غزل
چاہت میں تری سَر پہ یہ الزام بہت ہے
اک تیرے تلک دل مرا ناکام بہت ہے
لے دے کے محبت کی جگہ درد نے لے لی
اب ٹوٹ کے رویا ہوں تو آرام بہت ہے
میں کب تجھے کہتا ہوں مرے پاس ہی آ جا
اک سال میں اس دل کو بس اک شام بہت ہے
گردے کو جو بیچے گا تو مفلس ہی بیچارہ
اس دور کا سلطان بھی ناکام بہت ہے
جاتا ہوا موسم بھی پریشان بہت تھا
آتی ہوئی رُت کا یہی پیغام بہت ہے
خط لکھ کے وہ کہتا ہے صائمؔ مے چھوڑ دو
قربت ہو اگر اس کی تو اک جام بہت ہے
(مختار صائم قادری۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
بے دھوپ آفتابوں کی صبحیں طلوع کر
موجوں کو تھام ہاتھوں میں دریا شروع کر
چل جھاڑ ان غلافوں سے غفلت کی دھول کو
ماموم بن قلندر کا پھر سے رکوع کر
موضوع صرف اتنا ہے فانی حیات کا
قائم تو رہ اصولوں پہ تابع فروع کر
رندانِ دہر کا تو مسیحا ضرور ہے
یہ کب کہا تجھے کہ تو اعلانِ نوع کر
ملبوسِ آگہی ڈھونڈتا پھرتا ہے تجھے
وہ اوڑھ! پھر تلاشِ خشوع و خضوع کر
ہر چاندنی رکھی ہے مرے بام سے پرے
اب ٹمٹما اے جگنو کہیں پر وقوع کر
ساگرؔ بڑے فہیمِ فراق و وصال ہیں
جب ہجرتیں ستاتی ہوں اُن سے رجوع کر
(ساگر حضور پوری۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
کوئی نہیں ہے جو اس کے ماسوا ہی نہیں
کہ یہ اداسی فقط تیرا مسئلہ ہی نہیں
وہ پہلے ایک تسلسل سے دیکھتا ہے مجھے
پھر اس کے بعد کئی روز دیکھتا ہی نہیں
تمہارے ساتھ کئی لوگ بیٹھتے تھے یہاں
تمہارے بعد تو جیسے کوئی رہا ہی نہیں
مری دعا ہے وہ مالک سے مانگ لے مجھ کو
اور اس کے بعد کوئی اور التجا ہی نہیں
اسے میں اور بلاتا بھی کس طرح اطہرؔ
رکو رکو بھی پکارا مگر رکا ہی نہیں
(عرباض اطہر۔ تاندلیانوالہ، فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
اس لیے آپ سے بدگماں تھے
آپ ہی تو مرے رازداں تھے
زندہ رہنا بھی آساں نہیں تھا
دن نہیں تھے کڑے امتحاں تھے
میں کہیں قیس ہی تو نہیں ہوں
دشت میں میرے پا کے نشاں تھے
کیا کہا! آنکھ پتھر سی کیوں ہے
پوچھ سکتا ہوں اب تک کہاں تھے
صبر کی خوب منظر کشی ہے
کوئی بوڑھا تھا لاشے جواں تھے
جب میں اندھے سفر پر تھا نکلا
لفظ روشن تھے اور مہرباں تھے
(زعیم جعفری ۔گجرات)
۔۔۔
غزل
آپ کو شاعری بنانی تھی
میں نے کچھ روشنی بنانی تھی
آئنے پر جو بوند چلتی ہے
اس میں تصویر سی بنانی تھی
شعر تم نے برائے شعر کہا
شعر سے زندگی بنانی تھی
نقشہ سازِ دیارِ دیر و حرم!
اک تو سیدھی گلی بنانی تھی
جانے کیوں بے گھری بنا بیٹھا
میں نے تو جھونپڑی بنانی تھی
تم نے پھر سرخ رنگ بھر ڈالا
شام بس سرمئی بنانی تھی
منہ بنانے سے کچھ نہیں ہوگا
کوئی صورت نئی بنانی تھی
خودبخود تازگی بنی نیرؔ
یہ نہیں تازگی بنانی تھی
(شہزاد نیر۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
لوگوں کو دے سکے نہ جو کوئی ثمر بھلا
ایسے ہنروروں سے تو میں بے ہنر بَھلا
تم پھر سے چل پڑے ہو محبت کی راہ پر
کرتا ہے کوئی کام یہ بارِ دگر بھلا
یادوں میں آگیا کوئی بھولا ہوا خیال
شعروں میں آگیا ہے پلٹ کر اثر بھلا
خود کو تمام دن کی مشقت میں جھونک کر
لوٹا ہے کون ہنستا ہوا اپنے گھر بَھلا
نیزے کی نوک پر بھی تلاوت میں محو ہو
شبیر کے سوا کوئی دیکھا ہے سَر بھلا
منزل کا کچھ پتہ ہے نہ رستے کی کچھ خبر
یہ کیسا کارواں ہے سرِ رہ گزر بَھلا
اس راہ سے امید کوئی مت رکھو وسیمؔ
راہِ وفا میں دیکھا ہے کوئی شجر بھلا
(وسیم عباس۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
آرزو بے کنار ہے دل میں
جیسے تیرا ہی پیار ہے دل میں
یا اداسی ہے ہجر موسم کی
یا ترا انتظار ہے دل میں
کون یہ نیند میں چلا آیا
خواب کا سب خمار ہے دل میں
کوئی وحشت نہیں ہے چہرے پر
بس جنوں کا غبار ہے دل میں
یوں تو آنکھوں میں شام ہے آصفؔ
پھر بھی صبحِ زار ہے دل میں
(ڈاکٹر شفیق آصف۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
تیری الفت سے ہی الفت کی ہوا بنتی گئی
رفتہ رفتہ زندگانی کی فضا بنتی گئی
امتزاجِ شبنم و لالہ جہاں ہوتا گیا
صحنِ گلشن میں وہیں بادِ صبا بنتی گئی
میری خود داری نے کشتی ناخدا سے چھین لی
میری خود داری ہی، میری ناخدا بنتی گئی
کوئی مشکل تو نہیں تھی میرے ہونٹوں پر دعا
جب صدا اٹھتی رہی دل کی دعا بنتی گئی
تیری الفت نے مرے ہونٹوں کو سِی ڈالا مگر
میری خاموشی مرے دل کی صدا بنتی گئی
(قیامت بخاری۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
جھیل کا گہرا، نیلگوں پانی
تیر ے جیسا ہے ہو بہ ہو پانی
کوِئی تعبیر تو، بتائے مجھے
میں نے دیکھا ہے، چار سو پانی
کیسے اس بات کا یقیں کر لوں
آج رکھے گا، آبرو پانی!!
میرے پائوں زمیں پہ لگتے نہیں
ہوگیا میرا جب سے تُو پانی
اپنے ہاتھوں سے میں پلائوں گا
مجھ سے مانگے اگر عدو پانی
بے کراں دشت میں حسین امجد
کیسی کرتا ہے، گفتگو پانی
(حسین امجد۔ اٹک)
۔۔۔
غزل
شامِ غم کیا ہے بچھڑنے کی اذیّت کیا ہے
میں نے تو ہجر میں جانا ہے کہ قربت کیا ہے
عمر بھر ان کے مقدر میں ہے جلنا یارو
اور چراغوں کی مرے خون سے نسبت کیا ہے
جن کی شاخوں پہ پرندوں کا بسیرا نہ رہا
ان درختوں سے کبھی پوچھ کہ وحشت کیا ہے
پوچھتی ہو مری بیٹی مری محنت کا صلہ
تیری مسکان ہے بس اور مری اجرت کیا ہے
تم تو ہر درد سے انجان بنے بیٹھے ہو
تم نے جانا ہی کہاں یار محبت کیا ہے
تو جو ہر بات پہ رکھتا ہے تعصب مجھ سے
پھر مجھے دوست بھی کہنے کی ضرورت کیا ہے
ہر خوشی پر ہے کشیدہ مرے آنگن کی فضا
جانتا کوئی نہیں وجہِ کدورت کیا ہے
جانتے ہو روشِ گردشِ دوراں کو رضاؔ
پھر بھی دیوار سے لگنے کی ضرورت کیا ہے
(احمد رضا۔ گکھڑ منڈی۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
لوگ آئے ہی نہیں مجھ کو میسر ایسے
جو مجھے کہتے کہ ایسے نہیں ازبر ایسے
جیسا میں ہوں میرے چہرے کی ہنسی جیسی ہے
غور سے دیکھ کہ ہوتے نہیں جو کر ایسے
تیز دوڑا کے اچانک میری رسی کھینچی
اس نے سمجھایا مجھے لگتی ہے ٹھوکر ایسے
آنکھ کھلنے پہ جو اٹھتا ہوں تو چکراتا ہوں
کون دیتا ہے مجھے خواب میں چکر ایسے
زلف ایسی کہ سیاہ ریشمی جنگل کوئی
نین اس شخص کے ہیں سرمئی مَرمر ایسے
کوئی تو ہوتا جو سینے سے لگا کر کہتا
بات تھی، بات کو لیتے نہیں دل پر ایسے
کس نے سوچا تھا کمروں میں فقط چپ ہوگی
کس نے سوچاتھا کہ گزرے گا ستمبر ایسے
ہائے آخر میں وہی حادثہ پیش آیا سفیر ؔ
ہمیں کہنا پڑا لکھے تھے مقدر ایسے
(ازبر سفیر۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
باندھ کر گھنگھرو کبھی وہ کیا کرتا ہے دھمال
ہم نے اس واسطے ہر گیت میں لکھا ہے دھمال
منتیں مان کے جس شخص کو ماں نے مانگا
رات دن اس لیے اس شخص نے سوچا ہے دھمال
لال شہباز قلندر کی گلی کا منگتا
جب کوئی بات لکھے بات میں لکھتا ہے دھمال
ہیر اور سوہنی سے اس بات کا جا کر پوچھو
آنکھ ہے جھیل تو اس جھیل کا دریا ہے دھمال
منزلِ عشق پہ گاڑی نہیں جاتی مقبول ؔ
ان کے در جانے کا بس اک رستہ ہے دھمال
(سید مقبول حسین۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
دل سے اک سوختہ سی آہ اٹھی
آرزو پا کے نئی راہ اٹھی
خود میں ہی ڈوبا ہوا تھا ہر اک
بے خودی میں جدھر نگاہ اٹھی
بڑھا جب حد سے زور باطل کا
حق کی پھر ترجماں سپاہ اٹھی
اجلے چہرے بدل گئے شب کو
رات جب بن کے اک گناہ اٹھی
دیکھ کر بم دھماکوں کی زد میں
زندگی رو پڑی، کراہ اٹھی
بے کسی کے خلاف اک لڑکی
لے کے جذبات بے پناہ اٹھی
اختلافِ مزاج تھا گرچہ
زندگی پھر بھی وہ نبھا اٹھی
(سائرہ حمید تشنہ۔ فیصل آباد)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]