ناول ’’دھواں‘‘ اور نئی صنفِ سخن ’’چوکھمبیاں‘‘
ناقدین کی آرا اپنی جگہ درست سہی لیکن ایک قلم کار اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنا پر قلم اٹھاتا ہے۔
شعروسخن اور نثر نگاری کے حوالے سے کتابوں کی اشاعت خوش آیند بات ہے ، انھی کتب میں کچھ کتابیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ناقدین اور قارئین کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں انھی میں ایک ناول ''دھواں'' کے عنوان سے شایع ہوا ہے، جسے ادبی حلقوں نے پسند کیا، اسی طرح یوسف راہی چاٹگامی کا شعری مجموعہ ''چوکھمبیاں'' اشاعت کے مرحلے سے گزرا ''چوکھمبیاں'' اردو ادب کی ایک نئی صنفِ سخن ہے جس کے موجد یوسف راہی چاٹگامی ہیں۔
اس کتاب سے پہلے ہم ''دھواں'' پر بات کریں گے۔ ''دھواں'' کے مصنف شاکر انور ہیں، یہ ان کا پہلا ناول ہے اس سے قبل ان کی ایک کتاب ''خواب، خوشبو اور خاموشی'' شایع ہوچکی ہے، مذکورہ کتاب افسانوں کی تھی، شاکر انور کی شناخت افسانہ نگاری ہے وہ عرصہ دراز سے افسانے لکھ رہے ہیں، ادبی محافل میں بھی اپنے افسانے تنقید کے لیے پیش کرتے ہیں اور تعریف و تنقیص بخوشی قبول کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حوصلہ افزائی کے نتیجے میں مزید لکھنے کی خواہش جنم لیتی ہے وہ باصلاحیت اور تخلیقی جوہر سے مالا مال ہیں۔
افسانے سے ناول کی طرف قدم بڑھانے کی وجہ مصنف نے اپنے مضمون میں یہ بیان کی ہے کہ آج سے کئی سال قبل میں نے سدھارتھ ہرمین بسے کا ناول پڑھا تھا اور میرے ذہن میں ایک چنگاری سی جلی تھی، پھر میں نے لگاتار بہت سے ناول پڑھے قابل ذکر ایمائیل زولا کا ناول ''تھریسیا'' جی ایم کٹ سیسا کا Disgrace اور قیصر سلیم مرحوم کا ترجمہ کیا ہوا ناول بغداد بے رحم نہیں The Siren of Baghdad جسے یاسمیں خدرا نے تحریر کیا تھا اس کے ساتھ ہی مصنف کے دوست کی خودکشی نے انھیں گہرے صدمے سے دوچار کیا اور یہ دکھ ان کی روح میں اترگیا۔
ناول ''دھواں'' میں ان کے دوست اور اس کے خاندان کے افراد کرداروں میں سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ سچائی کے خمیر سے اٹھنے والی تحریریں یقینا متاثر کن ہوتی ہیں، شاکر انور کے ناول میں درد کی پرچھائیاں اور محرومیوں کا نوحہ سما گیا ہے۔شہزاد منظر نے حسن عسکری کے نظریات پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اچھا اور بڑا ناول لکھنا بہت مشکل کام ہے اور یہ کام ہر وہ شخص انجام نہیں دے سکتا جو افسانہ لکھنا جانتا ہو، اس لیے کہ افسانے اور ناول کی صنفیں نہ صرف مختلف ہیں بلکہ دونوں کی ہیئتیں اور فنی تقاضے بھی مختلف ہیں ۔
ناقدین کی آرا اپنی جگہ درست سہی لیکن ایک قلم کار اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنا پر قلم اٹھاتا ہے اور جوں جوں آگے بڑھتا ہے، کائنات کے رنگ اس کی وجدانی کیفیت پر غالب آجاتے ہیں اور کردار نگاری اسے بے شمار مسائل اور پیچ و خم سے آشنا کرتی ہے اور کہانی مختلف مناظر سے قاری کو روشناس کراتی ہے۔ تحریر کی دلکشی اور ماحول کی سحر انگیزی نے ناول ''دھواں'' کو قابل ذکر بنادیا ہے۔ ناول کے تمام کردار مربوط ہیں، اس کی کہانی اپنے آغاز سے انجام تک تجسس کی فضا کو پروان چڑھاتی ہے۔
مصنف نے مختصر کردار نگاری کے ذریعے ''دھواں'' کو تخلیق کے مرحلے سے گزارا ہے، دھواں غم اور مایوسی کا استعارہ ہے لیکن ناول نگار کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اندھیروں سے اجالے کشید کیے۔ گھٹن زدہ ماحول اور تاریکی میں امید کے دیے جلائے ہیں اور ڈوبتی کشتی کو چابکدستی اور فنی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کنارے پر پہنچا دیا ہے۔
اچھی تحریر کا وصف یہی ہوتا ہے کہ وہ قاری کے ہاتھ اور دل و دماغ پر اپنی گرفت مضبوط کرلیتی ہے، شاکر انور نے زندگی کی تلخیوں اور سانحات زیست کی عکاسی نفاست کے ساتھ کی ہے، اس کے ساتھ ہی کرداروں کی نفسیات اور فطری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہانی کو تخلیق کیا ہے۔ اسی وجہ سے تشنگی کا احساس غالب نہیں آتا ہے۔ اختتامی سطور بھی قاری کی خوشی اور سکون کو تقویت بخشتی ہیں۔
اب آتے ہیں صنف شاعری کی طرف، یوسف راہی چاٹگامی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اپنی علمی ادبی صلاحیتوں اور روشن افکار کے باعث پہچانے جاتے ہیں وہ ایک خوبصورت پرچے ماہنامہ ''زاویہ نگاہ'' کے مدیر بھی ہیں اور سالہا سال سے اپنے فرائض نہایت ذمے داری کے ساتھ ادا کر رہے ہیں وہ مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ اسلام کی روشنی سے ان کی شاعری جھلملاتی ہے۔ یوسف راہی کے کئی نعتیہ مجموعے شایع ہوچکے ہیں اور ایک مختصر سی کتاب جوکہ تعارف نامہ تھا ''چوکھمبی'' کے نام سے اور اب یہ کتاب جوکہ تقریباً 200 صفحات پر مشتمل ہے منظر عام پر آئی ہے اسے رنگ ادب پبلی کیشنز نے چھاپا ہے، آج کل اس اشاعتی ادارے نے مختلف موضوعات پر کتابیں شائع کرکے نام بھی کمایا ہے اور کام بھی خوب کیا ہے۔
یوسف راہی کا شعری مجموعہ ''چوکھمبیاں'' پر مشتمل ہے اور اس کا اختراع کا سہرا ان کے سر بندھتا ہے۔ خیام العصر محسن اعظم محسن ملیح آبادی یوسف راہی کی شعری تخلیقیت کے بارے میں لکھتے ہیں جناب یوسف راہی چاٹگامی نے ہیئت کے اعتبار سے ایک صنف سخن ''چوکھمبی'' کے نام سے اختراع کی ہے چوکھمبی کے متعلق جو ان کا خیال ہے وہ بھی تحریری طور پر پیش کیا ہے وہ خود کو مخترع یا موجد کہتے ہیں۔ انھوں نے چوکھمبی میں معاملات حسن و عشق رومانی احساسات، ہجر و فراق، قربت و وصل جیسے روایتی موضوعات سے گریز کی خواہش ظاہر کی ہے، مگر یہ پابندی میرے خیال میں غلط ہے کیونکہ ان کے یہاں رومانی چوکھمبیاں موجود ہیں۔ انھوں نے یہ سب باتیں اختصاص وحدت کے پیش نظر کہی ہیں۔
یوسف راہی نے مربع یا قطعہ چہار مصرعی کی تبدیل کردہ شکل کا ہندی الاصل نام جو اردو ہی کی ایک صورت ہے چوکھمبی رکھا ہے اس کا صحیح ترجمہ چار ستون والی ہے۔ یوسف راہی چاٹگامی بھی دور حاضر کے ایسے شعرا سے تعلق رکھتے ہیں جو تجربہ کرنے کے حق میں ہیں اس لیے کہ کوئی فن جامہ کبھی نہیں رہتا۔ یوسف راہی خاصے زمانے سے شعر گوئی کی طرف مائل ہیں، حمد و نعت غزل اور دیگر اصناف میں کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں۔ ان کے یہاں حیات وکائنات کے روشن اور تاریخ پہلوؤں کی نشاندہی سادہ انداز میں ملتی ہے۔
انھوں نے ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی پر توجہ مرکوز کردی ہے۔ خیام العصر محسن اعظم ملیح آبادی نے ان چوکھمبیوں کا انتخاب کیا ہے جن میں زندگی کے مختلف رنگ نمایاں ہیں۔ شاعر کو وطن سے محبت ہے، عشق اللہ و رسول اور ساتھ میں انسانی خوبیاں اور خامیاں بھی ان کی شاعری میں جا بجا نمایاں ہیں۔ دیکھتے ہیں اس چوکھمبی کو
زمانہ برا ہے' زمانہ برا ہے
ذرا سوچو تم' کیا یہ کہنا بجا ہے
تمہی ہو خطاکار' تم سے خطا ہے
برا مت کہو کہ زمانہ خدا ہے
یوسف راہی نے اپنی شاعری میں جو چوکھمبیوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے مختلف موضوعات کو برتا ہے۔ ان میں حمدیہ، نعتیہ، منقبتی اور معاشرتی مسائل، انسانی خوبیوں اور خامیوں اور اپنے چاہنے والوں کی محبت میں چوکھمبیاں تخلیق کی ہیں ایک اور چوکھمبی ملاحظہ فرمائیے۔
یہ دل تو نہیں ہے کوئی خوش خصال
کسی کے بھی دل میں نہیں ہے جمال
کوئی شخص رکھتا نہیں یہ کمال
ہر اک سے میں یہ پوچھتا ہوں سوال
انسان کے دکھوں اور غموں کی عکاسی کچھ اس انداز میں کی ہے
ہر ایک شخص پیاسا دکھائی دیا
ہر اک شخص دکھ میں مبتلا
کوئی بھی غموں سے نہیں ورا
ہر اک دل محصور آہ و بکا
شفیق احمد شفیق جوکہ شاعر ہیں، افسانہ نگار اور نقاد ہیں انھوں نے یوسف راہی کی مشق سخن پر اظہار خیال کیا ہے اور انھوں نے اپنا مکمل مضمون صنفِ شاعری کی تعریف اور وضاحت کے حوالے سے لکھا ہے، بھرپور مضمون ہے اور تین چوکھمبیاں بھی نذر قارئین کی ہیں۔
برائی سے دامن چھڑاؤ اے لوگو!
جہنم سے خود کو بچاؤ اے لوگو!
جو ہے اصل چہرہ دکھاؤ اے لوگو!
نہ دل کو کسی کے دکھاؤ اے لوگو!
یوسف راہی اپنے مضمون ''چوکھمبی اردو ادب کی نئی صنف سخن'' میں لکھتے ہیں چوکھمبی سے مراد چار کھمبوں والی، چار کھونٹوں والی، چار پایوں والی، چارپائی، اردو ادب کی اس صنف میں چار مصرعے رکھے گئے ہیں اور چاروں مصرعے ایک وزن میں ہیں، ابھی تک اردو ادب میں چار مصرعوں کے اصناف، قطعہ مربع اور ربائی پائے جاتے ہیں، چوکھمبی ان سب سے بحر، موضوع اور ہیئت کے لحاظ سے بالکل مختلف اور منفرد ہے۔ بہرحال یوسف راہی چاٹگامی کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ اسی طرح دھواں کے مصنف ممتاز افسانہ نگار سے یہ توقع ہے کہ اب جب کہ وہ ناول کی طرف چل نکلے ہیں تو اس سفر کو جاری رکھیں۔