وائی کنگز
ذہن میں فطری سوال ہوگاکہ وائی کنگزکے متعلق کیوں لکھ رہاہوں۔ان کاتوہمارے ملک یاعلاقے سے کوئی تعلق نہیں۔
رگنیر(Ragner)آج سے بارہ صدیاں پہلے کا ایک حیرت انگیزکردارتھا۔بنیادی طورپرایک عام سا کسان۔کھیتی باڑی میں مصروف رہنے والاشخص۔قدیم وقت میں ملکی سرحدیں باضابطہ طورپرنہ ہونے کی بدولت یہ کہناتوقدرے مشکل ہے کہ رگنیرناروے،سویڈن یاآئس لینڈکس ملک کاشہری تھا۔ اس لیے بھی کہ یہ تینوں ملک اس وقت وجودمیں نہیں آئے تھے۔ پورے علاقے کواسکینڈے نیویا کہا جاتا تھا۔بہت زیادہ سرد علاقہ،برف اورسادہ سی زندگی۔اس زمانے میں معلومات کی فراوانی کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
دوسرے علاقوں کے متعلق جاننا حد درجہ دشوار تھا۔ رگنیرکوکسی نے بتایاکہ اگرسمندرمیں سفر کر کے مغرب کی طرف جایا جائے توبہت زرخیزاور امیر علاقے موجود ہیں۔ اس میں دو انتہائی شدیدمسائل تھے۔ سب سے پہلے تو مغرب کی طرف کسی نے سفرنہیں کیا تھا کیونکہ کوئی ایساذریعہ ہی نہیں تھاکہ سمندرمیں سمت کااندازہ لگایا جاسکے۔
دوسرا، مقامی بادشاہ کی طرف سے مغرب کی طرف جانے کی پابندی تھی۔ رگنیر انتہائی مہم جوانسان تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امیر ہونا چاہتاتھا۔یہ مواقعے مقامی طورپرمیسرنہیں تھے۔کھیتی باڑی سے بہت زیادہ پیسہ کمانا ناممکن تھا۔ رگنیر، بادشاہ کے پاس گیااور بتایاکہ مغرب کی طرف سفر کرنا چاہتا ہے۔ بادشاہ نے اسے حکم عدولی گردانااور سختی سے منع کیاکہ کسی صورت میں بھی نامعلوم علاقوں میں جانے کی کوشش نہیں کریگا۔ رگنیرانتہائی مضبوط قوت ارادی کامالک تھا۔ ایک ابتدائی نوعیت کی کیمپس بھی بناچکا تھا۔ جو پانی میں سمت کاتعین کرنے میں مددکرتی تھی۔یقین تھاکہ مغرب کی طرف سفر کرکے حددرجہ لوٹ مارکرسکتاہے اور اسے امیر اور طاقتور ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مگرایک مسئلہ اور بھی تھا۔ رگنیرکوکشتیوں کی ساخت اور ان کی مضبوطی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اسکینڈے نیویا ہی میںایک پاگل ساشخص کشتی رانی کا ماہرتھا۔فلوکی نام کایہ شخص ذاتی عادات میں حددرجہ عجیب و غریب تھا۔سمندرکے ساحل پرلکڑی کے گھرمیں اکیلا رہتا تھا۔ہروقت سمندرکی لہروں کامطالعہ کرنااسکاشوق تھا۔لکڑی کی کشتیاں بنانے کاشوق تھا۔رگنیراورفلوکی ایک دوسرے کی ضرورت بن گئے۔فلوکی کوبھی پیسہ کمانے کا شوق تھااور دولت کے حصول کے لیے کچھ بھی کرسکتا تھا۔ رگنیرکے کہنے پر فلوکی نے ایک بڑی سی کشتی بنائی۔ جو ہوا کے زورپربھی چل سکتی تھی۔اس میں بادبان نصب کیا۔
رگنیرنے چند جنگجو لوگوں کواکٹھاکیااور بادشاہ کی مرضی کے خلاف مغرب کی طرف روانہ ہوگیا۔بیس کے قریب لوگ کئی دن سمندرمیں سفر کرتے رہے۔اتفاق سے قدیم برطانیہ کے ایک ایسے ساحل پرپہنچ گئے جہاں ایک مذہبی درگاہ تھی۔جنگجولوگوں نے درگاہ پرحملہ کیااورانتہائی سفاکی سے تمام پادریوں کوقتل کردیا۔اس زمانہ میں عام لوگ اپنے قیمتی سامان،درگاہوں میں امانتاً رکھوا دیتے تھے۔پادری اس تمام دولت کوحفاظت سے چھپا کر رکھتے تھے۔ رگنیر کو درگاہ میں سے حددرجہ دولت ملی۔تمام دولت انتہائی انصاف سے اپنے ساتھ لوگوں میں تقسیم کی اورواپس اسکینڈے نیویاآگیا۔یہ وائی کنگزکی انتہائی ابتدائی شکل تھی۔
اب وائی کنگزکاگروہ دولت کمانے کے لیے مضبوط ہوتا گیا۔فلوکی نے نسبتاًبڑی کشتیاں بنانی شروع کر دیں۔ رگنیر نے معمول بنالیاکہ متواتر مغرب کی طرف سفرکرتا تھا۔ جنگجو ساتھیوں کی بدولت جس بھی علاقہ میں لنگر انداز ہوتاتھا، وہاں قیامت کی لوٹ مارکرتاتھا۔لوگوں کوپیسہ کی خاطربے دردی سے قتل کرنا،اس کے لیے کھیل بن چکاتھا۔انگلستان میں لوٹ مارکرنے کے بعد کامیابی سے واپس آجاتاتھا۔اس کی شہرت ایک بہادر،مضبوط اورامیرآدمی کی بن چکی تھی۔بادشاہ کو جب اس حکم عدولی کا علم ہوا تودیرہوچکی تھی۔
رگنیرنے اسکینڈے نیویاکے بادشاہ کوقتل کرکے مقامی سردارکادرجہ حاصل کر لیا۔ اس نے لوٹ مارکے لیے جنگجوؤں کالشکر بنا لیا۔ ہر سال، درجنوںبحری جہازلے کرمغربی ریاستوں میں حملہ کرتاتھا۔وائی کنگزکے جوہاتھ لگتا،سمیٹتے تھے اورواپس آجاتے تھے۔ امیر ہونے کے بعد رگنیرکے ذہن میں حیرت انگیزتبدیلی آئی۔ وہ امن کی باتیں کرنے لگامگرامن کے لیے شرط صرف اورصرف پیسہ تھا۔وائی کنگزکالشکرمغربی ریاستوں کی طرف سفرکرتا تھا۔جنگ کرنے سے پہلے، مقامی بادشاہ سے ''ہرجانہ'' کا دعویٰ کرتاتھا۔اگرمعقول پیسہ مل جائے توواپس چلاجاتا تھا۔
آہستہ آہستہ رگنیر اتنا طاقتور ہوگیاکہ پورے اسکینڈے نیویا کا بادشاہ بن گیا۔وائی کنگز، پورے مغرب کے لیے دہشت کانشان بن گئے۔بحری راستہ اورملک درملک ان کے قدموں میں آن گرے۔ مگر رگنیر صرف اورصرف پیسہ کماناچاہتاتھا۔اس نے نئے ملک بنا دیے۔وائی کنگزکابادشاہ بن گیا۔مگروہ صرف اورصرف مزید امیرہونے کے مرض میں مبتلا ہوگیا۔ رگنیرنے لوٹ مار کو آرٹ کادرجہ دیدیا۔سفاکی اوررحم دلی کو آپس میں اس طرح متوازن کیاکہ کمال ہوگیا۔وائی کنگزکی تاریخ حددرجہ ظالم مگر دلچسپ ہے۔تاتاری ان کے سامنے کچھ بھی نہیں تھے۔وائی کنگزنے مغرب میں لوٹ مارکے نظام کو اوجِ ثریا پر پہنچا دیا۔رگنیرکے ساتھ کیاہوا۔محلاتی سازشوں کا کیاانجام ہوا۔ انگلستان کے لوگوں کے ساتھ کیاظلم روا رکھا۔ وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔دولت کی لوٹ مارکومنظم کرنے میں رگنیربلکہ وائی کنگزکابہت ہاتھ تھا۔
ذہن میں فطری سوال ہوگاکہ وائی کنگزکے متعلق کیوں لکھ رہاہوں۔ان کاتوہمارے ملک یاعلاقے سے کوئی تعلق نہیں۔ سنجیدہ طریقے سے دیکھیں توآپکونظرآئیگاکہ ابتدائی دورسے لے کرآج تک،ہمارے ملک میں مقامی وائی کنگز کا دوردورہ رہاہے۔ستربرس میں ایک لمحہ ایسا نہیں آیاجب طاقتوراور مضبوط طبقہ نے لوگوں کی چمڑی نہ ادھیڑی ہو۔وجہ رگنیر اور پاکستانی وائی کنگزمیں یکساں تھی، ہے اور رہیگی۔ مزید اور مزیددولت کاحصول۔یہ مماثلت حیرت انگیزہے۔ 1947سے لے کر پندرہ بیس برس دیکھیے۔جعلی کلیم کاکام منظم طریقے سے ہوتا نظرآئیگا۔وہ لوگ جوبرصغیرمیں ایک انچ زمین کے مالک نہیں تھے۔قانونی ہیراپھیری کرکے نئی جعلی اشرافیہ کوتشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے۔یہ ہماری بدقسمتی کی ابتداء تھی۔
ہمارے کاروباری وائی کنگزنے مشرقی پاکستان کوایک کالونی کی سطح پررکھ چھوڑا۔اس اقتصادی لوٹ مارکو ملکی ترقی کے نام پر چھپایا گیا۔ مغربی پاکستان میں اس کا ذکرکرنابھی گوارا نہیں کیا جاتاتھا۔جوبنیان لاہور،کراچی،لائل پورمیں ڈیڑھ روپے میں ملتی تھی،وہی بنیان،مشرقی پاکستان میں دس روپے میں فروخت کی جاتی تھی۔ہمارے اقتصادی وائی کنگزنے مغربی پاکستان میں کمال دولت کمائی۔بنگالیوں کے سیاسی ردِعمل کی شدت نے مشرقی حصہ کوالگ ریاست بناڈالا۔اوربھی وجوہات تھیِں۔مگربنیادی وجہ،وہ اقتصادی استحصال تھاجو مقامی لوگوں میں بغاوت کے جذبات اُبھارتا رہتا۔ بہرحال تاریخ کو رہنے دیجیے۔1971سے لے کرآج تک پاکستان کے عام لوگ کسی نہ کسی طرح معاشی وائی کنگز کے رحم وکرم پر ہیں۔ زیادہ دورکی بات نہیں ۔ضیاء الحق نے حد درجہ کوتاہ اندیشی سے کام لے کرمزیدجعلی اشرافیہ ترتیب دی۔
اس قیامت میں صرف ایک عنصرنہیں تھا۔لوگ صرف مذہبی بنیادپرستی کے فروغ پربات کرتے ہیں۔مگرضیاء الحق کی مہیب غلطی سیاسی، اقتصادی،لسانی اورعلاقائی تفریق کو بڑھاوا دینا تھی۔ اپنے اردگرد دیکھیے۔جعلی مقتدرطبقے کی جڑیں 1977 سے 1985 تک کے مکر وہ نظام میں نظرآئیں گی۔ہمارے چنے ہوئے حکمرانوں کودیکھ لیجیے۔ تمام کے تمام اسی دورمیں خلعتِ شاہی سے نوازے گئے۔لوٹ مار میں وائی کنگزکے نظام کو ریاست کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد،آج تک جوکچھ ہواہے وہ کسی بھی ماڈرن ریاست میں نہیں ہوا۔ چند خاندان، اقتصادی لوٹ مارمیں کمال مہارت حاصل کر گئے۔ آپ جس بڑے مقامی وائی کنگزکانام لیں،اس کی کشتی میں خزانہ گزشتہ تیس پنتیس سالوں میں ہی آیاہے۔
موجودہ پاکستان کورگنیراوراس کے ساتھیوں کی نظرسے دیکھیں توتمام حالات،معاملات اورواردات سمجھ میں آجائے گی۔جمہوریت کے نام پرایک ایسے نظام کوتشکیل دیاگیا، جو پوری دنیامیں کہیں رائج نہیں ہے۔یوکے،فرانس اورمغرب کی جمہوریت میں عام لوگوں کامفادسب سے اہم عنصر ہے۔ حکومتیں اسی جوازپربنائی جاتی ہیں اورکام نہ کرنے پرخاک چاٹتی ہوئی نظرآتی ہیں۔مگرہمارے ملک میں اس ترتیب کو مکمل طورپراُلٹ کردیاگیا۔یہاں جعلی طور پر اقتدار میں لائے گئے لوگوں کے مالی مفادکواولیت کادرجہ دیدیا گیا۔
یعنی مغربی جمہوریت کامطلب عام آدمی کی زندگی بہتر کرنا ہے۔ تو ہمارے ملک میں جمہوریت کوچندسولوگوں کی اقلیت نے دولت بڑھانے کاطریقہ قراردیدیا۔غیرسیاسی بات کرنا چاہوں گا۔جوخاندان،آج آپکوریاست پرچھائے ہوئے نظر آتے ہیں،کیایہ مغربی جمہوریت میں پنپ سکتے تھے۔ نام لینابھی ضروری ہے۔کیونکہ بہرحال عام لوگوں تک معاملہ فہمی مثال کے بغیرترسیل کرناناممکن ہے۔ن لیگ کے حکمرانوں اوران کے ساتھیوں نے جس طرح ناجائزدولت کے انبار لگائے ہیں۔
وہ ایک محیرالعقول واقعہ ہے۔دعوے سے کہتا ہوں کہ حکمران خاندان کی مالی کرپشن کااب تک کسی قومی ادارے کومکمل طورپرادراک نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کی قیادت اوران کے ساتھیوں کے عملی طرزکودیکھیے۔وہ وائی کنگزکی طرح دولت کشتیوں میں دبئی منتقل کرتے رہے۔ ہلکی سی پوچھ گچھ شروع ہوئی ہے ۔نتیجہ ،تمام اہم خاندان بیرون ملک چلے گئے ہیں یااس کے قانونی طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔یہ لوگ، طبقہ یاخاندان اب ان مغربی ملکوں میں رہناچاہتے ہیں، جہاں ان کی دولت محفوظ رہے۔
پاکستانی وائی کنگزاس درجہ شاطرہیں کہ ہماراپورا قانونی، سیاسی،سماجی نظام ان کے سامنے ہاتھ باندھ کرکھڑا ہے۔ان کے مفادات کے خلاف جومعمولی سی حدت موجود ہے، بہت جلدختم ہوجائے گی یاختم کردی جائے گی۔چنانچہ چند خاندان بڑے آرام سے جمہوریت کی ترویج کے لیے محفوظ مقامات پرقیام پذیر رہینگے۔جب تھوڑے سے حالات بہتر ہوجائینگے تومعاشرہ کوشفافیت سے لوٹنے کے لیے فوراً واپس آجائیں گے۔قدیم مغربی وائی کنگزکابادشاہ رگنیر،اگرآج زندہ ہوتاتوان کے مصاحبین میں شامل ہونافخر سمجھتا۔ سفاکی، منافقت اورمیرٹ کے نام پرقتل عام کی تربیت انھی سے لیتا۔ انگلستان کولوٹنے کے بجائے ہمارے نہتے عوام کواحسن طریقے سے لوٹتااورپھرشائدیہاں مستقل آبادہوجاتا۔ پاکستانی وائی کنگزسترسال سے موجودہیں اورکسی نہ کسی صورت میں یہ اہم دراہم رہیں گے۔ان کی لوٹ مارسے بچاؤ کی کوئی بھی صورت ناممکن ہے۔