قانون بے بس کیوں ہے

متعلقہ محکموں کی نااہلی، بدیانتی، غفلت یا سہولت کاری


ظفر سجاد May 05, 2019
قانون کی حکمرانی سے ہی سرمایہ کاری اور سیاحت کے فروغ کا خواب پورا ہوگا۔ فوٹو: فائل

سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ 2008 ء تک بیرونی قرضہ 37 ارب ڈالر تھا جو گیارہ سالوں میں بڑھ کر 98 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، یعنی صرف گیارہ سالوں میں61 ،ارب ڈالر تقریباً 87 کھرب روپے کا بیرونی قرضہ مزید اس کچلی ہوئی قوم پر چڑھ چکا ہے اور قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے، 80 فیصد آبادی خوشیوں کی رمِق سے ہی محروم ہو چکی ہے۔

فواد چوہدری اور پی ٹی آئی کے دوسرے ترجمان بار بار قوم کو یہ بھی بتا چکے ہیں کہ یہ ساری دولت مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ان کے منظورِ نظر بیوروکریٹس اور حواریوں نے لوٹی ہے۔ قوم ششدر ہے کہ ''جرم'' بھی چھپا نہیں ہے ''مجرم'' بھی آپ کی دسترس سے باہر نہیں ہیں پھر وہ کونسی وجہ ہے کہ اُن سے دولت واپس نہیں لی جا رہی۔آپ بیرون ملک ان کی جائیدادوں اور کاروبار کا بھی بتا رہے ہیں مگر پھر بھی ایک روپے کی وصولی نہیں ہو رہی بلکہ جب بھی ان کا کیس نیب یا عدالتوں میں لگتا ہے تو لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے ان کی حفاظت پر ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔

عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ ہی اس بنیاد پر دیا تھا کہ ملک میں قانون اور انصاف کی حکمرانی ہو گی طبقاتی تفریق کو ختم کیا جائے گا اور لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائی جائے گی۔ اب پی ٹی آئی کی حکومت بھی قائم ہے انھیں فی الوقت کسی چیلنج کا مقابلہ بھی نہیں ہے، قوم بھی اپنے اچھے مسقبل کے انتظار میں ہے۔ الٹا اپوزیشن راہنما حکومت، نیب اور اداروں کو للکار رہے ہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مہاجرقومی موومنٹ بعد میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی انتہا ہوگئی کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم دنیا کی سب سے بڑی انڈرورلڈ جماعت تھی، اس کے بانی الطاف حسین کھلم کھلا ملک اور اداروں کو للکارتے اور بّرابھلا کہتے مگر قانون خاموش تھا وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' سے بھی بھاری رقومات وصول کرتے رہے۔ ثبوت بھی موجود تھے۔

ان کے حکم پر ہزاروں افراد کو قتل کر دیا گیا مگر متعلقہ محکموں کی آنکھیں بند تھیں۔ ایکشن اس وقت ہوا جب الطاف حسین بانی ایم کیو ایم شراب کے نشے میں اپنے کارکنوں کو قومی اور نجی تنصیبات پر حملے کا حکم دینے لگے۔ الطاف حسین کی کالج لائف سے لندن کی زندگی تک کا سفر بڑا طویل تھا مگر کوئی انھیں پوچھنے والا نہ تھا۔ کچھ عرصہ پہلے کچے کے علاقے کے'' چھوٹوگینگ'' کا بڑا چرچا رہا، بڑی مشکل سے اس کا قلع قمع کیا گیا۔ مگر ایک آدمی کا اکیلے جرائم کی دنیا میں داخل ہونا پھر سینکڑوں افراد کو ساتھ ملا کر جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن جانا، سب کچھ قانون کی نظر سے اوجھل رہا۔مدرسوں کے طالبعلموں کا دھشت گرد تنظیموں میں شامل ہونا پھر مضبوط ہو کر پورے ملک کو آگ اور بارّود میں جھونک دینا بھی قانون نافذ کروانے والے اداروں سے چھپا رہا۔ یا قانون ان کے سامنے بھی بے بس تھا۔

بلوچستان، کے پی کے، سندھ اور پنجاب میں سرداروں، جاگیرداروں اور زمینداروں کا اپنے علاقوں میں حکمرانی کا متبادل نظام قائم کرنا بھی سب کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔

سڑکوں پر ہر طرف لاقانونیت کے مناظر نظر آتے ہیں مگر متعلقہ محکمہ صرف سیٹ بیلٹ بندھنے اور ہیلمٹ پہننے کو ہی قانون سمجھتا ہے۔ بے ھنگم ٹریفک اور ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔

خواتین کو ہراسمنٹ اور تشدد سے روکنے کیلئے قوانین موجود ہیں مگر خواتین آج بھی ظلم اور عدم تحفظ کا شکار ہیں، گھروں، دفاتر اور سڑکوں پر انھیں کھلم کھلا ہراسمنٹ کا شکار بنایا جاتا ہے مگر قانون بے بس اور خاموش ہے ۔ 99 فیصد خواتین اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا کسی کو بتا بھی نہیں سکتی ہیں کہ تھانوں میں انھیں انصاف دینے کی بجائے مزید تذلیل کی جاتی ہے، عدالتوں میں مخالف وکیل عجیب وغریب سوال پوچھتے ہیں۔

چائیلڈ لیبر کو بھی پاکستان میں جرم سمجھا جاتا ہے مگر ہر جگہ بچے اور بچیاں کام کرتے نظر آتے ہیں یہ بچے بھی متعلقہ محکموں کو نظر نہیں آتے۔ لین دین کے معاملات میں پولیس کو مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ لین دین کے معاملات عدالتوں میں حل کئے جائیں گے مگر عدالتی نظام کا سُن کر ہی متاثرہ فریق اپنی رقم یا جائیداد سے ہی دستبردار ہو جاتا ہے۔ جب لین دین کا معاملہ کسی بھی تھانے جاتا ہے تو عموماً پولیس والے اس معاملے میں دلچسپی لیتے ہیں مگر بعد میں ملزم پارٹی سے کچھ رقم لیکر سائل کو عدالت جانے کا مشورہ دیدیتے ہیں ۔

وطن عزیز میں ہر طرف لاقانونیت کے مناظر نطر آتے ہیں، ہر تھانے کی حدود میں جرائم کھلم کھلا ہو رہے ہیں، اس کا عِلم پورے معاشرے کو ہوتا ہے مگر صرف محکمہ پولیس ان جرائم سے لا علم ہوتا ہے، محکمہ پولیس کی سرپرستی اور غفلت کی وجہ سے جرائم پیشہ گروہ اس قدر طاقتور ہو جاتے ہیں کہ معاملہ ہی ہاتھ سے نِکل جاتا ہے۔

بادی النظر میں یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ بدمعاشوں کے ڈیرے ہر وقت جرائم پیشہ افراد سے بھرے رہتے ہیں مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر اس طرف جاتی ہی نہیں، بدمعاشوں کی ''بہادری'' اور غنڈہ گردی کی داستانوںپر مشتمل فلمیں بنا کر انھیں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بظاہر صوبائی اور قومی حکومتیں اپنی گڈگورنس اور مکمل امّن وامان کا راگ الاپتے رہتے ہیں مگر صورتحال اس کے بالکل بر عکس ہے۔ کسی بھی شہری کو کسی بھی قسم کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ کسی بھی شہری کو انصاف اس کی دہلیز پر حاصل نہیں ہوتا ۔

موجودہ حکومت سے شہریوں نے بہت ساری توقعات وابستہ کر رکھی تھیں مگر اب یہ اُمیدیں بھی مایوسی میں بدل چکی ہیں۔ بد معاشوں کے اڈے آج تک آباد ہیں ۔ منشیات فروشی میں مز ید اضافہ ہو چکا ہے، لوگوں کی املاک پر آج بھی قبضے ہو رہے ہیں، طاقتور آج بھی کمزور کا استحصال کر رہا ہے، جرائم پیشہ اور قبضہ گروپ آج بھی ''وی آئی پی'' ہیں یہ افراد آج بھی گن مینوں کے جھُرمٹ کے ساتھ اس شان سے نکلتے ہیں کہ عام شہریوں پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے ۔ یہی لوگ خود بھی سیاسی میدان میں موجود رہتے ہیں سیاستدانوں کی سرپرستی بھی کرتے رہتے ہیں ۔ عوام کے نام نہاد نمائندوں کی ساری توجہ کمزور افراد کی املاک ہتھیانے میں لگی رہتی ہے۔

ایک سماجی تنظیم سوشل ایڈآٓرگنائزیشن(ساؤ) کے سروے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 92 فیصد افراد ظلم واستحصال کا شکار ہیں ۔ ان افراد کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے کہیں نہ کہیں زیادتی ضرور ہوتی ہے مگر انصاف کے پیچیدہ نظام کی وجہ سے یہ افراد خاموش رہتے ہیں، جو افراد اپنے ساتھ کئے گئے ظلم کو سامنے لانے کی ہمت کرتے ہیں انھیں مزید پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اس تنظیم کے سروے کے مطابق تھانوں میں رپٹ درج کروانے کے باوجود صرف پیسے والے کی شنوائی ہوتی ہے۔

ایوب خان کے دور صدارت میں لاہور میں نامی گرامی بدمعاشوں کا بہت شہرہ تھا، جگا گجر، اچھا شوکروالا، شاہیا پہلوان، ریاض گجر اور بے شمار بدمعاش تھے۔ ان کے اڈے خفیہ نہیں تھے ۔ یہ لوگ علی الاعلان منشیات بیچتے، املاک پر قبضے کرتے، شریف شہریوں سے غنڈہ ٹیکس وصول کرتے، مگر محکمہ پولیس نے ان تمام بدمعاشوں کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ یہ افراد قتل و غارت میں بھی ملوث تھے، اس دور میں گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان کو ان بدمعاشوں کی سرکوبی کیلئے غنڈہ ایکٹ لگانا پڑا،کئی روپوش ہوگئے، مگر کچھ عرصے بعد پھر بدمعاشوں کے اڈے قائم ہونے لگے۔

گوالمنڈی میں ریاض گجر کا بڑا شہرہ تھا اس کا اڈہ وقت اشتہاریوں سے بھرا رہتا تھا، مگرکسی کو اس پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، اس نے اپنے مخالفیں کو چن چن کر قتل کروایا۔ اب بھی پورے ملک میں تقریباً ہر تھانے کی حّدود میں جرائم کے چھوٹے بڑے اڈے قائم ہیں مگر انھیں کسی قانونی کاروائی کی فِکر نہیں ہوتی، گوالمنڈی کے علاقہ میں گوگی بٹ اور ٹپیو ٹرکاں والا گروپ میں قتل وغارت کا جو بازار گرم ہوا ابھی تک گرم ہے۔ ٹیپو ٹرکاں والا کے ماموں خالد محمود عرف بھئی پہلوان نے شاہ عالمی چوک میں اپنے اڈے میں میونسپل کارپورشن کی جانب سے تعمیرکی گئی دکانوں پر ہی قبضہ کر لیا ہے، جبکہ یہ جگہ حکومت کی ملکیت ہے۔ گوالمنڈی کے علاقہ میں منشیات کھلے عام فروخت ہوتی ہے۔

پورے ملک میں تجاوزات قائم ہیں، تقریباً ہر دکان کے آگے سرکاری املاک فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر قبضہ کر رکھا ہے، کونسا ایسا علاقہ ہے کہ جہاں تجاوزات نہیں ہیں مگر متعلقہ محکموں کو صرف اپنی منتھلی سے غرض ہے، لوگوں کا پیدل گزرنا محال ہے۔ ہر سڑک پر ٹھیلوں، ریڑھیوں اور عارضی دکانوں کی بہتات نظر آتی ہے مگر اچنھبے کی بات ہے متعلقہ محکموں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا ، ہر شہری ملاوٹ،کم تول اور جعلی مصنوعات کی شکایت کرتا نظر آتا ہے مگر متعلقہ محکموں کو صرف اپنی مراعات اور منتھلیوں کے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں ہے۔اب ہر علاقے میں کیمیکل سے تیار کردہ مضرصحت دُودھ اور دہی فروخت ہو رہا ہے مگر انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

منشا ء بم نے شریف شہریوں کے ساتھ سرکاری املاک پر بھی قبضہ کر لیا تھا مگر کسی کو یہ قبضے نظر نہیں آتے، موجودہ حکومت نے اپنی سرکاری زمین تو وقتی طور پر اس سے چھڑوالی ہے، مگر ان شریف شہریوں کے ہاتھ اب تک کچھ نہیں آیا کہ جن کی املاک پر اس نے قبضہ '' ٹکوں'' کے عوض ان کی زمینیں زبردستی خرید لی تھیں،گلشن مصطفٰے سکیم کے سارے پلاٹوں پر منشاء بم نے قبضہ کر لیا تھا پھر پلاٹ مالکان کو چند پیسے دیکر یہ پلاٹ خرید لئے تھے ۔ آج بھی شہری پی آئی اے روڈ لاہور سے گزرتے ہوئے حیران رہ جاتے ہیں کہ اس نے مین سڑک کے آس پاس کے سارے سرکاری پلاٹوں پر قبضہ کر رکھا تھا، ان پر دکانیں تعمیر کروا رکھی تھیں ان دکانوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی وہ انکا کرایہ بھی وصول کر رہا تھا مگر کسی بھی متعلقہ محکمے کو یہ قبضے نظر نہیں آئے۔

پچھلے دنوں انجمن تاجران صدر مجاہد بٹ کاتنازع بھی سامنے آیا سارا اندرون شہر تقریباً مارکیٹوں میں تبدیل ہو چکا ہے تمام رہائشی مکانوں کی جگہ مارکیٹیں بن چکی ہیں یا بن رہی ہیں۔ یہ مارکیٹیں تعمیر کرنے کیلئے کسی سے بھی اجازت نہیں لی جا تی۔ مکانوں کی جگہ کئی ہزار دکانیں قائم ہو چکی ہیں مگر کسی بھی متعلقہ محکمے کے کان پر جّوں تک نہیں رینگی،کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اندرون شہر کے رہائشیوں سے زبردستی ان کے مکان اونے پونے خریدے جا رہے ہیں۔ تقریباً کافی تاجر راہنما قبضہ گروپ بن چُکے ہیں مگر قانون خاموش ہے۔

قانون کی اس بے بسی اور خاموشی پر ہر شہری مضطرب ، پریشان اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ہر شہری ملک سے باہر جانے اور''سیٹل'' ہونے کیلئے بے تاب ہے۔ جو لوگ باہر سیٹ ہو چکے ہیں وہ وطن واپس نہیں آنا چاہتے ۔ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری ہی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہاں وہ اپنے آپ کو اور اپنے اثاثوں کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ لاقانونیت کے مناظر ہر شہری کو متنفر اور بددل کر دیتے ہیں۔

موجودحکومت بیرون ممالک رہنے والے پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دے رہی ہے۔ بیرونی سیاحوں کو پاکستان کی سیاحت کی دعوت دی جا رہی ہے۔ ویزے کو بالکل آسان کر دیا گیا ہے مگر سیاحوں کا رجحان ابھی تک پاکستان کی سیاحت کی جانب نہیں ہوا اسکی اصل اور بنیادی وجہ ہی پاکستان کا بے بس اور خاموش قانون ہے۔ یا متعلقہ محکموں کی نااہلی ، بددیانتی، غفلت اور سہولت کاری ہے۔ قانون کی حاکمیت کے مظاہرے سڑکوں پر نظر آجاتے ہیں مگر سڑکوں پر ہی ہر طرف لاقانونیت، بے ھنگم ٹریفک، بے ھنگم عمارات، تجاوزات اور بے حسِی کے مناظر نظر آتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی ہوگی تو ملک کے حالات بہتر ہونگے۔ اگر موجودہ حکومت میں بھی قانون و انصاف کی حکمرانی قائم کرنے کی صلاحیت یا اہلیت نہیں ہے تو انھیں اس کا اعلان کرنا چاہیے یا اپنی مجبوریاں واضح طور پر عوام کے سامنے رکھنی چاہئیں تاکہ عوام مزید کسی ابہام کا شکار نہ رہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔