سورج کے ابھرنے کو نہ تم روک سکو گے

یہ محنت کش طبقہ غیر منظم و منتشر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کا ایندھن بھی بنتا گیا۔



قبل اس کے کہ ہم شکاگو کے ان شہید محنت کشوں کو خراج عقیدت پیش کریں جنھوں نے ایک عظیم مقصد کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے محنت کشوں کو جدوجہد کی ایک نئی جہت دی اور یہ ثابت کردیا حقوق جدوجہد سے حاصل ہوتے ہیں۔

سماج کے یہ ٹھیکیدار حقوق تھالی میں رکھ کر پیش نہیں کرتے اب ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح کریں گے کہ کوئی 45 برس قبل ہم نے ایک فلم دیکھی تھی ''آدمی'' اس فلم کا نام تھا۔اس فلم کے ایک منظر میں فلم اسٹار محمد علی عدالت میں جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ''جج صاحب! میں ایسے نظام کو نہیں مانتا جس نظام میں ایک انسان کے پاس کروڑوں روپے ہوں اور کروڑوں انسانوں کے پاس ایک روپیہ بھی نہ ہو۔'' عام فہم نظروں سے دیکھا جائے تو یہ ایک فلمی مکالمہ ہے اور حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو یہ اس دور یعنی آج سے 45 برس قبل عصر حاضر و مستقبل کی حقیقی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔

کیونکہ وہ دور بھی معاشی معاملات میں آج کے دور سے مختلف نہ تھا۔ بھوک، ننگ، افلاس، جہالت اس دور میں بھی تھے اور آج بھی ہیں اور جب تک موجودہ سرمایہ داری نظام موجود رہے گا اور سرمایہ داری آمریت طرز حکمرانی رہے گا یہ دو طبقاتی کشمکش جاری رہے گی کیونکہ اس سرمایہ داری نظام کی خرابی یہ ہے کہ اس نظام میں ملکی وسائل بڑی سرعت سے چند ہاتھوں میں منتقل ہوتے جاتے ہیں نتیجہ یہ کہ فقط چند لوگ امیر سے امیر تر و دیگر تمام لوگ غریب سے غریب تر ہوتے جاتے ہیں۔

اب ان حالات میں بلاشبہ سماج میں عام شہری مسائل کا شکار ہوتے چلے جائیں گے۔ ان مسائل میں غذائی قلت، بے روزگاری ، رہائشی مسائل، تعلیمی معیار کا گرنا، جرائم میں اضافہ و دیگر اخلاقی جرائم ایسے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ یہ کیفیت فقط غریب ممالک تک محدود نہیں رہتی بلکہ آج کی دنیا کی واحد سپر پاور امریکا تک میں کیفیت یہ ہے کہ امریکا میں اس وقت بے روزگار افراد کی تعداد 25 ملین سے تجاوز کرچکی ہے لاکھوں لوگ اس ترقی یافتہ ملک میں ایسے ہیں جوکہ خیراتی اداروں میں جاکر کھانا کھانے پر مجبور ہیں ایسے لوگوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے جوکہ بیمار ہونے کی صورت کھانے کے پیسوں سے دوا خرید لیتے اور بھوکے پیٹ سو جاتے ہیں کیونکہ ان کی خودداری انھیں اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ خیراتی اداروں میں جاکر کھانا کھائیں۔

اب اگر مزید بات کریں تو بنگلہ دیش کی مثال دینا ہی کافی ہوگا۔ اسی بنگلہ دیش کی بات کر رہا ہوں جس کی معاشی ترقی کی ایک طبقہ بار بار مثال دیتا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے چنانچہ ترقی پسند نظریات کے حامل برطانوی ماہر معاشیات دان مک بروکس نے جس نے تھوڑا عرصہ قبل بنگلہ دیش کے گارمنٹ ورکرز جن کی اکثریت نوجوان خواتین پر مشتمل ہے کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق گارمنٹ کی صنعت سے وابستہ ایک نوجوان لڑکی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو بسا اوقات طوائفوں پہ رشک آتا ہے کیونکہ جسم فروشی کی صنعت میں کام کرنے والی لڑکیوں کی معاشی حالت ہم گارمنٹ ورکرز سے کہیں بہتر ہوتی ہے گویا اس رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ جسم فروشی بنگلہ دیش میں ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکی ہے اب بھارت، برما، نیپال، بھوٹان ، سری لنکا، تھائی لینڈ و پاکستان تو کیا یہ اخلاقی برائیاں تو روس و چین تک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔

ان تمام برائیوں و مسائل کا ذمے دار ہے سرمایہ داری نظام۔ جہاں جہاں یہ نظام رائج ہوتا جائے گا عام شہریوں کے لیے سماجی مسائل و اخلاقی برائیوں کا سامان کرتا جائے گا۔ اب اگر ذکر عالمی سرمایہ داری کا کریں تو پھر کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ اپنے اپنے مفادات کے لیے ملکوں ملکوں خانہ جنگی کروانا عالمی سطح پر لوٹ مار کا بازار گرم رکھنا پسماندہ ممالک کے درمیان جنگیں کروانا عالمی سرمایہ داری نظام کا مقصد اولین ہے اپنے سیاہ کارناموں کو قانونی شکل دینے کے لیے اقوام متحدہ، سیکیورٹی کونسل، عرب لیگ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (IMF)، عالمی بینک جیسے ادارے قائم کرنا ہے۔ ایک اور ہولناک کھیل کھیلا جاتا ہے وہ کھیل ہے ان عالمی سرمایہ داروں کا باہمی ٹکراؤ۔ یہ ٹکراؤ محض دکھاوا نہیں ہوتا بلکہ یہ ٹکراؤ ان کے باہمی اختلافات کے باعث ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ ٹکراؤ عالمی مارکیٹ پر قبضے کے لیے ہوتا ہے۔

یہ عالمی مارکیٹ پر قبضہ بھی عارضی ہوتا ہے کیونکہ ایک عرصے بعد ایک قابض ملک کے خلاف دوسرا ملک اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں میرا بھی حصہ ادا کرو۔ بہرکیف ان تمام حالات میں جنگی ایندھن بنتا ہے محنت کش طبقہ۔ کیونکہ اسی طبقے کے نوجوان غربت سے تنگ آکر فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اور سرمایہ داروں کی باہمی چپقلش کے باعث لڑی جانے والی جنگوں میں جانیں نچھاور کر دیتے ہیں یہ ضرور ہے کہ اس نوع کی جنگوں کو دفاع وطن و دفاع مذہب کا نام دیا جاتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس شتر بے مہار کا مقابلہ کون کرے اور کیسے کرے؟ مطلب یہ کہ سرمایہ داری نظام کا مقابلہ کون سی قوت ہے جو اس کا راستہ روکے و اسے نیست و نابود کردے؟ کیونکہ ضروری ہے یہ جبر و استحصال کا یہ نظام ختم کرکے حقیقی جمہوریت قائم کی جائے یعنی عوامی راج قائم ہو جس راج میں روزگار، رہائش، خوراک، پوشاک، تعلیم، علاج کی سہولیات تمام شہریوں کو فراہم کرنے کی حکومت وقت ذمے دار ہو۔

چنانچہ یہ سب کرنے والی قوت ہے محنت کش طبقہ۔ یہ وہ طبقہ ہے جوکہ کارل مارکس کے اس نظریے کی تکمیل کرسکتا ہے جس کے تحت کارل مارکس نے کہا تھا کہ اب تک فلسطینیوں نے دنیا کی فقط تشریح کی ہے مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کو بدل دیا جائے چنانچہ یہ ضرورت ہے کہ کارل مارکس نے اس دور میں جنم لیا جب یہ محنت کش طبقہ پیدا ہوچکا تھا۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی محنت پر ہمیشہ دوسرے لوگوں نے عیش و عشرت کی زندگی بسر کی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طبقے کے پاس فروخت کے لیے فقط اپنی محنت ہے۔ چنانچہ یہ محنت کش طبقہ جب حقوق کی لڑائی لڑتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ ماسوائے غلامی کی زنجیروں کے ہمارے پاس ہے کیا؟ اور کامیابی کی صورت میں سارا جہاں ہمارا ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں محسن بھوپالی نے کہا ہے کہ:

فطرت کے بھی بس میں نہیں فطرت کو بدلنا

سورج کے ابھرنے کو نہ تم روک سکو گے

یعنی کامیابی یقینی ہے البتہ یہ لازم ہے کہ اگر ہمارے سماج کا تذکرہ کریں تو کیفیت یہ ہے کہ یہاں محنت کش طبقے نے 1950 سے 1970 تک اپنی جدوجہد سے بہت کچھ حاصل کرلیا۔ 1970 کے بعد یہ محنت کش طبقہ غیر منظم و منتشر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کا ایندھن بھی بنتا گیا۔ آج پھر تمام حقوق سے محروم ہوچکا ہے۔

اب ان حالات میں ضروری ہے کہ مارکسی نظریات کے حامل دانشور ٹریڈ یونین سے وابستہ رہنما و بائیں بازو کی سیاست کرنے والے سیاسی رہنما اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ایک آل پاکستان کانفرنس کا انعقاد کریں۔ سماجی مسائل کا جس میں حقیقی و سائنسی بنیادوں پر ادراک کریں طویل غور و غوض کے بعد ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں اور ایک حقیقی مارکسی سیاسی جماعت تشکیل دیں البتہ یہ امر مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ترقی پسندوں میں ایک خوبی ہوتی ہے کہ جہاں پانچ جمع ہوتے ہیں تنظیم قائم کرلیتے ہیں۔

البتہ خرابی یہ ہے کہ جہاں یہ دس ہوتے ہیں وہیں دو دھڑے بن جاتے ہیں۔ بہرکیف کاش تیرے دل میں اتر جائے میری بات ۔ آخر میں ہم یکم مئی 1886 میں امریکا کے شہر شکاگو میں محنت کشوں کے حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اس عہد کے ساتھ کہ اے شکاگو کے شہید محنت کشو! بے شک تم لوگوں نے آج سے 133 برس قبل جو قربانی دی تھی اور تاریخ میں امر ہوگئے تھے تمہاری قربانی رائیگاں نہیں جانے دیں گے، لڑیں گے، جبر و استحصال کے خاتمے تک، بھوک، ننگ ، جہالت و افلاس کے خاتمے تک، سرمایہ داری نظام کے نیست و نابود ہونے تک، عوامی راج قائم ہونے تک ہم جدوجہد جاری رکھیں گے یہ ہمارا عزم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں