مائیں اداس ہیں
راشد کی ماں کو یقین ہے کہ راشد کے قاتل کبھی نہیں پکڑے جائیں گے۔
ساجدہ کی عمر اب 75سال سے زیادہ ہے۔ وہ 5سال قبل اپنے بیٹے راشد رحمان کے قتل کے بعد سے گم سم رہتی ہیں اور اب بالکل خاموش ہوگئی ہیں ۔ملتان کے علاقے ٹیپو سلطان کالونی میں اپنے مکان کے بڑے کمرے میں آویزاں اپنے بیٹے راشد کی تصویر کو گھورتی رہتی ہیں۔
راشد کی تصویر کے ساتھ ان کے شوہر اشفاق احمد خان کی تصویر بھی نصب ہے ۔اشفاق احمد خان جنھوں نے 70ء کی دھائی میں جنوبی پنجاب میں مظلوم طبقات کو متحد کرنے کے لیے اپنی زندگی کا ایک بیشتر حصہ وقف کیا تھا وہ پہلے نیشنل عوامی پارٹی پھر پیپلز پارٹی کے بنیادی کارکنوں میں تھے۔ انھیں جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ اشفاق خان 1992ء میں دل کے مرض میں انتقال کر گئے تھے ۔ اشفاق صاحب کے انتقال کے بعد راشد نے اپنی پڑھائی کے ساتھ گھرکی ذمے داری بھی سنبھال لی تھی ۔
راشد نے اپنی آبائی زمینوں کی دیکھ بھال کے ساتھ قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ اپنے دادا عبدالرحمٰن خان اور اپنے والد اشفاق احمد خان کی روایات پر عمل کرتے ہوئے ملتان میں پریکٹس کرنے لگے ۔راشد نے پھر انسانی حقوق کمیشن میں شمولیت اختیار کی۔انھوں نے مظلوم طبقات سے اپنا رشتہ جوڑا ۔راشد رحمان جنوبی پنجاب میں انسانی حقوق کی سب سے مؤثر آواز بن گئے۔ انھوں نے پسند کی شادی ، مذہب کی جبری تبدیلی ، متنازع قوانین کے تحت شہریوں کے خلاف کاروائی، جھوٹے مقدمات میں ملوث افراد اور غیرت کے نام پر قتل ہونے والے افراد کی داد رسی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا۔ ملتان،ڈیرہ غازی خان،مظفرگڑھ ، وہاڑی، شجاع آباد، لودھراں، بہاولپوراور جنوبی پنجاب میں جہاں بھی انسانی پامالی کی خبر ملتی راشد اپنی جیپ میںبیٹھ کر وہاں پہنچ جاتے اور تھانے کے لاک اپ میں غیر قانونی طور پر بند افراد کی رہائی پر خصوصی توجہ دیتے ۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے۔اگر زمیندار غیر قانونی طور پر مزاروں کو زمینوں سے بے دخل کرتے تو راشد عدالتوں سے رجوع کرتے ۔
راشد نے سابق چیف جسٹس جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا ۔راشد کو ملتان میں وکلاء کی تحریک کو منظم کرنے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔مشرف حکومت نے انھیں گرفتار کیا ،تھانوں میں کئی کئی دن گزارنے پڑے ۔ سخت سردی میں انھیں اٹک جیل کی سرد بیرک میں کئی ہفتوں تک نظر بند کیا گیا ۔وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے مگر انھیں ان کی دوائیاں مہیا نہیں کی گئیں ،اس کے باوجود راشد کا عزم مزید مستحکم ہوگیا۔ اٹک جیل سے چھٹ کر آئے تو پھر افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے بس میں بیٹھ کر اسلام آباد چلے گئے۔جب افتخار چوہدری بحال ہوئے تو بہت سے وکیلوں کے جنھوں نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا ان کے وارے نیارے ہوگئے۔ جن وکیلوں نے سرکاری عہدے قبول نہیں کیے ان کے پاس مؤکلوں کی بھرمار ہوگئی ۔
ان وکیلوں نے منہ مانگی فیسیںوصول کیں مگر راشد رحمان انسانی حقوق کی سب سے بڑی کارکن عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان کے پیروکار تھے اس لیے جب عاصمہ جہانگیر نے جب افتخار چوہدری کو چیلنج کیا تو راشد نے عاصمہ کی آواز پر لبیک کہا ۔عاصمہ نے جب سپریم کورٹ بار کی صدارت کے لیے انتخاب لڑا تو ملتان میں راشد رحمان ان چند وکیلوںمیں شامل تھے جو عاصمہ کی مہم چلا رہے تھے۔ راشد رحمان معاشی اعتبار سے خسارے میں رہے۔ انھوں نے بغیر کسی معاوضے کے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے اعانتی استاد جنید حفیظ کا مقدمہ لیا۔ جنید کے والد راشد سے ملاقات سے پہلے وکیلوں پر کئی لاکھ روپے خرچ کر چکے تھے۔ جنید حفیظ کے والد کے بقول راشد نے اپنے خرچے پر مقدمے کی دستاویزات حاصل کیں ۔جب راشد کو بھری عدالت میں دھمکیاں دی گئیں تومعزز جج صاحب نے پراسرار خاموشی اختیار کرلی ۔راشد کو محسوس ہوگیا کہ ان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے ۔
راشد نے ملتان پولیس کو ایک ای میل کے ذریعے ان دھمکیوں کی شکایت کی مگر ملتان پولیس اور ضلع انتظامیہ کالعدم تنظیموں کے دباؤ میں تھیں، یہی وجہ ہے کہ راشد کی اس شکایت پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ 7مئی کی رات کو 8:45منٹ پر نامعلوم افراد ملتان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے دفتر میں داخل ہوئے ۔راشد اس وقت اگلے دن کے مقدمات کی تیاری کر رہے تھے ۔ان افراد نے کلاشنکوف کی گولیوں سے راشد کے جسم کو چھلنی کردیا ۔راشد اسپتال میں جانے سے پہلے چل بسے ۔ وزیراعظم،وزیراعلیٰ ،سیاسی رہنماؤں اور دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے راشد کے قتل کی مذمت کی۔میاں شہباز شریف کی حکومت نے قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔ راشد کے جنازے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔راشد کا جنازہ اٹھتے ہی ملتان پولیس متحرک ہوگئی اور ان کے گھر پر پولیس تعینات کردی گئی ۔راشد کے قتل کی باقاعدہ تفتیش نہیں ہوئی ۔جن وکیلوں نے راشد کو دھمکیاں دی تھیں وہ دندناتے پھرتے رہے اور راشد کے قاتل کبھی نہیں پکڑے گئے ۔
راشد کی ماں کو یقین ہے کہ راشد کے قاتل کبھی نہیں پکڑے جائیں گے۔ راشد رحمان انتہاپسندی اور جنونیت کا شکار ہوئے مگر حکومت دعوؤں کے باوجود انتہاپسندی کے تدارک کے لیے حقیقی اقدامات نہ کر پائی ۔صرف راشد ہی نہیں گورنر پنجاب سلمان تاثیر، سبین محمود ، ڈاکٹر شکیل اوج اور ڈاکٹر یاسر رضوی اسی جنونیت کی نذر ہوئے ۔ولی خان یونیورسٹی کے طالب ِعلم مشال خان کو ان ہی جنونیوں نے مارا ۔ بہاولپور کے استاد پروفیسر خالد حمید اسی طرح کے جنونی ذہن کا شکار ہوئے۔ کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر 1500 سے زیادہ خودکش حملے ہوئے۔
اس برادری کے کئی ہزار افراد ان حملوں میں شہید ہوئے ۔ ایک جنونی نے نیوزی لینڈ میں مساجد میں قتل عام کیا مگر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے میدان میں آئیں۔ نیوزی لینڈ کے عوام نے مساجد کے ساتھ قطار لگا کر نمازیوں کو تحفظ کا احساس دلایا، یوں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کہا کہ تاریخ عیسائی دہشت گرد کا نام یاد نہیں رکھے گی۔ نیوزی لینڈ کے عوام کے ردعمل سے مذہبی انتہاپسند تنہا ہوگئے مگر پاکستان کے حکمراں اس روایت کو نہیں اپناسکے اور مذہبی انتہاپسندی کا آج بھی اسی طرح خطرہ ہے جس طرح اس صدی کے آغاز پر تھا اور آج راشد کی والدہ سمیت ہزاروں مائیں اداس ہیں۔