سندھ میں کوئلے سے متعلق متعدد ادارے خزانے پر بوجھ بن گئے

کروڑوں کے اخراجات، مائنز اینڈ منرلز، سندھ کول اتھارٹی، تھرکول اینڈ انرجی بورڈ، محکمہ توانائی شامل


ہر ادارے کے الگ الگ سربراہ، افسران اور ماتحت ملازمین تنخواہیں، مالی مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

HYDERABAD: صوبہ سندھ میں معدنی ذخائر کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں، یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ ملک میں کوئلے کا سب بڑا ذخیرہ صوبہ سندھ میں ہے لیکن صوبے کو کوئلے کی ترقی کے لیے کتنے سرکاری اداروں کی ضرورت ہے۔

حیرت انگیز طور پر صوبے میں موجود تمام معدنی وسائل کی ترقی کے لیے ایک ہی سرکاری ادارہ محکمہ مائنز اینڈ منرلز کافی ہے جبکہ صرف کوئلے کی ترقی کے لیے کئی ادارے اور ذیلی ادارے کام کر رہے ہیں، جو صوبے کے اخراجات پر غیرضروری بوجھ بنے ہوئے ہیں، ہر ایک ادارے کے الگ الگ سربراہ، افسران اور ماتحت ملازمین ہیں جو بڑی بڑی تنخواہیں اور مالی مراعات حاصل کر رہے ہیں۔

ابتدائی طور پر کوئلے سمیت تمام معدنی وسائل کی ترقی محکمہ مائنز اینڈ منرلز کے ذمے ہوتی تھی، یہی محکمہ کوئلے کی کانوں کی لیز اور لائسنس جاری کرنے کا مجاز ہوتا تھا، 1992 میں تھر میں کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر دریافت ہونے کے بعد اس وقت کی صوبائی حکومت نے 1993 میں سندھ کول اتھارٹی کے نام سے ایک الگ ادارہ قائم کیا اور بتایا گیا کہ کوئلے کے ذخائر سے بہتر استفادہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس پر خصوصی توجہ دی جائے۔

اس دوران محکمہ مائنز اور منرل سندھ نے کوئلے کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں جاری رکھیں اور نیشنل منرل پالیسی کے تحت دیگر معدنی وسائل کی ترقی کے لیے بھی کام کیا، واضح رہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد بھی صوبہ سندھ میں صوبائی سطح پر معدنی وسائل کی ترقی کے لیے تاحال کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔

2008 میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے تھر میں کوئلے کے ذخائر کی ترقی کے لیے وفاقی سطح پر ایک ادارہ تھر کول اتھارٹی بنانے کے فیصلہ کیا تاہم سندھ حکومت کی جانب سے تحفظات کے اظہار کے بعد انھیں یہ فیصلہ واپس لینا پڑا، اس کے متبادل کے طور پر حکومت سندھ نے تھر کول اینڈ انرجی بورڈ کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا، لیکن اس ادارے کے قیام کے بعد بھی سندھ کول اتھارٹی کو ختم نہیں کیا گیا۔

اس کے بعد صوبہ سندھ میں کوئلے کی ترقی پر کام کرنے والے اداروں کی تعداد 3 ہوگئی کیونکہ محکمہ مائنز اینڈ منرل سندھ نے بھی کوئلے کی ترقی کے لیے اپنا کام جاری رکھا ہوا تھا، بعد ازاں حکومت سندھ نے صوبے میں توانائی کی ترقی کے لیے محکمہ توانائی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں متبادل توانائی کے شعبے کے طور پر کوئلے کو بھی شامل کیا گیا۔

اس محکمہ کے الگ سے سیکریٹری اور وزیر مقرر کیے جاتے ہیں، محکمہ توانائی میں کوئلے سے متعلق الگ سے 3 ذیلی ادارے قائم کیے گئے جن میں ڈاریکٹوریٹ جنرل آف کول مائنز، ڈاریکٹوریٹ آف کول انرجی ڈیولپمنٹ اور انسپیکٹوریٹ آٖ ف کول مائنز شامل ہیں۔

محکمہ توانائی کی ویب سائٹ کے مطابق مذکورہ محکمے کو کوئلے کے ذخائر سے متعلق تمام ذمے داریاں اور اختیارات حاصل ہیں جن میں کوئلے کی کانوں کی مائننگ کے لیز جاری کرنا، لائسنس اور پرمٹ دینا، رائلٹی وصول کرنا، کوئلے کی برآمد سے لے کر انویسٹرز سے مذاکرات کرنا شامل ہیں۔

محکمہ توانائی میں کوئلے سے متعلق 3 ذیلی ادارے بنانے کے بعد بھی حکومت سندھ نے پہلے قائم کیے گئے ادارے برقرار رکھے ہیں۔ ان کے الگ الگ سیکریٹریٹ یا دفاتر ہیں، ان اداروں کے مجموعی طور پر سینکڑوں کی تعداد میں ملازمین ایک ہی قسم کے کام پر فائز ہیں اور ان کی تنخواہوں اور مراعات پر ہر ماہ کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں جب صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان اداروں کی افادیت تاحال برقرار ہے، ان کا کہنا تھا کہ سندھ کول اتھارٹی کافی عرصہ پہلے بنایا گیا تھا جس کا کام کوئلے کے مقام والے علاقوں میں ترقیاتی کام کرنا تھا، یہ ادارہ اب بھی سندھ میں دیگر جگہوں پر موجود کوئلے کے ذخائر بالخصوص ٹھٹہ اور بدین میں ترقیاتی کاموں پر کام کر رہا ہے، اسی طرح تھر کول اینڈ انرجی بورڈ دیگر کاموں کے علاوہ تھر میں کوئلے کی قیمتوں کے تعین کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں