وفاقی انشورنس محتسب بیمہ کمپنیوں اور صارفین کے درمیان پُل کا کردار ادا کر رہے ہیں

سیمینار میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔


سیمینار میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ فوٹو : ظفراسلم راجہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور وفاقی انشورنس محتسب کے زیر اہتمام EFU Life اور یونائیٹڈ انشورنس کمپنی آف پاکستان کے اشتراک سے ''عوامی شکایات کے ازالے میں وفاقی انشورنس محتسب کا مؤثر کردار اور عدالتی نظام کے بوجھ میں کمی کا ذریعہ'' کے عنوان سے اسلام آبادمیں سیمینارکا انعقاد کیاگیا جس کے مہمان خصوصی وفاقی سیکرٹری برائے قانون و انصاف جسٹس (ر) عبدالشکور پراچہ تھے جبکہ مہمانان گرامی میں وفاقی انشورنس محتسب رئیس الدین پراچہ ، چیف منیجر و سربراہ لیگل ڈیپارٹمنٹ ای ایف یو لائف سجادحسین خان اورچیف ایگزیکٹو آفیسر یونائیٹڈ انشورنس کمپنی آف پاکستان محمد راحت صادق تھے۔

سیمینار میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ سیمینار کی روداد نذر قارئین ہے۔

جسٹس (ر) عبدالشکور پراچہ
(وفاقی سیکرٹری برائے قانون و انصاف)
انشورنس شہریوں کے مستقبل کی ضمانت ہے ۔ لوگوں کو انشورنس کے قوانین سے متعلق آگاہی ہونی چاہیے۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انشورنس کلیم کیسے کیا جائے ۔ ملک میں قوانین موجو د ہیں مگر ان پر عملدرآمد کا مسئلہ ہے۔ شہریوں کو انشورنس کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی انشورنس محتسب سے رجو ع کرنا چاہیے۔

پاکستان میں مختلف نوعیت کے انشورنس بزنس ہیں جنہیں جد ید خطوط پر استوار کرنا ہو گا۔ انشورنس آرڈیننس کے نفا ذ کے نتیجے میں وفاقی انشورنس محتسب کا قیام عمل میں آیا۔ ماضی کے مقابلے میں موجو دہ دور انشورنس محتسب کی فعالیت کے حوالے سے انتہائی بہتر ہے ۔ بلا شبہ بیمہ کی صنعت ترقی کر رہی ہے اوراس کے ساتھ متعدد چیلنجزبھی درپیش ہیں مگر ان میں سے گڈ گورننس کو درپیش خطرات کے مقابلے میں کوئی بھی اہم نہیں ہے۔ انشورنس محتسب ادارے کے قیام سے لوگوں نے انشورنس کی جانب غور کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے مقامی انشورنس کمپنیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔

وفاقی انشورنس محتسب کے فوری فیصلوں ، سستے اور آسان طریقہ کا رکی وجہ سے نہ صرف انشورنس کمپنیوں بلکہ انشورنس کنندہ میں اعتماد پید اہواجو لائق تحسین ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان کا مستقبل سی پیک سے وابستہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر جمی ہوئی ہیں ۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے جہاں ملکی معیشت کو ترقی ملے گی وہیں انشورنس انڈسٹری کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔ پاکستان میں خطے بھر کے ممالک میں جی ڈی پی کے تنا سب سے انشورنس کی شرح سب سے کم ہے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ عوام میںانشورنس انڈسٹری پر اعتماد کا فقدان ہے۔ اس کی بڑ ی وجہ انشورنس کمپنیوں کی جانب سے کلیمزکی بر وقت ادائیگی نہ ہو ناہے۔ پاکستان میں متعدد نوعیت کے انشورنس بزنس ہیں جنہیں جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔

انشورنس پراڈکٹ کے ابتدائی درخواست فارم سمیت تمام دستاویز ات انگریزی زبان میں ہوتی ہیں جنہیں عام آدمی سمجھ نہیں پاتا اور اسے کلیم کے حصول کے وقت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میرے نزدیک اگر انشورنس پراڈکٹ کے ابتدائی درخواست فارم سے لے کر تمام دستاویز ات کو اردو زبان میں متعارف کرایا جائے تو انشورنس کا معلوماتی مواد عام آدمی تک با آسانی پہنچ سکے گا اور انشورنس پالیسی کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ پاکستان میں اسلامی ذہن رکھنے والوں نے اسلامی بینکاری کی جانب اپنا رخ موڑ لیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری کی نمو تیز رفتار ہے لیکن اس کے برعکس روایتی انشورنس کے مقابلے میں تکافل کی نمو سست روی کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کے ذہن میں موجود انشورنس مخالف نقطئہ نظر کے تدارک کے لیے اپنا کر دار ادا کرے۔ پاکستان میں ری انشورنس بزنس کے وسیع مواقع ہیں جو انشورنس انڈسٹری کی نمو کی رفتار کو تیز کر سکتے ہیں ۔ مقامی انشورنس انڈسٹری زیادہ سے زیادہ بیمہ دارو ں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے سہولیات پر مشتمل پراڈکٹ متعارف کروائے۔ وفاقی انشورنس محتسب کے قیام سے حکومت پاکستان نے عام اور کا روباری بیمہ دار کی سہولت کے لیے یہ انقلا بی قدم اٹھایا ہے کیونکہ یہ قومی ادارہ عدلیہ پرمقدمات کے بڑھتے ہوئے دبائوکے تناظر میں نہ صرف بیمہ داروںکے لیے ایک نعمت ہے بلکہ اس سے ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ میں انشورنس سے متعلق مقدموں میںبھی کمی واقعہ ہوئی ہے۔ وفاقی انشورنس محتسب بیمہ تنا زعات کے تصفیوں کا ایک متبادل ادارہ ہے جہاں فریقین کو آمنے سامنے بٹھا کر تصفیے کیے جا رہے ہیں۔

عدالتوں میں وکلا سمیت دیگر اخراجات ہوتے ہیں لیکن وفاقی انشورنس محتسب کے ادارے میں سائل کو بغیر کسی خر چ کے انصاف فراہم کیا جا رہاہے جو مثالی بات ہے۔ انشورنس پاکستانیوں کا آئینی حق ہے۔ یہ ہر بندے کا حق ہے کہ موت کے بعد اس کی اولاد کے حقوق کو انشور کیا جائے۔ اس کے لیے انشورنس سسٹم کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ آرڈیننس 2000بڑا زبر دست قانون ہے لہٰذا عوام کو اس سے متعلق آگاہی ہو نی چاہیے۔ انشورنس کمپنیوں کو بھی چاہیے کہ وہ عوامی شعور کے لیے میڈیا کی مدد لیں ، اس سلسلے میں عوامی شعورکے لیے وزارت قانون بھی اپنا کر دار ادا کرے گی۔ ہیلتھ انشورنس کارڈ حکومت کی اچھی پالیسی ہے،عوام کو اس سے متعلق بھی آگاہی دینی چاہیے۔ ضروری نہیں کہ ہر چیز کو حاصل کرنے عدالت ہی جا یا جائے ،انشورنس کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ بروقت عوام کو ریلیف مہیا کریں۔ انشورنس انڈسٹری کے مسائل حل کرنے کے لیے ہم سب کو اجتماعی کوشش کرنا ہو گی تاکہ عوام میں مثبت تاثر جائے۔

رئیس الد ین پراچہ
(وفاقی انشورنس محتسب)
انصاف کی فراہمی میں تاخیر سے انصاف کا اصل مقصد فوت ہو جا تا ہے۔ مہذب معاشرے انصاف کی فوری فراہمی کے لیے نئے راستے تلاش کر تے ہیں۔ ملکی عدالتی نظام میں بہت سارے مقدمات التوا کا شکار ہیں جس کی دو بنیادی وجو ہات ہیں۔ پہلی یہ کہ عدالتوں اور ججز کی محدود تعداد اور دوسری مقدمے کی سماعت کے سماجی رجحانات ہیں ۔ وجہ چاہے جو بھی ہو مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ عدالتی نظام میںمقدمات کی تاخیر سے انصاف فراہم کرنا ایک اہم مسئلہ ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ موجودہ روایتی عدالتی نظام میں متبادل نظام کو وضع کیا جائے جو عوام الناس کے لیے قابل قبول اور قابل اعتبار ہو ، بجائے اس کے کہ تنازعہ کے حل میں تاخیر واقعہ ہو ، ایک موثر تصور یہ بھی ہے کہ کسی تنا زعہ کے تصفیے کے لیے ثالثی کا کر دار ادا کرنا چاہیے۔

جس سے سستا انصاف بھی میسر ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ موجودہ عدالتی نظا م سے مقدما ت کا بوجھ بھی کم ہو سکتا ہے۔ موجو دہ عدالتی نظام کے بوجھ کو کم کرنے میں خصوصی عدالتیں جس میں خاص طور پر مصالحتی عدالتیں اور صارفین کے لیے تحفظاتی عدالتیں شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے اس ضمن میں ایک اور انتظام بھی کیا ہوا ہے جس کو محتسب کا نظام کہاجاتا ہے۔ یہ تمام ادارے موجودہ عدالتوں سے بوجھ کم کر تے ہیں اور ساتھ ساتھ شکایت کنند گان کو سستا اور فوری انصاف بھی مہیا کر تے ہیں۔ ہما رے ملک میں محتسب نظام کے بارے میں آگہی بہت ہی محدود ہے حالانکہ یہ عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیے بہترین ادارے ہیں۔ روایتی عدالتی نظام میں شکایت کنند گان کا کا فی وقت اور سرمایہ صرف ہو جا تا ہے۔

محتسب اداروں کا بنیادی مقصد مخصوص معاملات میں انصاف کی جلد اور بلا معاوضہ فراہمی ہے۔ ہما رے ملک میں بہت سارے مخصوص معاملات کے لیے انشورنس محتسب ، ٹیکس محتسب ، بینکنگ محتسب اور خواتین کے حقوق کے لیے محتسب ادارے قائم ہیں ، جن کو عام طور پر وفاقی محتسب کہا جا تا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو کریڈٹ جا تاہے کہ انہوں نے لگاتار محنت کر کے سالہا سال سے سپریم کورٹ میں زیر التوا کرمینل اپیلوںکا فیصلہ کردیا اور اب کرمینل اپیل فور ی طور پر سماعت کیلئے جا تی ہے۔

اسی طرح وہ ماڈل کورٹس کا قیام عمل میںلائے جو اپنے تیز رفتار فیصلوں کے ذریعے برسوں سے زیر التوا مقدمات کے فیصلے کر رہی ہیں اور یقینا وہ دن دور نہیں جب سنگین جرائم یعنی قتل ، اغوا ، ڈکیتی وغیرہ کے مقدمات التوا پذیر نہیں ہوں گے ۔ وفاقی انشورنس محتسب بھی بطور ادارہ اس سوچ کی عکاسی کر تا ہے جہاں ہما را عزم ہے کہ کوئی بھی بیمہ دار اپنے جائز بیمہ انشورنس کلیم سے محروم نہ رہے اور اس کے لیے اس کو برسوں انتظار نہ کرنا پڑے۔ وفاقی انشورنس محتسب کی گزشتہ چار برسوں کی کارکر د گی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 2015ء میں صرف 250 شکایتوں کا فیصلہ ہوا اور ان میں سے صرف 20کا ازالہ باہمی رضامندی سے ہوا لیکن تین سال بعد2018-19 میں تقریبا 1200 شکایات نمٹائی گئی جن میں سے 335 تقریباََ 33 فیصد شکایات باہمی افہام و تفہیم سے نتیجہ خیز ہوئیں۔

وفاقی انشورنس محتسب اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی ایک کڑی ہے کہ پاکستان کے عوام کو بالعموم اور زند گی کے کسی بھی شعبے میں انشورنس پالیسی لینے والے لوگوں کو بالخصوص یہ سہولت دی جائے کہ انشورنس پالیسیوں سے جنم لینے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ حکومت پاکستان وفاقی انشورنس محتسب کی صورت میںان کے پیچھے کھڑی ہے۔ ہماری اس آگاہی مہم کا مقصد لوگوں کو وفاقی انشورنس محتسب کی موجودگی کے بارے میں بتانا ہے تاکہ ان میں اپنی انشورنس پالیسیوں اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد کے محفوظ ہونے کا یقین اجاگر ہو۔ اس سے عوام کا اعتماد پاکستان کے طول و عرض میں کام کرنے والی انشورنس کمپنیوں پر بھی ہو گا جس سے انشورنس انڈسٹری کی ترقی ممکن ہو سکے گی۔

یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ انشورنس پالیسی ہولڈر یا اس کے ورثا کو اگر پالیسی کے ثمرات میسر نہ ہوں تو ان کا اعتمادنہ صرف اس انشورنس کمپنی سے اٹھتاہے بلکہ پوری انشورنس انڈسٹر ی سے اٹھ جاتا ہے۔ پاکستان میں انشورنس بزنس کی افزائش میں اعتماد اہم ستون ہے اور ادارہ انشورنس محتسب تنا زعات کے تصفیوں کے ساتھ کمپنیوں اور صارفین کے درمیان اعتماد کی فضا پید اکرکے انشورنس انڈسٹری کی تیز رفتار ترقی کے لیے بنیادی کر دار ادا کرتا ہے۔ بیمہ اداروں میں انشورنس کمپنیوں کی بیمہ پالیسیوں سے متعلق اعتماد کی بحالی سے ہی ملک میں انشورنس کے تحفظ کا رجحان بڑھایا جاسکتا ہے۔ ادارہ انشورنس محتسب کے قیام اور اس کی بہترین کارکر د گی کے ذریعے پالیسی ہولڈ ر ز میں عمومی طور پر یہ احسا س پید اہو اکہ ان کے حقوق کا تحفظ کرنے والا ادارہ موجود ہے ، اسی احساس تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے انشورنس محتسب بیمہ دار شکایت کنند گان کو کم سے کم مدت میں ان کی دہلیز تک مفت انصاف فراہم کررہا ہے۔

بینک انشورنس سے متعلق ادارہ انشورنس محتسب کے پاس شکایات بڑھ رہی ہیں۔ وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ بینک انشورنس کے حوالے سے ان تمام جائز شکایات کے ازالے کے لیے کوششیں کررہا ہے۔یہ بات غور طلب ہے کہ پاکستان میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ انشورنس دستاویز ات کو لفظ بہ لفظ نہیں پڑھتے جس کی وجہ سے انہیں اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہو تی۔ انشورنس محتسب کا یہ بھی امتیا ز ہے کہ کوئی بھی شکایت 60دن کے اندر نمٹا دی جاتی ہے۔ اس ادارے میں کوئی بھی شکایت کنندہ اپنی شکایت سادہ کاغذ پر بغیر کسی وکیل کے اور کسی فیس کے جمع کر وا سکتا ہے۔

ہمارے ہاں پیشیاں نہیں ہوتیں اور صرف ایک سماعت پر فیصلہ کر دیا جا تاہے ، یہ فیصلہ پیش کی گئی دستاویز ات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور ضرورت پیش آنے پر شکایت کنندہ اور انشورنس کمپنی کو دوربارہ بھی سنا جاتا ہے مگر انشورنس محتسب میں 90 فیصد فیصلے پہلی ہی سماعت میں کر دیے جاتے ہیں۔ وفاقی انشورنس محتسب کے فیصلے سے اگر کوئی فریق متفق نہ ہو تو صدر پاکستان سے اپیل کی جاسکتی ہے اور اس کے بعد صدر پاکستان کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ انشورنس محتسب کے تقریبا 35فیصد فیصلے باہمی رضامند ی سے کیے گئے جو اس ادارے کی کامیابی ہے ۔

باہمی رضامندی کا ماحول از خو د پید ا نہیں ہوتا بلکہ شکایت موصول ہونے کے بعد اسے سننے کے عمل کے دوران اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ فریقین میں سے کسی کی غلطی ہے تو اس کو اپنی غلطی کا احساس دلا یا جائے اور اس عمل کی کامیابی سے ہی باہمی رضامند ی کا ماحول پید ا کیا جاتا ہے۔ملک کی 5فیصد سے کم آبادی کو انشورنس محتسب کے بارے میں علم ہے۔ ایک محتاط اند ازے کے مطابق پاکستان میں انشورنس انڈ سٹری میں 25 سے 30 ہزار کلیم مسترد ہو تے ہیں ، جو بہت بڑی تعداد ہے ان میں سے 10فیصد سے بھی کم لوگ محتسب ادارے میں عدالت یا کسی دوسرے فورم سے رجو ع کر تے ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد اپنے جائز حق سے محروم رہ جا تی ہے ، اس حوالے ہم نے لوگوںکو آگہی دینے کا مشن شروع کیا ہے۔

پاکستان میں انشورنس کی سرائیت جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے جو ترقی یافتہ ملکوں میں 5سے6فیصد ہے۔ بھارت ، بنگلہ دیش اور سری لنکا ہم سے بہت آگے ہیں، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک پالیسی ہولڈ ر ز کو بخوبی اپنی ذمہ داریوں کا احسا س ہونا چاہیے اور ساتھ ساتھ انشورنس کمپنی جو ان کو فوائد دینے کا وعدہ کررہی ہے اس کا بھی انہیںعلم ہو ، اس صورتحال کو بہتربنانے کیلئے انشورنس محتسب مختلف سفارشات ایس ای سی پی کو بھیجتا رہتا ہے جن پر عملد ر آمد سے نہ صرف پالیسی ہولڈ ر ز کو بلکہ انشورنس کمپنی کو بھی بہت فائدہ ہو تا ہے۔ گزشتہ برس سائلین کو کلیمز تصفیے کی صورت میں 410 ملین روپے سے زائد جائز انشورنس کلیم کی ادائیگی انشورنس محتسب کے احکامات کے تحت ہو چکی ہے۔

انشورنس محتسب ، انشورنس سے متعلقہ سٹیک ہولڈ رز جن میں ایس ای سی پی اور سٹیٹ بنک آف پاکستان بھی شامل ہیں کو چند تجا ویز دینا چاہتا ہے جس میں ایک تجویز یہ ہے کہ بینکوں کی معاونت سے فروخت کی جانے والی انشورنس پالیسیوں کو شفاف اور بہتر بنایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بینکوں کا عملہ انشورنس پالیسی بیچتے ہوئے کسی دھو کہ دہی کا مرتکب نہ ہو۔ محتسب ادارے پورے پاکستان میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور حکومت اور عوام کے اعتماد پر پورا اتر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ تجویز ہے کہ اداروں کے دائرہ کا ر کو مزید وسعت دی جائے اور ایسے تمام معاملات جو باہمی افہام و تفہیم سے حل کیے جا سکتے ہیں ، انہیں متعلقہ محتسب کے دائرہ کار میں لایا جائے اور اس کے لیے قانون سازی کی جائے ۔

محتسب اداروں کی کارکر دگی کو پارلیمنٹ اور بجٹ تقاریر میں سراہا جائے ۔ پاکستان میں انشورنس سیکٹر کی ترقی کے بہت مواقع ہیں ، خاص طور پر آنے والے دنوں میں سی پیک اور اس سے جڑے ہوئے منصوبوں سے انشورنس انڈسٹری کے لیے وسیع مواقع آئیں گے ، یہ ضروری ہے کہ عام فیکٹری ورکر ز، مزدوروں، بسوں، ٹرینوں میں سفر کرنے والے ، حادثات، قد رتی آفات اور دہشت گردی کے شکار افراد کو لا زمی انشورنس کور مہیا کیا جائے اور اس سلسلے میں حکومت قانون سازی کرے۔

سجاد حسین خان
(چیف منیجر و سربراہ لیگل ڈیپارٹمنٹ ای ایف یو لائف)
وفاقی انشورنس محتسب اور ایکسپریس میڈیا گروپ کا مشکور ہوں کہ انہوںنے آج یہاں انشورنس انڈسٹری کے بارے میں بات کرنے کاموقع دیا۔ ہم اس فورم کے تحت اپنی سفارشات بھی انشورنس محتسب تک پہنچانا چاہیں گے۔ پاکستان میں انشورنس ادارے کا کر دار بہت اہم ہے۔ جی ڈی پی میں بھی انشورنس کا بہت زیادہ کر دار ہے۔

ہمیں انشورنس میں قانو نی اصلاحات پر بات کرناہوگی۔ 2000ء کے بعد نئی انشورنس کمپنیوں نے لائسنس لینا شروع کیے ، اس وقت پاکستان کی جی ڈی پی میں انشورنس کا حصہ 0.5فیصد تھا۔ 2018ء تک پاکستان کے انشورنس سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ0.82فیصد ہوگیا ہے ۔ ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہیں مگر ہم دنیا ہی نہیں بلکہ خطے میں بھی انشورنس کے حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔ انشورنس انڈ سٹر ی کے فروغ سے ملک کے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں ، موجودہ حکومت ملک میں روزگار کے مواقعوں کی فراہمی کا نعرہ لے کر آئی ہے اگر حکومت تعاون کرے تو انشورنس انڈسٹری بھی ملکی معیشت کی ترقی اورنوجوانوں کو روزگارکی فراہمی میں موثر کر دار ادا کر سکتی ہے۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ یہاں شرح خواند گی کم ہے ، جس کے باعث لوگوں میں انشورنس کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے۔ حکومت کو انشورنس انڈ سٹری کے فروغ کے لیے اقدامات لینا پڑیں گے ۔ لوگوںکو آگاہی دینا ہو گی کہ انشورنس کیا ہے ۔

ہما رے ملک میں لا زمی انشورنس نہیں ہے جو دیگرکئی ملکوں میں ہے ، حکومت کو چاہیے کہ وہ شہریوں کے محفوظ مستقبل کے لیے انشورنس کو لازمی قرار دے۔ ہمارے ملک میں موٹر انڈسٹری کی انشورنس بھی لازمی نہیں ہے میرے نزدیک یہ بھی لازمی ہونی چاہیے۔لازمی انشورنس، ٹیکس کی صورت میں حکومتی ریونیو میں اضافے کا بھی سبب بنے گی۔لوگوں کو انشورنس کے حوالے سے شعور دینا لازمی ہے لہٰذا تعلیمی نظام میں انشورنس کے حوالے سے مضمون شامل کیا جائے۔ معاشرے میں انشورنس کے حوالے سے غلط اندازہ ہے ہمیں انشورنس دستاویزات کو پڑھنا چاہیے ۔ انشورنس لینے سے پہلے انشورنس کی شرائط پڑھنا ضرور ی ہیں مگر لوگ نہیں پڑھتے۔ اس کے علاوہ شعور نہ ہونے کی وجہ سے غلط معلومات پھیلتی ہیں۔

ای ایف یو انشورنس کے اعداد و شمار کے مطابق 2016ء میں 8 ہزار 468 کلیمز میں سے 8 ہزار 200 لوگوں کو ادائیگی کی گئی۔ 2017ء میں 9 ہزار 917 کلیمز میں سے 9 ہزار 547 لوگوں کو ادائیگی کی گئی ۔ اسی طرح 2018ء میں 13 ہزار 286 کلیمز میں سے 12 ہزار 881 لوگوںکو انشورنس کلیمز کی ادائیگی کی گئی اور صرف 3 فیصد کلیمز مستر د ہوئے ، یہ وہ اعداد و شمار ہیں جونمایاں نہیںکیے جا تے۔ حکومت کا ہد ف یہ ہونا چاہیے کہ ملک کے ہر فرد اور شہری کی زند گی اور پراپرٹی انشورڈ ہو ۔ میرے نزدیک انشورنس ایکٹ پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ، اس میں انڈسٹری کی طرف سے کا فی ان پٹ آیا ہے لہٰذا نئی قانون سازی کر کے اس کو بہتر بنایا جائے۔ انڈسٹری پر 16فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے، یہ ٹیکس کم کیا جائے۔ وفاقی انشورنس محتسب کا انشورنس سے متعلقہ کیسز کو نمٹانے میں اہم کردار ہے ، حکومت وفاقی انشورنس محتسب کو مزید بااختیار کرے ۔ حکومت کو چاہیے کہ انشورنس محتسب جیسے اداروں کو مزید فروغ دے تاکہ عام لوگوںکو بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنایا جا سکے۔

محمد راحت صادق
(چیف ایگزیکٹو آفیسر یونائیٹڈانشورنس کمپنی آف پاکستان)
حکومت کو چاہیے کہ عوام کے مستقبل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے انشورنس کو لازمی قرار دے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ انشورنس قوانین پر نظرثانی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انشورنس کے فروغ کے لیے بھی اقدامات اٹھائے جائیں۔ انشورنس پالیسی خریدتے وقت لوگوں کیلئے اس کی تفصیلات میں جانا مشکل ہو تا ہے۔ انشورنس پالیسی میں بہت سی باریکیاں ہوتی ہیں لہٰذا جب انشورنس کلیمز ہو تے ہیں تو کلیم ڈیپارٹمنٹ انشورنس رولز کی ذیلی شقیں دیکھتا ہے اور اس کے بعد کلیم دیا جاتا ہے۔

انشورنس پالیسی پانچ سال بعد بلڈ ہو نا شروع ہو تی ہے لیکن بہت سے لوگ دوسال بعد ہی ری فنڈ کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ آج کل ہیلتھ ، ٹریول انشورنس کی شکایات آ رہی ہیں۔ انشورنس کمپنیاں اپنے صارفین کو سہولیات کی فراہمی کے لیے مسلسل کوشاں رہتی ہیں لیکن جو معلومات لوگوں کو نہیں ہمیںان کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں انشورنس کے بارے میں موجو د ابہام کو دور کیا جا سکے۔ انشورنس کے مسائل کے حل کے لیے انشورنس محتسب انتہائی اہم کر دار ادا کر رہے ہیں ، ان کے ادارے میں انشورنس سے متعلقہ معاملات کو بہت جلد نمٹا دیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک عوام کو حکومت کی جانب سے محتسب کے ادارے کی صورت میں ایک بڑی سہولت دی جا رہی ہے ، اس سے عدالتی نظام پر بوجھ کم ہوا ہے اور شہریوں کو بروقت انصاف کی فراہمی ہو تی ہے تاہم پالیسی ہولڈ رز میں انشورنس کے حوالے سے بہتری لانا حکومت اور ہما را فرض ہے اور ہم اپنے صارفین کو مطمئن کرنے کے لیے انشورنس میں بہتری لاتے رہیں گے۔

عبدالر ؤ ف چودھری
(سابق وفاقی ٹیکس محتسب پاکستان)
میں اس سیمینار کے منتظمین ایکسپریس میڈیا گروپ،وفاقی انشورنس محتسب اور سپانسرز ای ایف یو لائف اور یونائٹڈ انشورنس کمپنی کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے عوامی آگاہی کے لیے اس اہم سیمینار کا انعقا د کیا۔ میڈیا لوگوں میں شعور و آگاہی پیداکرنے کا بڑا ذریعہ ہے لہٰذا ایکسپریس میڈیا گروپ کی طرح دیگر میڈیا کو بھی اس طرح کے اہم موضوعات پر پروگرام کرنے چاہئیں کیونکہ جب تک میڈیا لوگوں کوآگاہی نہیں دے گا کہ وہ شکایات کیلئے وفاقی انشورنس محتسب کے پاس جائیں تب تک عوام ادھر ادھر پھرتے رہیں گے جس سے ان کے وقت اور پیسے کا ضیاع ہوگا۔ انشورنس کے حوالے سے لوگوں کو جو مسائل درپیش ہیں ان کی وجہ آگاہی کا نہ ہونا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگ اپنی ذمہ داری بھی پوری نہیں کرتے۔ انشورنس ایجنٹ بھی لوگوں کو پالیسی ٹھیک سے نہیں بتاتے۔ لوگوں کو چاہیے کہ انشورنس پالیسی خریدتے وقت اس کی شرائط بغور پڑھ لیا کریںتاکہ بعد میں انہیں کسی قسم کے مسئلے کا سامنا نہ ہو۔ انشورنس کے حوالے سے کسی بھی قسم کی شکایت کے ازالے کیلئے وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ موجود ہے۔ ادارہ وفاقی انشورنس محتسب لوگوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بہتر کام کر رہاہے۔

حسنات احمد
( ڈائریکٹرانشورنس سکیورٹیز اینڈایکسچینج کمیشن آف پاکستان)
موٹر انشورنس کے حوالے سے قانون میں تبدیلی کرکے وزیر خزانہ اور وزیر قانون کو مسودہ بھیج دیا ہے، اس میں دو چیزیں ہیں۔ نو فالٹ بیسز پر کلیم دیا جائے گا۔دوسرا ہم نے کلیم کی رقم میں اضافہ کیا ہے۔ اگر یہ جلد منظور ہوجائے تو اس سے عوام کو فائدہ ہوگا۔ موجودہ قانون میں کچھ خامیاں ہیں جس کی وجہ سے درست عملدرآمد نہیں ہورہا۔ انشورنس آرڈیننس میں ٹربیونل، ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹس ہیں مگر ہمارے ہاں سول کورٹس کلیم پر سٹے دے دیتی ہیں۔ اگر وزارت کی سطح پرکوئی ایسا نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے جس سے سول کورٹس کلیم کے کیس نہ سنیں۔ صرف ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹس ان پر حکم امتناعی دیں تو بہتری آسکتی ہے۔ انشورنس اس وقت ایک بنیادی ضرورت ہے جس کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینا انتہائی اہم ہے۔ تمام سٹیک ہولڈ ر ز کو چاہیے کہ وہ مل بیٹھ کر انشورنس کے قوانین میں موجود خامیاں دور کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک انشورنس کے ثمرات پہنچائے جا سکیں۔

معین الدین
(شکایت کنندہ)
میں نے 2006ء میں ٹرانسپورٹ کے کام کا آغاز کیا اور اس کی انشورنس کروائی۔ میں 2016ء تک پریمیم ادا کرتا رہا اور کوئی کلیم نہیں لیا۔ 2016ء میں میری گاڑی چوری ہوئی تو انشورنس کے کلیم کے حوالے سے میرا تجربہ برا رہا۔ میرے والد جو وکالت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ محتسب کے پاس جائو لہٰذا میں نے اپنا کیس محتسب کے پاس پیش کیا جس کی دو سماعتیں اسلام آباد اور دو کراچی میں ہوئیں۔ ایک چیز کا ذکر کسی نے بھی نہیں کیا کہ جن کمپنیوں نے غیر قانونی کام کیے تھے، وفاقی انشورنس محتسب نے باقاعدہ ان کا ذکر کیا کہ یہ غلط ہے، آپ قانون کے مطابق یہ کر نہیں سکتے۔ میرے نزدیک وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ صرف پیسے نہیں بچا رہا بلکہ آپ کو اپنا کیس خود پیش کرنے کا جو موقع فراہم کر رہا ہے ایسا کہیں بھی نہیں ہے۔ مجھے بھی اس سے پہلے اس ادارے کا علم نہیں تھا، لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کیلئے اس ادارے کے حوالے سے آگاہی دی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں