کرنسی نوٹ کی نیلامی کیوں
اس طرح ممکنہ عوامی شکایات کے تصفیے کے لیے قائم ہیلپ ڈیسک اپنی افادیت کھوچکی ہیں
امسال اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رمضان المبارک کے دوران کمرشل بینکوں کو 48 ارب روپے سے زائد کے نئے کرنسی نوٹ فراہم کیے ۔ ملک بھر کے ایس بی پی بی ایس سی کے دفاتر نے 12 جولائی 2013 سے نئے کرنسی نوٹ جاری کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو عیدالفطر سے قبل آخری یوم کار تک جاری رہا، جب کہ کمرشل بینکوں، مائیکرو فنانس بینکوں کی شاخوں نے عوام، کھاتے داروں اور کارپوریٹ کلائنٹس کو 10 روپے، 20 روپے 50 روپے کے کرنسی نوٹوں کے پیکٹ بھی جاری کیے۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی کرارے نوٹوں کا حصول کاروبار بنا۔ ملک میں نئے نوٹوں کی بلیک میلنگ کرنے والوں نے اپنے کارندوں کو لائن میں لگوا دیا، جہاں خواتین اور مردوں کا رش لگا ہوا تھا۔
پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ خیرات تقسیم ہورہی ہے لیکن یہ رش نئے کرارے نوٹ لینے والوں کا تھا جو اپنی ضرورت کے لیے نہیں بلکہ کاروبار کے لیے جمع ہوئے تھے، اس رش کی وجہ سے ٹریفک بلاک رہی اور لوگوں کو آمدورفت میں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ بینک پالیسی کے مطابق ایک شہری کو شناختی کارڈ کے اندراج پر نئے نوٹوں کی 5 گڈیاں مل سکتی تھیں لیکن صورت حال ہر سال اس کے برعکس نظر آتی ہے، جہاں پیکٹ کے پیکٹ بھی دستیاب تھے، جو سادہ لوح شہریوں کو مہنگے داموں فروخت کیے جارہے تھے۔ یعنی دس روپے والی نوٹ کی گڈی پر اوپن مارکیٹ میں 100 روپے منافع کمایا گیا۔
اس طرح ممکنہ عوامی شکایات کے تصفیے کے لیے قائم ہیلپ ڈیسک اپنی افادیت کھوچکی ہیں اور منافع خور بلاخوف و خطر اپنے کاروبار میں مگن ہیں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کرنسی ڈیلرز کے مطابق انھیں بھی نئے نوٹ لانیوالوں کو کمیشن دینا پڑتا ہے۔ ایک رپورٹ کیمطابق کراچی کے بولٹن مارکیٹ، بانڈز مارکیٹ اور اطراف کے کرنسی ڈیلرز زائد رقم لے کر کھلے عام نئے نوٹ بیچتے رہے۔ اطلاعات کے مطابق 10 روپے والے نئے نوٹوں کی گڈی پر 200 روپے، 20 روپے والی گڈی پر 3000 روپے، 50 روپے والی گڈی پر 700 روپے جب کہ 100 روپے والی گڈی پر 600 روپے اضافی وصول کیے گئے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 12 جولائی کو ختم ہفتے میں زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مالیت 10 ارب (دس ارب) 50 کروڑ19 لاکھ ڈالر تھی جو 19 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے میں کم ہوکر 10 ارب 20 کروڑ 27 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئی، یعنی ایک ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک کے ذخائر 36 کروڑ 78 لاکھ ڈالر کم ہوکر 5 ارب 15 کروڑ 33 لاکھ ڈالر جب کہ کمرشل بینکوں کے ذخائر 6 کروڑ86 لاکھ ڈالر اضافے سے 5 ارب 4 کروڑ 94 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئے۔ یاد رہے کہ درآمدی بل کی ادائیگیوں، آئی ایم ایف و دیگر قرضوں کی واپسی کے باعث پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی آرہی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر میں جلد اضافہ نہ ہوا تو پاکستان ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا شکار ہوسکتا ہے اور روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہوسکتی ہے۔ فی الوقت ہمیں ایک امریکی ڈالر کے بدلے 103.25 روپے دینے پڑ رہے ہیں۔ ایسے میں کرنسی نوٹوں کا کاروبار کرنے والے منافع خور حضرات 50,20,10 اور 100 روپے مالیت کے بے قدر مگر ان کے لیے قدردان نئے کرارے نوٹوں کو بلیک میں فروخت کرکے خوش حالی کو اپنی ذات تک محدود رکھے ہوئے ہیں اور غریب لوگ اپنی قومی دولت سے دن بہ دن دور ہوتے جارہے ہیں اور یہ دن سر پر آتا دکھائی دے رہا ہے کہ جب قومی دولت کو ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار ہوں گے۔ اور یہ دن ملک سے ''غربت کے خاتمے'' کا خاتمہ دن ہوگا یعنی یہ مہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی۔
ہم اور آپ جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہ گھٹن زدہ ہے، اگر محسوس کیا جائے تو ہر دوسرا شخص ایک دوسرے کو نوچ رہا ہے نتیجتاً ہم سب لہولہان ہیں۔ کہاوت ہے کہ ''بکنے اور نیلام ہونے والی چیز اپنی حیثیت کھو بیٹھتی ہے'' کیوں کہ وہ بکاؤ مال ہوتا ہے، بک جاتی ہے اور خریدار اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرکے اپنی غرض تو پوری کرلیتا ہے لیکن اس کی تعظیم نہیں کرتا۔ ذرا غور و فکر کریں! جھوٹ و فریب کی دنیا کے اس بازار میں ایسی کون سی چیز ہے جو شعبہ ہائے زندگی کی دکانوں میں قیمت ادا کرکے نہ خریدی جارہی ہو؟ ہر اچھی اور غیرمعیاری شے زندگی کے بازار میں سجی ہوئے ملے گی۔ خود اس کی اصل قیمت کم کیوں نہ ہو، زائد رقم دے کر خریدی جارہی ہے، کیوں؟ کیونکہ کاروباری نقطہ نگاہ سے جس چیز کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے تو اس کی قیمت بڑھادی جاتی ہے۔ اس تناظر میں یہ قومی المیہ نہیں تو پھر اور کیا ہے کہ ہماری قومی دولت (کرنسی نوٹ) جو ہماری قومی پہچان کا ایک اہم جز ہے یوں سر راہ بلیک مارکیٹنگ میں فروخت کی جارہی ہے کہ جیسے کسی زمانے میں بازار مصر میں کسی لونڈی کی خوبیاں بیان کرکے اسے چند اشرفیوں کے عوض نیلام کیا جاتا رہا ہے۔
ایک اور جاہلانہ رسم شادی یا دیگر تقریبات میں کرنسی نوٹوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں، یہ بے جا اسراف تو ہے ہی، مگر اس سے ایک سماج کی مریضانہ، غلامانہ، قبائلی اور جاگیردارانہ رویے کی عکاسی ہوتی ہے، یہ دکھاوے،نمود ونمائش اور ''بھرم بازی'' کی دوڑ کو مہمیز دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اکثر قوالی اور شادی بیاہ کی تقاریب میں قوال اور مقبول گلوکار اتنا کلام نہیں سناتے جتنی ان پر نوٹوں کی مسلسل بارش ہوتی ہے۔ اب یہ منظردیگر مذہبی نوعیت کی محفلوں میں بھی نظر آتا ہے۔ کرنسی نوٹ کی اقتصادی قدروقیمت ہمارے معاشی اور ثقافتی نظام سے جڑی ہوئی ہے اسے اس طرح بے توقیر نہیں کرنا چاہیے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے! اس جانب فوری توجہ دی جائے۔ جس طرح داغ دار، پھٹے پرانے کرنسی نوٹوں کی بابت قوانین اور احکامات کا اجراء کیا گیا ہے اسی طرح قوانین اور احکامات کی روشنی میں ملکی کرنسی نوٹوں کی تعظیم میں بذریعہ ایجنٹ فروخت پر پابندی عائد کردی جائے اور اس مافیا کا کھوج لگاکر تہس نہس کردیا جائے جو نئے کرنسی نوٹوں کی قلت یا عدم دستیابی کا باعث بنا ہوا ہے جو بلیک مارکیٹنگ میں ملوث ہیں۔ یہ قومی ذمے داری ہے کہ عوام الناس کو نئے کرنسی نوٹوں کی فراہمی کو ہر قومی تہوار کے موقع پر یقینی بنایا جائے۔