہنوں کی بے وقت موت نے اس کی ذمے داریاں حد درجہ بڑھا دیں۔

تمام مشکلات کے باوجود کارسن نے جان ہاپکنز یونیورسٹی سے زولوجی (Zoology)میں پوسٹ گریجوشن کرلی۔انتہائی کمزورنظرآنے والی لڑکی نے اپنی زندگی کے مقصدکاتعین کیا۔بنیادی طور پر سائنسی تحقیق کے قافلے کی مسافربن گئی۔اس نے1936ء میں مقابلے کا امتحان دیا اورامریکا کے مچھلیوں کے سرکاری ادارے سے منسلک ہوگئی۔زرخیزذہن نے اس کے اوپرترقی کے تمام دروازے کھول دیے۔ کارسن قدرتی ماحول، جانوروں، سمندری حیات اورماحولیات کے متعلق ایسی باتیں سوچتی تھی جوباقی سائنسدان سوچنے اورسمجھنے سے قاصرتھے۔

کارسن نے تحقیقی بنیادپرمقالے اورکتابیں لکھنی شروع کردیں۔اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔ایک مضمون The World of Watersحددرجہ سراہا گیا۔ امریکا کے تمام سائنسی اورتحقیقی حلقوں میں اس مقالہ کی حددرجہ پذیرائی ہوئی۔کارسن سرکاری نوکری سے کافی تنگ آچکی تھی۔مگرچھوڑنا ممکن نہیں تھا۔اس لیے کہ اس زمانے میں ماحولیات پرکام کرنے والے سائنسدان کی کوئی قدرنہیں تھی۔امریکا میں 1945ء میں کیمیکل فیکٹریوں نے ڈی ڈی ٹی بنانے کے کام کومکمل کرنے کااعلان کر دیا۔بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں نے آسمان سرپراُٹھا لیاکہ ایٹم بم کے بعد یہ دنیاکی سب سے بڑی ایجاد ہے۔

یہ فصلوںمیں کیڑے مکوڑوں کاخاتمہ کردے گی، زرعی پیداوارقیامت خیز رفتارسے بڑھ جائے گی۔حکومت نے اسے زرعی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دیدی۔ امریکی ریاستوں میں زرعی پیداوارکافی حدتک بڑھ گئی۔لانگ آئی لینڈکے کسانوں نے محسوس کیاکہ سپرے کی زیادتی سے ان کے جانوربھی بیمارہوجاتے ہیں اورلوگوں میں بعض خطرناک بیماریاں بھی عودکرآتی ہیں۔ مقامی کسان عدالت میں چلے گئے۔مگر دیوہیکل تجارتی کمپنیوں نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔مقدمہ امریکی سپریم کورٹ تک گیا۔کسان ہارگئے۔اس وقت تک امریکا ایک سپرپاوربن چکاتھا۔

جب کارسن سے پوچھاگیاکہ ڈی ڈی ٹی پراس کا کیا تجزیہ ہے توجواب تھاکہ اس کیمیکل کاکچھ علم نہیں۔ Audubon Naturlist Societyنے کارسن کو چارسالہ تحقیقی پروگرام دیدیاکہ وہ اس معاملے کی تہہ تک جائے۔کارسن نے چوہوں سے تحقیق کاکام شروع کیا۔ اس نے دیکھاکہ ڈی ڈی ٹی چوہوں میں کینسرکے مرض پیداکررہی ہے۔ اس کی ہمت مزیدبڑھ گئی۔رات دن تحقیقی معاملات کولکھنا شروع کردیا۔اپنی تحقیق کوSilent Springکے نام سے شایع کردیا۔اس مقالے نے قیامت برپاکردی۔ امریکی حکومت نے اس کی تردیدکے لیے ایک فلم بنائی جس کانامFire Ant on Trial تھا۔

کارسن کے خلاف مضامین لکھوانے شروع کردیے گئے۔امریکا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے صدرکولکھ کربھجوایاکہ یہ خاتون روس کی ایجنٹ اورکیمونسٹ ہے یعنی اسے غدار قرار دیدیا گیا۔مگرکارسن تحقیق کرتی رہی۔سیکڑوں لوگوں کے کیس ترتیب سے لکھے جو بعض کیڑے مار زرعی کیمیکلز کی وجہ سے بیمارہوچکے تھے۔مختلف سائنسدانوں نے کارسن کی تحقیق پرغورکرنا شروع کردیا۔چوٹی کے سائنسدان جیسے H.J.Muller, Loren Eiseley, Egleنے اپناوزن کارسن کے پلڑے میں ڈال دیا۔معاملہ اس درجہ سنگین تھاکہ امریکی صدر J.F Keneddyنے کارسن کوامریکی سائنسٹیفک کمپنی کے سامنے اپنی تحقیق ثابت کرنے کاحکم دیدیا۔ 1963ء میں کارسن نے کمیٹی کے سامنے سائنسی دلائل دیے۔

اس کی تحقیق کوصائب تسلیم کر لیاگیا۔امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی میں کارسن کوقوانین اورپالیسی بنانے کی دعوت دی۔کارسن اس وقت تک حددرجہ بیمارہوچکی تھی۔اس نے کمیٹی کے سامنے اپنی تحقیق کو توازن سے پیش کیا۔نتیجہ یہ نکلاکے حکومتی سطح پربھی ادراک ہواکہ زرعی فصلوں پرکیڑے مارنے والاکیمیکل سپرے انسانی جان کے لیے خطرناک ہے۔ڈی ڈی ٹی کے زرعی استعمال کو حکومتی سطح پرممنوع قراردیدیا گیا۔ مگر قوانین اورعملی پالیسی بننے تک کارسن کینسر کا شکار ہوکردنیاسے جاچکی تھی۔

پوری دنیامیں کیڑے ماردوائیوں کااستعمال موجود ہے مگریہ حددرجہ نظم وضبط کے ساتھ کیاجاتاہے تاکہ ان کے مضر اثرات سے بچا جاسکے مگرپاکستان میں ایسا ڈسپلن ہرگزہرگزموجودنہیں ہے۔اس سے پہلے کہ میں چند گزارشات پیش کروں۔عرض کروںگاکہ پاکستان میں ہرسال ڈیڑھ لاکھ کینسرکے نئے مریضوں کی تشخیص ہوتی ہے۔ایک لاکھ ایک سوتیرہ انسان تین سال میں مرتے ہیں۔دل کی بیماریوں کے بعد کینسرانسانی موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔بارہ فیصد پاکستانی کینسرکی بدولت زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔

کینسرکے پھیلنے میں ایک فیکٹر،کیڑے مار دوائیوں کا غیرمنظم اور بے جااستعمال بھی ہے۔ ہرگز عرض نہیں کررہاکہ کینسرصرف اورصرف ان دوائیوں کی بدولت پھیل رہاہے۔اس کے علاوہ بھی کینسر پھیلنے کی بے شمار وجوہات ہیں، جن کی بدولت یہ مرض تیزی سے پھیل رہاہے۔Donald J Ecobichonنے تیسری دنیا میں استعمال ہونے والے بعض کیمیکلزپرکئی مضامین لکھے ہیں۔وہ متنبہ کررہاہے کہ مغربی دنیاتو Organic Foodکی طرف جارہی ہے۔یعنی وہ فصلیں اورپھل جن میں کسی قسم کی کوئی کیمیکل کھاد یادوائی استعمال نہ ہو۔ مگر تیسری دنیاکے ممالک میں یہ رجحان انتہائی کم ہے ۔

اپنے ملک کی طرف توجہ دلاتاہوں، یہاں کوئی بھی ایسا تحقیقی ادارہ نہیں ہے جو زہریلے کیمیکلز کے صحت کو برباد کرنے والے اثرات سے عام لوگوں کو آگاہ کرے۔ کسان ناخواندہ ہے ، اسے کیمیکلز کے استعمال کا علم نہیں ہے۔جوکیمیکلزپوری دنیامیں ممنوع قراردیے جاچکے ہیں، پاکستان میں وہ بڑی آسانی سے فروخت اور استعمال کیے جارہے ہیں۔ بہرحال جس باشعور طبقے کو آگاہی ہے، وہ ہر ممکن حد تک آرگینک اشیا کا استعمال کرتے ہیں۔

لاہور،کراچی اوراسلام آبادمیں وہ دکانیں پھل پھول رہی ہیں جن میں بکنے والی کھانے پینے کی اشیاء میں کسی قسم کا کوئی کیمیکل،کھادیادوائی استعمال نہیں ہوتی۔ہربڑے شہر میں اس طرح کی دکانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ان دکانوںمیں ہرچیزحددرجہ مہنگی ہے۔مگرامیرلوگ ہر چیز وہیں سے خریدرہے ہیں۔لاہورمیں توہرمہینے ایک بہت بڑابازاربھی لگتاہے جہاں ہرطرح کی زرعی اجناس فروخت ہوتی ہے۔ان کاخاصہ یہی ہے کہ یہ مکمل طور پر Organicہیں۔ بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو سبزیاں،گوشت اورکھانے پینے کی دیگراشیاء اسی طرح کی دکانوںاورمارکیٹوں سے خریدتے ہیں۔ مگران میں اور عام آدمی میں ایک جوہری فرق ہے۔ ان لوگوں کے پاس خریدنے کے لیے وافر پیسے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں تواکثریت غریب بلکہ حددرجہ غریب لوگوں کی ہے۔یہ عام دکانوں سے ہی سبزی، پھل، اور دیگراشیا خریدنے پرمجبورہیں۔انھیں تویہ پتہ بھی نہیں ہے کہ جس سبزی کوبڑے شوق سے خودکھارہے ہیں وہ زہر آلود بھی ہوسکتی ہیں۔کوئی نہیں ہے جوریچل کارسن جیسی بہادری دکھائے۔ریچل تواپنی زندگی کا مقصد پورا کر گئی۔ مگرپاکستان میں توکوئی بھی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں