پولیس آفیسر گرفت میں
ایسا ہی محمد رضا کے ساتھ ہوا۔ کام کے دوران ہاتھ زخمی ہوگئے اور ایک ہفتے کے لیے کام کرنے کے قابل نہ رہا
QUETTA:
'' پولیس کے سب انسپکٹر نے مجھ سے بیس ہزار روپے مانگے ہیں'' پر میں غریب آدمی ہوں کیسے دوں؟ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا اور میری جانب التجائیہ نگاہوں سے دیکھا۔ محمد رضا نامی یہ شخص فرنیچر پالش کے کام سے وابستہ ہے۔ ایک مزدور جو حلال کما کر اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہے۔ عجب المیہ ہے کہ حلال کمانے والا غربت کی چکی میں پس کر اپنا خون پسینہ بہا کر بھی اپنے بچوں کا پیٹ پالنے میں ناکام ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حلال کمانے والا بہترین زندگی گزارتا ہے لیکن تیسری دنیا میں رہنے والے حرام خور ہی ویسی زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ اچھی زندگی گزارنے والے سارے ہی لوگ غلط ہوں بلکہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں حرام کمانے والا نہ صرف بہت کما جاتا ہے بلکہ قانون کی گرفت سے بھی اسی پیسے کے بل بوتے پر بآسانی نکل جاتا ہے،۔ خیر تو میں بتا رہا تھا کہ یہ غربت غریب کو ظالم بھی بنا ڈالتی ہے۔
ایسا ہی محمد رضا کے ساتھ ہوا۔ کام کے دوران ہاتھ زخمی ہوگئے اور ایک ہفتے کے لیے کام کرنے کے قابل نہ رہا ۔ یومیہ بنیادوں پر کمانے والا مزدور اگرکسی باعث گھر بیٹھ جائے تو چولہا کیسے جلے ۔ اسی بات پر بیوی سے جھگڑا ہوگیا۔ ذہنی اذیت کا شکار رضا نہ صرف بیوی پر ہاتھ اٹھا بیٹھا بلکہ اس کے سیل فون کو توڑ بیٹھا۔ جس طبقہ سے تعلق تھا وہاں شاید بیوی مار تو برداشت کر جاتی پر اپنی واحد تفریح کے ذریعے کا قتل وہ برداشت نہ کر پائی غصے میں زہر پی ڈالا ۔ پھر بیوی کو اپنی حماقت کا اندازہ ہوا اور شوہر یاد آیا۔ رضا اسے لیے اسپتال جا پہنچا اور سسرال والوں کو بھی بلا ڈالا۔ وقت پر اسپتال پہنچنے کے باعث اس کی جان بچ گئی اور سسرال والے رضا کے شکر گزار ہوئے۔
جناح اسپتال سے سسرال کا گھر قریب تھا تو زوجہ کو وہاں منتقل کر کے گھر پہنچا ہی تھا کہ اسے فون کال موصول ہوئی۔ صبح پانچ بجے موصول ہونے والی کال شارع نور جہاں تھانے کے سب انسپکٹر اور رات کے ڈیوٹی افسر کی تھی۔ رضا کو فوری تھانے حاضر ہونے کا حکم ملا۔ چوبیس گھنٹے سے جاگتے رضا نے التجا کی کہ حضور ابھی توگھر پہنچا ہوں رحم فرمائیے۔
موصوف نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے دو گھنٹے عنایت فرما دیے۔ دو گھنٹے بعد جب رضا تھانے پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ اگر خیریت چاہتے ہو تو بیس ہزار روپے کا انتظام کرو ورنہ بیوی کے قتل کی سازش میں ساری عمر جیل کی چکی پیستے رہ جاؤ گے۔ رضا دہائی دیتا رہا کہ حضور ایم ایل او کے سامنے بیوی سچ قبول کر چکی ہے اس کے گھر والے بھی وہاں موجود تھے اور ایم ایل او بھی حاضر ہے پر وردی کے خمار میں مبتلا موصوف نے چند گھنٹوں کی مہلت دی۔ غمزدہ رضا پریشان حال گھر واپس آیا پر پیسوں کا انتظام کیونکر ممکن۔ مہنگائی نے کمر توڑ رکھی ہے جس باعث اس کا گھر ٹوٹنے تک کی نوبت آئی۔ اس کی تو حالت یہ تھی کہ اسپتال کے اخراجات بھی سسرالیوں نے برداشت کیے۔
اندھیروں میں ڈوبی زندگی کے مسافر کو امید کی کرن میڈیا کی صورت میں نظر آئی اور اس نے ہم سے رابطہ کیا اور اس وقت رضا میرے سامنے موجود رندھی آواز میں بپتا سنا رہا تھا۔ میں اپنے پروگرام گرفت کے ساتھیوں کے ساتھ وہاں بیٹھا آیندہ کے لائحہ عمل پر غور کر رہا تھا۔ ہم متعلقہ تھانے سے قریب ایک چائے خانے پر موجود تھے تاکہ کسی کو شک نہ ہونے پائے۔ یہ لو پانچ ہزار روپے اور ہمارے نمایندے کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ ہمارا نمایندہ خاصہ منجھا ہوا تھا اور خفیہ کیمرے اور مائیک سے لیس تھا۔ اسے اپنا دوست ظاہر کرنا اور یاد رکھنا کہ اس افسر کو شک نہ ہونے پائے کیونکہ قانون ثبوت مانگتا ہے اور بغیر ثبوت کے ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔ ان کے واپس آنے تک جان سولی پر ٹنگی رہی کہ مبادا وہ پھنس گئے تو بغیر ثبوت حاصل کیے لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
وہ واپس آچکے تھے اور موصوف کے ویڈیو ثبوت حاصل کر لیے تھے۔ سکھ کا سانس لے بھی نہ پائے تھے کہ ایک نئی الجھن آن پڑی۔ کے الیکٹرک کی مہربانی کے باعث دو گھنٹے کے لیئے بجلی غائب ہو چکی تھی۔ بجلی کے بغیر ہمارے کیمرے بے کار ہو سکتے ہیں اور دو گھنٹے بعد تھانے وارد ہونے کی صورت میں متعلقہ افسر کی جانب سے کسی بھی سازش کا شکار ہو سکتے ہیں۔ میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر رہا تھا۔ ظاہر ہے رات بارہ بجے کے بعد اپنی نوکری کو داؤ پر لگتے دیکھ کر وہ افسر کچھ بھی کر سکتا تھا اور ایسے اوقات میں تو اس کے اعلیٰ افسران سے رابطہ بھی مشکل ہوتا۔ ہم پر کوئی بھی الزام لگا کر ایف آئی آر درج ہو سکتی تھی۔ بہر کیف حق و سچ کا ساتھ دینے کی ٹھانی اور مزید تین ہزار روپے تھما کر رضا کو نمایندے کے ساتھ اگلے مشن پر بھیجا جہاں سے کامیابی کے ساتھ وہ لوٹ آئے۔ مزید ثبوت حاصل ہو چکے تھے اور اب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ متعلقہ تھانے میں مائیک تھامے اس افسر کے سامنے تھا۔
کس قانون کے تحت آپ اسے تھانے بلا رہے ہیں؟ میرے سوال کے جواب میں موصوف نے عرض کی کہ تفتیش کے لیے۔ تفتیش تو کسی ایف آئی آر کے درج ہونے کی صورت میں ہوتی ہے کیا ان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہے؟ میرے اس سوال پر موصوف کو اندازہ ہو گیا کہ قانون سے کسی حد تک واقفیت رکھتا ہوں۔ میرا مطلب ہے انھیں میں نے جانچ کے لیے بلایا تھا۔ کیسی جانچ؟ میں نے پوچھا۔ کچھ ہی دیر میں مختلف سوالوں کے جواب دینے میں ناکامی کے بعد میں مدعے پر آچکا تھا۔ آفیسر جو نوٹ آپ کی جیب میں موجود ہیں سامنے رکھ دیجیے کیونکہ ان کے سیریل نمبر میرے پاس نوٹ ہیں بصورت دیگر اسی وقت اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا جائے گا۔ میں تو کچھ دیر پہلے ہی بینک سے تنخواہ کی رقم نکال کر لایا ہوں آپ میرا پرس دیکھ سکتے ہیں اور یہ کیمرہ ہٹائیے آپ میری توہین کر رہے ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا پرس نکالا اور کمال ہوشیاری سے ہمارا پانچ ہزار کا نوٹ نیچے گرا ڈالا جسے کیمرہ مین عرفان حسن کی نگاہوں نے جا پکڑا۔ آپ کی ویڈیوز ہمارے پاس ہیں یہ دیکھیے۔
سیل فون میں ریکارڈ ویڈیوز اس کو دکھانے کے ساتھ میں نے آگاہ کیا کہ مزید کسی غلطی یا مہم جوئی سے گریز کرے کیونکہ ہمارے سیل فون میں موجود یہ مناظر ہم اپنے دفتر سمیت مختلف جگہوں پر محفوظ کر چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو شہر کا رخ کرتا ہے۔ ہارے ہوئے جواری کے انداز میں اس نے مجھ سے الگ کمرے میں بات کرنے کی التجا کی۔ اسے اندازہ نہ تھا کہ ہمارے خفیہ کیمرے سب مناظر فلمبند کر رہے ہیں۔ الگ کمرے میں ضرور گیا پر اپنے سب ساتھیوں کے ساتھ جہاں موصوف نے معافی مانگ کر رقم رضا کو واپس کردی۔ رضا کی جان بخشی کروا کر تھانے سے باہر آ ہی رہے تھے کہ ایس ایچ او راؤ صاحب تھانے میں داخل ہوئے۔ مجھے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دیکھ کر چونکے اور رات کے اس پہر تھانے آنے کی وجہ جاننا چاہی۔ کھانے کی دعوت دی پر ہمارے انکار پر چائے کے بغیر جانے نہ دیا۔
خاندانی راجپوت ہونے کے ساتھ محکمہ پولیس کہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی وردی کا سودا نہیں کرتے تو بغیر چائے کے جا کر ان کی دل آزاری کی ہمت نہ ہوئی۔ چائے نوشی کے دوران ان کو سارا ماجرہ کہہ سنایا جس پر اپنے ساتھی افسر کی غلطی پر وہ کچھ شرمندہ سے نظر آئے۔ راؤ صاحب نے اس کی کوئی سفارش نہ کی۔ اگلے روز ایس ایس پی صاحب نے سب انسپکٹر کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا جس میں ثبوتوں کی بنیاد پر وہ غلط قرار پایا اور معطل کر دیا گیا۔ ہم نے وہ سب کچھ ایکسپریس نیوز ٹی وی کے اپنے پروگرام گرفت میں نشر کر کے صحافتی ذمے داری نبھائی اور اسی طرح آیندہ بھی نبھاتے رہیں گے جب تک اللہ کو منظور ہے۔